آج ایسا ماحول بن گیا ہے کہ عدلیہ اسٹیبلشمنٹ سے بھی طاقتور نظر آ رہی ہے۔ اور شاید یہی وجہ ہے کہ عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان فاصلے نظر آ رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ عدلیہ کے اس نئے آزادانہ سے کافی پریشان ہے اور انہیں اس کا کوئی حل بھی نظر نہیں آ رہا۔
ہم پہلی مرتبہ دیکھ رہے ہیں کہ عدلیہ نے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو بھی آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ پہلی دفعہ ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے درمیان اختلاف ہی نہیں، پالیسی کا فرق بھی نظر آ رہا ہے۔
عدالتی ریمارکس سے لگتا ہے کہ موجودہ حکومت کے دن گنے جا چکے ہیں۔ عدالتی فیصلے ہر روز اس حکومت کے لئے نئے سے نئے چیلنج پیدا کر رہے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ حکومت نے عدلیہ کے سامنے مکمل طور پر سرنڈر کر دیا ہے۔ آپ اندازہ لگائیں کہ اب تو عدلیہ کی منظوری کے بغیر حکومت اٹارنی جنرل بھی نہیں لگا سکتی۔ مطلب عدلیہ اب یہ بھی طے کرے گی کہ حکومت کی طرف سے بطور وکیل ان کے سامنے کون پیش ہو گا۔
یہ بھی پڑھیے: پنجاب کا مرشد علی افضل ساہی!
اگر وکیل ان کی مرضی کا نہیں ہو گا تو نتائج کی ذمہ دار حکومت خود ہوگی۔ اسی لئے اٹارنی جنرل کی تعیناتی کا معاملہ کئی روز تک لٹکا رہا کیونکہ عدلیہ منظوری نہیں دے رہی تھی۔
جیسا کہ کئی مبصرین کہہ چکے ہیں، ملک میں جاری سیاسی لڑائی میں عدلیہ بھی تقسیم کا شکار نظر آتی ہے۔ پچھلے چند سالوں میں ایسا تاثر ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں ہوتا تھا کہ وہ کس کے ساتھ ہیں۔ لیکن اب یہ جاننا بھی ضروری ہو گیا ہے کہ عدالت کیا سوچ رہی ہے۔
پہلے آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس سیاسی منظرنامے کے لئے اہم ہوتی تھی۔ اب عدالتی ریمارکس اہم ہوتے ہیں۔ عدالتی ریمارکس بتاتے ہیں کہ معاملہ کس طرف جا رہا ہے۔ بنچ سے پتہ چل جاتا ہے کہ کیس کا کیا فیصلہ ہوگا۔ ججز کا جھکاؤ سیاست دانوں کے جھکاؤ کی طرح کھلی کتاب بن گیا ہے۔
ایک ہی بنچ کیوں سارے مقدمات سن رہا ہے، یہ بھی سب کو معلوم ہے۔ کس جج کو سینیئر ہونے کے باوجود کوئی کیس نہیں دیا جا رہا، یہ بھی سب جانتے ہیں۔
جیسے آرمی چیف اپنی من پسند ٹیم بنا کر اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھاتا ہے، آرمی چیف کے من پسند جرنیل اس کے کنٹرول کو بڑھاتے ہیں، ایسے ہی مخصوص بنچ بھی کسی کے کنٹرول کو بڑھاتے ہیں۔ جیسے ایک جنرل بہت اہم ہوتا ہے، ایسے ہی ایک بنچ بھی بہت زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
اب تک عدالت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا اتحاد نظر آیا ہے۔ لیکن اب یہ اتحاد اتنا مضبوط نہیں دکھائی دے رہا۔ شاید اب عدلیہ نے جان لیا ہے کہ آج کے پاکستان میں وہ سب سے طاقتور ادارہ ہیں۔ اور اب ان کے فیصلے ہی مستقبل کا فیصلہ کریں گے۔ رہی بات آئین و قانون کی تو اس کی تشریح کا تو اختیار ہی عدلیہ کا ہے اور چونکہ ان کے سابقہ فیصلوں کو کسی نے چیلنج نہیں کیا، اس بار بھی انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔
یہ بھی پڑھیے: سینیئر سیاست دان نے کہا؛ ‘بات کر کے مُکر جانے والا پہلا ڈی جی آئی ایس آئی دیکھا ہے’
ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے عدلیہ کی ضرورت ہے۔ عدلیہ کو اپنے اہداف حاصل کرنے کے لئے ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی ضرورت نہیں۔ ان کا اپنا حکم ہی کافی ہوتا ہے۔
آپ مانیں یا نہ مانیں لیکن ملک میں عدلیہ نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے۔ ہم یہ سب کچھ جسٹس افتخار چودھری کے دور میں دیکھ چکے ہیں کہ اعلیٰ عدلیہ کی قانون اور آئین کی تشریحات سویلین حکومتوں کو بے بس کر دیتی ہیں۔ جس طرح ایک چیف کے سامنے باقی جنرل بے اثر ہو جاتے ہیں، اسی طرح افتخار چودھری کے زمانے میں ایک چیف کے سامنے باقی جج بھی بے اثر نظر آتے۔ اس وقت بھی دونوں چیفس کے پاس یکساں اختیارات نظر آتے تھے۔
پنجاب حکومت کے مقدمات میں عدلیہ کے تقریباً تمام فیصلوں نے تحریکِ انصاف کو سیاسی فائدہ پہنچایا۔ اب بھی ہم دیکھ رہے ہیں کہ لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ جن کو ماضی میں تحریک انصاف برا بھلا کہتی تھی، اب وہیں سے انصاف کی توقع لگائے بیٹھی ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے مقدمات بھی لاہور ہائی کورٹ میں دائر کیے جا رہے ہیں۔
جن مقدمات میں اسلام آباد ہائی کورٹ سے ریلیف نہیں مل رہا، وہ بھی لاہور ہائی کورٹ میں دائر کیے جا رہے ہیں جو اپنی جگہ ایک نئی مثال ہے لیکن عدلیہ نے اس رجحان کو نظر انداز کیا ہے جس سے اس امر کی حوصلہ افزائی ہو رہی ہے۔
کیا جس طرح ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے غیر سیاسی ہونے کے لئے مہم چلائی گئی، اسی طرح حقیقی انصاف کے لئے بھی مہم چلانا ہوگی؟ آئین و قانون اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے عدلیہ کے فیصلوں اور رجحانات کے بارے میں سوال اٹھانا ضروری ہو چکا ہے کیونکہ ریاست کے ہر ستون کو آئین میں درج دائرہ کار میں رہتے ہوئے کام کرنا ہے اور اس کو یقینی بنانا عوام کی ذمہ داری ہے۔