آج کل اٹھارہویں ترمیم کی بحث میں این ایف سی ایوارڈ کا تذکرہ بھی بہت آ رہا ہے تو اس لئے 1973 کے آئین کے بعد مالیاتی وسائل کی تقسیم کے نظام اور موجودہ مسائل پر بات کرنا ضروری ہو گیا ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ الفاظ کی ہیرا پھیری کے ذریعے وفاقی نظام کے مالیاتی پہلو پر شب خون مارا جانے والا ہے۔
پاکستان ایک وفاقی مملکت ہے جس کے اندر چار وفاقی وحدتیں (جنہیں عرف عام میں صوبے کہتے ہیں) ہیں اور کچھ وفاق کے زیر انتظام علاقے، جن میں وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان شامل ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 160 کی رو سے ہر پانچ سال کے بعد صدر مملکت کو ایک قومی مالیاتی کمیشن (National Finance Commission) تشکیل دینا ہوتا ہے جو آنے والے پانچ سالوں کے لئے وفاقی سطح کی قابل تقسیم آمدنی کی وفاق اور صوبوں کے بیچ میں تقسیم کے لئے ایوارڈ کا اعلان کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فوجی آمریتوں کے دوران زیادہ تر نئے ایوارڈ نہیں اعلان کیے جاتے کیونکہ وفاق اور صوبوں کے بیچ میں اتفاق رائے نہیں بنتا اور آئین کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے پرانے ایوارڈ (یعنی ڈنگ ٹپاؤ) ہی سے کام چلایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے 47 سالوں میں صرف چار نئے ایوارڈ (1974، 1990، 2005 اور 2009) کا ہی اعلان ہوا ہے حالانکہ ایوارڈز کی گنتی دس تک پہنچنے والی ہے۔ (ایک آدھ دفعہ سول حکومت کے دوران بھی اتفاق رائے نہیں ہوا)۔
لیکن مالیاتی وسائل کی تقسیم میں سب سے بڑی زیادتی یہ ہوئی تھی کہ 2009 کے ایوارڈ تک مالیاتی وسائل کی تقسیم کی بنیاد سو فیصد آبادی ہی تھی جس سے آبادی کے لحاظ سے چھوٹے صوبوں کا حصہ نہ ہونے کے برابر ہوتا تھا۔ اس گہرے احساس محرومی کو کم کرنے کے لئے 2009 میں جمہوری حکومت کے دوران طویل مذاکرات کے بعد تقسیم کے معیار میں کچھ تبدیلی لائی گئی اور اب 82 فیصد آبادی، 10.3 فیصد غربت اور پسماندگی، 5 فیصد پیداوار اور جمع آوری، اور 2.7 فیصد کم آبادی کے باوجود جغرافیائی وسعت کو وسائل کی تقسیم کے لئے بنیاد بنایا گیا۔ اگر چہ اب بھی 82 فیصد معیار کا آبادی کی بنیاد پر ہونا جائز نہیں ہے۔
ایک اور مشکل بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ترقیاتی منصوبوں میں پبلک سیکٹر کی بہت کم سرمایہ کاری رہی ہے، جس کی وجہ سے یہاں بڑے پیمانے پر قدرتی وسائل کو استعمال کر کے ترقیاتی امکانات سے فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کمزوری کی وجہ سے نجی سرمایہ کار بھی چھوٹے صوبوں کے اندر سرمایہ کاری کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار رہے ہیں۔ جس سے پنجاب اور ان صوبوں کے درمیان ترقیاتی عدم توازن میں اضافہ ہوا ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے ساتھ سب سے بڑا ظلم ان صوبوں میں موجود قدرتی وسائل پر آئین کے تحت دی جانے والی رائلٹی سے انکار کر کے کیا گیا ہے۔ بلوچستان کی گیس پورے پاکستان میں استعمال ہوتی رہی ہے اور سب سے آخر میں بلوچستان پہنچی ہے۔ نواب اکبر بگٹی کا ظالمانہ قتل دیگر باتوں کے علاوہ گیس کی رائلٹی کی بحث کو بذریعہ طاقت ختم کرنے کے لئے تھا۔
سینڈک اور دوسرے معدنی ذخائر کے اندر بڑے گھپلوں کا سب کو علم ہے۔ گوادر پورٹ پر ہونے والی سودا بازی پر اسلام آباد کی اجارہ داری ہے۔ پختونخوا کی پن بجلی کا خالص منافع آئین کی رو سے صوبے کا حق ہے۔ 18 سال تک ایک پیسہ بھی پختونخوا کو نہیں ملا۔ 1991 میں پہلی بار حساب کتاب ہوا تو اے جی این قاضی فارمولے کے تحت 6 ارب روپے سالانہ پختونخوا کا حصہ مقرر ہوا لیکن دوسرے سال ہی اس کو بڑھنے سے غیر آئینی طور پر روک کر منجمد کر دیا گیا حالانکہ بعد کے خالص منافع کی بہت بڑی رقم بنتی ہے جسے واپڈا ہڑپ کر جاتا ہے۔
آج جب کہ مرکز اور پختونخوا میں بظاہر ایک ہی پارٹی کی حکومت ہے لیکن پن بجلی کا 1991 میں منجمد ہونے والا منافع ایک آئینی حق ہونے کے باوجود کھل نہیں سکا ہے۔ واپڈا ایک وفاقی ادارہ ہے لیکن اس کا مرکزی دفتر لاہور میں ہے اور سینیٹ کی ایک متفقہ قرارداد کے مطالبے کے باوجود اسے اسلام آباد منتقل نہیں کیا گیا۔
بہر حال بہت ضروری بات نئے این ایف سی ایوارڈ پر آج ہونے والی بحث کو سمجھنا ہے۔ ساتواں این ایف سی ایوارڈ 2009 میں قائم ہوا اور بنیادی ایشوز پر 2009 ہی میں لاہور میں ہونے والے تفصیلی مذاکرات میں فیصلے طے پا گئے (اگر چہ ایوارڈ کا رسمی اعلان مئی 2010 میں ہوا) جب کہ اٹھارہویں ترمیم اپریل 2010 میں منظور ہوئی۔ اٹھارہویں آئینی ترمیم میں این ایف سی ایوارڈ سے متعلقہ صرف ایک چھوٹی سی تبدیلی شامل ہے اور وہ آئین کے آرٹیکل 160 کے ذیلی سیکشن 3 میں 3 A کا اضافہ کیا گیا جس میں پچھلے ایوارڈ کے اندر مالیاتی وسائل میں وفاقی وحدتوں کے حصے کو تحفظ دیا گیا ہے۔ اس کے الفاظ اس طرح ہیں۔
’’قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ میں صوبوں کو دیا جانے والا حصہ پچھلے ایوارڈ میں صوبوں دیے جانے والے حصے سے کم نہیں ہوگا۔‘‘
یاد رہے کہ ساتویں ایوارڈ میں صوبوں کا حصہ مجموعی وسائل کا 57.5 اور وفاق کا حصہ 42.5 قرار پایا تھا۔
ایسا کرنا دو وجوہات کی بنیاد پر ضروری تھا۔ ایک تو جس طرح 2005 کے چھٹے ایوارڈ میں یکطرفہ فیصلے کے ذریعے چھوٹے صوبوں کے حصے کو کم کر کے خوف پیدا کیا گیا تھا (صوبائی خود مختاری پر موجودہ حملے نے اس خوف کو جائز ثابت کیا ہے)، اسے دور کرنے کے لئے اس طرح کا آئینی تحفظ ضروری تھا۔ دوسری دلیل یہ تھی کہ اٹھارہویں ترمیم میں صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے اوپر اس وقت تک جو اتفاق رائے وجود میں آ چکا تھا اس کے پیش
صوبوں کو آئندہ کے ایوارڈوں میں مزید وسائل کی منتقلی ایک ناگزیر اور منطقی اقدام لگ رہا تھا۔ اس لئے ساتویں ایوارڈ میں صوبوں کے مالیاتی وسائل کو تحفظ دے کر اس سلسلے میں غیر یقینی کیفیت کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔
2010 میں اٹھارہویں ترمیم کی منظوری بعد ایک سال تک سینیٹر رضا ربانی کی سربراہی میں ترمیم پر عمل درآمد کے کمیشن نے کام کیا۔ میں بھی اس کمیشن کا ممبر تھا۔ اپنے کام کے اختتام پر جون 2011 کے آخری ہفتے میں ہونے والی وفاقی کابینہ کے اجلاس میں عملدرآمد کی رپورٹ پر غور کرنے کے سلسلے میں کمیشن کے ممبران بھی خصوصی دعوت پر شریک ہوئے۔ وفاق سے صوبوں کو منتقل ہونے والی وزارتوں (خاص کر صحت اور تعلیم کی وزارت) کے مالیاتی وسائل کی ذمہ داری پر لمبی چوڑی بحث ہوئی۔ آخر میں ایک عارضی بندوبست یہ طے پایا کہ ساتویں این ایف سی ایوارڈ کے دورانیے میں متذکرہ بالا وزارتوں کے لئے وفاقی بجٹ میں ایک مجموعی رقم مختص ہوگی جو صوبوں کو منتقل ہو جایا کرے گی۔ اور ایسا ہی ہوا۔ بلکہ میرے خیال میں اب تک ہو رہا ہے۔
یہ تو عارضی بندوبست تھا۔ نئے یعنی 2014 کے مجوزہ آٹھویں این ایف سی ایوارڈ میں ان مالیاتی وسائل نے وفاقی بجٹ میں شامل ہونے کے بجائے مستقل طور پر صوبائی بجٹوں میں منتقل ہو جانا تھا۔ بلکہ یہ بھی توقع تھی (اور اب بھی ہے) کہ نئے ایوارڈ میں 2010-11 میں 17 وزارتوں کی وفاق سے صوبوں کے پاس جانے کی بنیاد پر صوبوں کے حصے میں پرانے ایوارڈ کی نسبت اضافہ کرنا تھا، جو کہ ابھی بھی کرنا ہے، اور یہ بالکل منطقی اور معقول بات ہے۔ لیکن مشکل ہے کہ اسلام آباد میں سلطنت چلانے کی عادی نوکر شاہی نے اٹھارہویں آئینی ترمیم کو کبھی ذہنی طور پر قبول نہیں کیا اور نہ صرف ایک عشرہ گزرنے کے باوجود آئینی ترمیم کے بہت سارے حصوں (خاص کر تیل اور گیس کے معاملات میں صوبوں کی شرکت) پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا بلکہ اب صوبوں کے مالیاتی وسائل پر شب خون مار کر اٹھارہویں آئینی ترمیم کو بالواسطہ طور پر ختم کرنے کی سازش ہو رہی ہے کیونکہ اگر صوبوں کے پاس 17 وزارتوں کا بجٹ نہیں ہوگا تو وہ ان وزارتوں کو کیسے رکھ سکیں گی؟
اسی سبب سے 2014 میں آٹھواں ایوارڈ نہیں آیا اور 2019 میں نواں ایوارڈ نہیں آیا۔ اب ایک غیر اعلانیہ مارشل لا کے نیچے صوبوں کا بازو مروڑ کر ان سے مالیاتی وسائل چھینے جا رہے ہیں جو عملی طور پر اٹھارہویں آئینی ترمیم کا گلا گھونٹے کے مترادف ہو گا اور چھوٹے صوبوں کو پیغام ملے گا کہ بگ برادر ایک جمہوری وفاقی نظام کے بجائے اپنی سلطنت چلانا چاہتا ہے۔