ڈاکڑوں کو لاٹھیاں ہی پڑنی چاہیے تھیں

ڈاکڑوں کو لاٹھیاں ہی پڑنی چاہیے تھیں
ملک میں پھیلی وبائی مرض کے خلاف اگلی صفوں میں برسر پیکار بلوچستان کے ڈاکڑوں کو حفاظتی کٹس اور طبی آلات کی عدم فراہمی کے خلاف آواز اٹھانے کی پاداش میں پولیس والوں سے لاٹھیاں کھاتا دیکھ کر جانے کیوں اپنے والدین کی طرف احساس فخر کی ایک نگاہ دوڑانے کا دل للچایا۔ والدین جو کہ طب کے شعبے سے وابستہ ہیں، پر ایسی خصوصی نظر دوڑانے کا مقصد اس درست فیصلے کا انتخاب تھا، جس پر عمل درآمد کرتے ہوئے ان کے پیشے سے لا تعلقی کا اظہار کیا۔ لیکن اس احساس فخر کو زیادہ دیر اس لئے برقرار نہیں رکھا جا سکتا تھا کہ ان کا مرضی کا مالک سپوت، طب سے زیادہ پرخار میدان میں داخل ہوا جو عرفِ عام میں صحافت کے نام سے مشہور ہے۔

اس میدان کے کھلاڑیوں پر عموماً پولیس والے لاٹھیاں برسانے سے ہچکچاتے ہیں لیکن ان کو ’مالکان صحافتان‘ کی فراہم کردہ جسمانی، ذہنی اور مالی استحصال کی اذیت لاٹھیوں کی چوٹ سے زیادہ کچوکے لگاتی ہیں۔ ٹائم پر سیلری کی فراہمی کی خواہش رکھنا تو گویا ان سیٹھوں کی نظر میں گناہ کبیرہ کے مترادف ہے۔ ایسے ’سیٹھ صحافتان‘ اپنے ورکرز سے یہ امید لگاتے ہیں کہ وہ ہوا اور پانی پر بخوشی انحصار کرتے ہوئے ان کے ذاتی ایجنڈوں کی تشہیر کریں۔

خیر اگر گفتگو کا رخ دوبارہ موضوع کی طرف موڑا جائے تو بات یہ ہے کہ ڈاکڑ حضرات کو لاٹھیاں اس لئے پڑنی چاہیے تھیں کہ یہ لوگ پیشے کا انتخاب کرنے میں نہیایت بدذوق ثابت ہوئے ہیں۔ اگر یہ لوگ بھاری بھر کم کتابیں چاٹنے کی بجائے سیاست میں آنے والا سہل راستہ ناپتے تو نہ صرف ان کو ریاست کی جانب سے سلیوٹ کیے جاتے بلکہ آج یہ ڈاکڑوں والے حفاظتی سامان سے بھی لیس ہو کرعوام کے درمیان آ کر ان کی مسکینی کا تمسخر اڑا سکتے۔ نیز اس کٹھن وقت میں مال و دولت اور وقت کی فراغت سے بھی خوب محظوظ ہو رہے ہوتے۔



دیکھا جائے تو ڈاکڑوں کو لاٹھیاں بالکل میرٹ پر پڑی تھیں کیوں کہ اگر یہ حضرات اعلیٰ نمبروں میں انٹر پاس کرنے کے بعد انٹری ٹیسٹ کے عذاب جھیلنے کے بجائے ڈنڈ پیل کر ایک ایسے طاقتور ادارے میں بھرتی ہونے کی کوشش کرتے جس کا نام لیتے ہوئے لکھاری اور پبلیشر دونوں کے پر جلتے ہیں تو آج یہ حضرات سٹیتھو سکوپ کی بجائے ایک ایسی ’لاٹھی‘ سے کھیل رہے ہوتے جس کے سامنے مملکتِ خدادا کے ہر ذی روح  کو ’بھینس‘ بننا پڑتا ہے۔

اگر ان ڈاکڑ حضرات کو کتابوں سے اتنا مغز ماری کا شوق تھا تو جانے انہوں نے مقابلے کے امتحان میں شمولیت کیوں نہیں کی؟ اس درست انتخاب کی وجہ سے آج وہ سرکاری دفتروں کے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر فائلوں کو اپنے قیمتی دستخطوں سے مزین کر رہے ہوتے نہ کہ اگلی صفوں میں موذی وبا سے خطرہ مول لیتے پھرتے۔ یہ ڈاکڑ حضرات لاٹھیاں کھانے میں بالکل حق بجانب تھے کیوں کہ انہوں نے دنیا کو دین پر ترجیح دی۔ اگر یہ حضرات دین کو دنیا پر ترجیح دیتے تو نہ صرف ان کی آخرت محفوظ تصور کی جا سکتی بلکہ ان کے ’چٹکلوں‘ سے فیض یاب ہونے والے عقیدت مندوں کی بھی ایک لمبی فہرست ہوتی۔

جانے ان ڈاکڑ حضرات کی عقل کیوں ماری گئی تھی کہ انہوں نے قانون جیسے پیشے کو ذریعہ روزگار منتخب نہیں کیا؟ ایسے درست حسن انتخاب کی وجہ سے نہ صرف ان کے ہاتھ لمبے ہو سکتے تھے بلکہ جز وقتی مشغلے کے طور پر دوسروں کی مار پیٹ کر کے بھی دھونس بھری زندگی گزار سکتے تھے۔ بلاشبہ یہ ڈاکڑ لاٹھیاں کھانے کے مستحق تھے کیوں کہ ان لوگوں نے کاروبار کرنے کی بجائے اپنے وقت اور وسائل کو میڈیکل کی تعلیم میں جھونکنے پر ترجیح دی۔



انسانی جسموں کا ٹھوک بجا کرنے سے اتنا ہی لگاؤ تھا تو ان لوگوں کو میڈیکل سٹور کھول لینا چاہیے تھا، پانچوں انگلیاں گھی میں ڈال کر لگے ہاتھوں دوا کے ساتھ نسخے بھی فراہم کرنا شروع کر دیتے۔ خیر شاید ابھی بھی اتنی دیر نہیں ہوئی۔ ڈاکڑ حضرات ایسے نامواقف حالات میں وائرس سے جان کا خطرہ مول لینے کی بجائے اپنے آلات جراحی سے حجامت بنانے کی پریکٹس شروع کر دیں۔ نہ صرف لاٹھیاں کھانے سے محفوظ رہیں گے بلکہ عوام میں بھی خوب آؤ بھگت ہو گی۔  یہی ہمارے معاشرے کا ایک تلخ مگر حقیقی چہرہ ہے۔

لکھاری ایک نجی چینل سے وابستہ ہیں۔