کتوں کے لیڈر کی جوابی کارروائی

کتوں کے لیڈر کی جوابی کارروائی

کتوں نے احتجاج کرتے ہوئے انسانوں سے التجا کی ہے کہ براہ کرم اپنے مسائل میں ان کو نہ گھسیٹیں اور الٹی پلٹی مثالیں بھی ان سے منسوب مت کریں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہماری دنیا انسانوں سے بالکل مختلف ہے، ہم بھونکتے ہوئے یہ نہیں دیکھتے کہ سامنے والا،کتنا کمزور یا کتنا طاقتور ہے، بلکہ ہم کمزور اور طاقتور دونوں پر اتنا ہی شدت سے بھونکتے اور ان کو احساس دلاتے ہیں کہ آپ بیجا ہمارے علاقے میں گھس آئے ہیں۔ ہاں اگر کوئی دُم دبا کے دانت نکالے اور ہمیں احساس دلائے کہ وہ غلطی سے ادھر آئے ہیں تو ہم بڑا پن دکھاتے ہوئے خاموشی سے بیٹھ جاتے ہیں۔


اور آپ کو ہم یہ بھی بتانا چاہیں گے کہ ہم کبھی بھوکے نہیں مرتے، کہیں نہ کہیں سے کھانے کا بندوبست ہو جاتا ہے، کیونکہ ہم اپنی فطرت کے عین مطابق کھانے کی تلاش میں رہتے ہیں اور اپنی محنت و جستجو سے دو وقت کی روٹی کا بندوبست تو کر ہی لیتے ہیں، ہاں یہ الگ بات ہے کہ وہ کھانا کبھی کم ہوتا ہے تو کبھی زیادہ، اور آپ (انسان) جو غلاظت کرتے ہو، اس کا صفایا بھی ہم ہی کرتے ہیں، وہ راستے پر پھینکا، مرا ہوا جانور ہو یا اور کچھ، آپ تو یہ بھی نہیں سوچتے کہ ذبح شدہ جانور کی اوجڑی کہاں پھینکنی ہے اور ان سے نکلا ہوا باقی ماندہ گند کہاں پر دبانا ہے۔ تو اگر ہم نہ ہوں تو آپ اپنی ہی پھینکے ہوئے گند سے تنگ ہو جائیں اورکئی قسم کی وائرل بیماریوں میں جکڑے جائیں۔ تو بجائے ہمارا شکریہ ادا کرنے کے پتہ نہیں کس کس قسم کے جملے ہم پر کستے ہیں اور مثالیں بناتے ہیں۔


آپ ذرا یہ سوچیے کہ آپ کے اس محاورے سے ہم کو کتنی تکلیف ہوتی ہوگی کہ دھوبی کا کتا نہ گھر کا نہ گھاٹ کا۔ اس مثال سے آپ انسانوں کا اُلو پن ظاہر ہوتا ہے، کیونکہ میں اگر اپنے مالک کے ساتھ چلتا ہوں تو اس میں کیا قباحت ہے، میرا مالک مجھے اتنی محبت دیتا ہے کہ میں اس کے پیار میں جہاں وہ جاتا ہے وہاں میں بھی اس کے ساتھ جاتا ہوں۔ محبت کے اس رویے کو آپ (انسان) محسوس نہیں کر سکتے، کیونکہ آپ کا ہر عمل کسی نہ کسی مفاد پر ہوتا ہے۔ مجھے پتہ ہے کہ میں اپنے دھوبی مالک کے ساتھ جاؤں گا تو مجھے وہاں نہ تو کھانا ملے گا اور نہ ہی بیٹھنے کے لئے چھاؤں، مگر پھر بھی میں اس کے ساتھ جاتا ہوں، کیونکہ میرا مالک جلتی دھوپ میں کپڑے دھوتا ہے، جس سے وہ اپنے بچوں کے لئے کھانے کا بندوبست کرتا ہے، تو اس سے مجهے بهی کهانے کو مل جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں اپنے مالک کے ساتھ وفادار ہوں اور اس کے ساتھ کڑی دھوپ میں گھاٹ پر جاتا ہوں۔


آپ کو یہ بهی بتا ديں کہ ہم وفاداری کبهی تبديل نہيں کرتے، ہمارا مالک چاہے خانہ بدوش کيوں نہ ہو، ہم ساری زندگی اس کے ساتھ رہتے ہيں، کسی کے خوف يا بڑا بنگلہ وغيره ديکھ کر اس کے پيچهے نہيں لگتے، بلکہ اسی خانہ بدوش مالک کے ساتھ ساری زندگی بسر کر ليتے ہيں۔ ہاں ہمارا مالک خود ہميں کسی اور حوالے نہ کر دے، ورنہ ہم اسی کے ساتھ ہی وفادار رہتے ہيں۔


ہم نے بارہا لوگوں سے سُنا ہے کہ کتے کی موت مارے جاؤ گے، تو آپ سے عرض یہ ہے کہ ہم کتے آپس میں لڑ کر کبھی نہیں مرتے، ہماری زیادہ اموات بھی آپ انسانوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ کہیں پر کوئی سر پھرا یا نشے کی حالت میں تیز رفتار گاڑی کے نیچے ہمارے کسی ساتھی کو کچل کر چلا جاتا ہے تو کہیں پر میونسپل کمیٹی والے کچھ ڈرپوک لوگوں کے کہنے پر کھانے میں زہر ملا کر ہمیں دیتے ہیں اور ہم تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں، جس کا کسی کو کوئی رحم نہیں ہوتا۔ بھیا مارنا ہے تو بندوق اُٹھا کر سیدھی سر میں گولی مارو، دھوکے سے کھانے میں زہر ملا کر کیوں مارتے ہو اور اوپر سے کہتے ہو کہ کتے کی موت مارا گیا۔


ميرے دادا بتاتے ہيں کہ کسی دور ميں جب ہمارے ملک کے روپے کی قدر تهی، تب سرحد پر ميرے دادا اور اس کے رشتہ دار ملے، ميرے دادا سے ان کے رشتہ دار نے پوچها کہ آپ کے ملک ميں خوشحالی ہے اور ہماری نسبت روپے کی بهی قدر ہے، تو آپ اتنے دبلے پتلے کيوں ہيں، جب کہ ميری صحت بهی ديکهو، تو دادا نے جواب ديا کہ بهيا ہميں کهانا تو بہت ميسر ہے مگر بهونکنے کی اجازت نہيں ہے۔


تو ہماری آپ سے يہ بهی گذارش ہے کہ ہمارے بهونکنے پر پابندی نہ لگائی جائے اور ہميں آزادی اظہار دی جائے۔


ہم فیض صاحب سے بہت محبت کرتے ہیں کہ انہوں نے ہم پر یہ خوبصورت نظم لکھی، آپ بھی سُنيں:


یہ گلیوں کے آوارہ بےکار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار، ان کی کمائی
نہ آرام شب کو، نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر، نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے

مصنف مختلف سندھی اخباروں کے لئے لکھتے رہتے ہیں