'لاڈلے' معجزانہ طور پر ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے سے محفوظ رہتے ہیں
اس واقعمے کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کیلئے بھی انتخابی مہم چلانا تقریباً ناممکن ہو جائے گا۔ اس سے پہلے کہ عوام کو یہ بتایا جائے کہ دہشت گردی میں افغانی طالبان نیٹ ورک یا بیرونی خفیہ ایجنسیاں ملوث ہیں، ایک سوال کا جواب دینا ہو گا۔ آخر کیا وجہ ہے کہ انتخابات کے قریب دہشت گردی کے حملے اور قاتلانہ حملے صرف مخالف قوتوں پر ہوتے ہیں اور 'لاڈلے' معجزانہ طور پر ہمیشہ دہشت گردوں کے نشانے سے محفوظ رہتے ہیں۔ سوال تو منصف کی کرسی ہر بیٹھے اس شخص سے بھی بنتا ہے جس نے یہ کہہ کر سیاستدانوں سے سیکیورٹی واپس لینے کا فیصلہ کیا تھا کہ دہشت گردانہ حملوں سے کچھ نہیں ہوتا ایک دن سب کو لوٹ کے جانا ہے۔ آج اس شخص کو ہارون بلور کی بیوہ اور بچوں کے سامنے کھڑا کرنا چاہیے تاکہ اس کو احساس ہو کہ دہشت گردی کے حملوں میں جو لوگ ہلاک ہوتے ہیں ان کے پسماندگان بھی جیتے جی موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں۔ خود بیسیوں گاڑیوں کے پروٹوکول اور محافظوں کے حصار میں پھرنے والے منصف پر ہارون بلور کی ہلاکت کی ایف آئی آر نامزد رنے کا عندیہ اسفند یار والی نے بھی دیا ہے۔
ہم خود اپنے قتل ہونے کا تماشہ کب تک دیکھیں؟
ہارون بلور کی مانند پاکستان پر بھی خود کش حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔ یہ تکلیف یہ دکھ اب برداشت سے باہر ہے، ہم خود اپنے قتل ہونے کا تماشہ کب تک دیکھیں اور یہ جانتے ہوئے کہ ہمارا دفاعی بیانیہ سراسر غلط ترجیحات پر مبنی ہے کب تلک ہم اس گلے سڑے بیانئے کے قیدی بن کر حب الوطنی کی پھکی کھاتے جائیں؟ اب اعصاب جواب دے چکے ہیں اور شاید اب محض مرنے والوں کو شہید کا لقب دے کر موت کو گلوریفائی کرنے کے عمل کو دیکھ کر بھی چشم تماشہ اکتا چکی ہے۔
راؤ انوار کے لئے قانون کچھ اور ہے، تین بار کے منتخب وزیر اعظم کے لئے کچھ اور
کمال بے حسی اور ڈھٹائی ہے کہ راؤ انوار جیسے چار سو چوالیس افراد کے قاتل درندے کو جے آئی ٹی رپورٹ میں جرم ثابت ہونے کے باوجود بھی ضمانت مل جاتی ہے اور سیاسی مخالفین کو دفعہ ایک سو چوالیس کی خلاف ورزی پر بھی ضمانت سے محروم رکھا جاتا ہے۔ راؤ انوار کی ضمانت اس ملک کے قانونی نظام پر ایک زناٹے دار تھپڑ کی مانند ہے اور بچہ بچہ اس حقیقت کو جانتا ہے کہ راؤ انوار جیسا اجرتی قاتل کس کے 'ہٹ مین' کے طور پر کام کرتا تھا۔ یعنی ایک اجرتی قاتل محض فیورٹ ہونے کے باعث قانون کو جوتے کی نوک پر رکھ سکتا ہے جب کہ تین دفعہ وزیراعظم منتخب ہونے والا شخص محض ناراضگی کے سبب یکطرفہ اور انتقامی کارروائی کے نتیجے میں سبق سکھانے کی خاطر نام نہاد قانون کے شکنجے میں پھنسا دیا جاتا ہے۔
ساڑھے تین لاکھ فوج کے پولنگ سٹیشنوں پر ڈیوٹی دینے کے عمل کو کسی بھی وضاحت سے درست نہیں ثابت کیا جا سکتا
دوسری جانب آصف غفور صاب نے پریس کانفرنس کے ذریعے جتنا وقت اپنے ادارے کی سیاسی سرگرمیوں کی وضاحتیں دینے میں صرف کیا اگر اس کے بجائے وہ قیمتی وقت اپنے ادارے کو سیاسی سرگرمیوں میں ملوث نہ کرنے کی کوششوں میں صرف کرتے تو آج نوبت یہاں تک نہ آتی کہ ان کے ادارے کو وضاحت دینا پڑتی۔ ساڑھے تین لاکھ فوج کے پولنگ سٹیشنوں پر ڈیوٹی دینے کے عمل کو کسی بھی وضاحت سے درست نہیں ثابت کیا جا سکتا۔ اتنی بڑی تعداد میں فوج کی تعیناتی ایک غیر معمولی اقدام ہے اور جب ایک سیاسی جماعت کو اس تعیناتی پر خدشات ہیں تو ایسے میں فوج کو الیکشن کے عمل سے باہر رکھنا ہی دانشمندانہ فعل ہے۔
13 جولائی کو لاہور میں اگر عوام کی بڑی تعداد نواز شریف اور مریم نواز کا استقبال کرنے لاہور ائر پورٹ آن پہنچی تو صورتحال کنٹرول نہیں ہو پائے گی
اس دوران راولپنڈی میں جس طریقے سے مسلم لیگ نواز کے کارکنوں کو گرفتار کیا جا رہا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کچھ قوتیں نواز شریف اور مریم نواز کی پاکستان آمد سے خائف ہیں۔ 13 جولائی کو لاہور میں اگر عوام کی بڑی تعداد نواز شریف اور مریم نواز کا استقبال کرنے لاہور ائر پورٹ آن پہنچی تو صورتحال کنٹرول نہیں ہو پائے گی۔ بھلے ہی نواز شریف اور مریم کو جہاز کے اندر سے ہی گرفتار کر کےاڈیالہ جیل بھیج دیا جائے اگر کارکن بڑی تعداد میں ائرپورٹ پہنچ گئے تو شاید احتجاج کا سلسلہ پورے پنجاب تک پھیل سکتا ہے۔
مہرے چند ماہ بھی حکومت نہیں چلا پائیں گے
انتخابات میں جس قدر وسیع پیمانے پر پری پول رگنگ کی گئی ہے اس کے بعد انتخابات کا عمل مشکوک بن چکا ہے۔ ایسے میں انتخابات کے نتائج کو مسلم لیگ نواز ہرگز تسلیم نہیں کرے گی اور اگر پیپلز پارٹی نے بھی نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو شاید مہرے چند ماہ بھی حکومت نہیں چلا پائیں گے۔ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ اب دھاندلی کرتے ہوئے عمران خان یا سنجرانی ٹائپ کٹھ پتلیوں کو وزارت عظمی پر فائز نہیں کروایا جا سکتا۔
چیف جسٹس، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ کو عوام کی ایک کثیر تعداد انتخابات میں فریق سمجھتی ہے
اگر آپ اب بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے عاری ہیں تو پھر اگلے چند ماہ میں جو کچھ ہونے جائے گا اس کے سنگین نتائج کی ذمہ داری سے کوئی قوت اپنے آپ کو بری الذمہ قرار نہیں دے پائے گی۔ یہ کھیل ستر برس سے کھیلا جا رہا ہے لیکن اب کی بار اس کھیل کا نتیجہ ہاتھوں سے نکل چکا ہے۔ چیف جسٹس، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ متنازعہ بن چکے ہیں اور عوام کی ایک کثیر تعداد انہیں انتخابات میں ایک فریق سمجھتی ہے۔ اگلے چند ماہ میں ڈالر اور پٹرول کی قیمتیں جس بلند ترین حد کو چھوئیں گی اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کرنے کے لئے کافی ہے۔ معاشی استحکام سیاسی استحکام کے بنا ناممکن ہے اور جب پس پشت قوتیں خود سیاسی عدم استحکام کا باعث بنیں تو پھر شاید ہم تیزی سے تنزلی کے سفر کی راہ پر چل نکلیں گے۔ یہ گیم اب اختیار سے باہر نکل چکی ہے اور شاید ہم تیزی سے ایک ایسے تصادم کی جانب بڑھ رہے ہیں جو کہ وطن عزیز کے لئے ہرگز بھی سودمند ثابت نہیں ہو گا۔