پاکستان میں سیاست کا بھی عجب ہی بکھیڑا ہے۔ جو اقتدار میں ہوتا ہے اسکے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ اقتدار میں نہیں کہ اصل اقتدارتو کسی اور کے پاس ہے۔ اور جو بظاہر اقتدار سے باہر ہوتے ہیں اور اہوزیشن کہلاتے ہین انکے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ اقتدار والوں سے براہ راست مراسم رکھنے کی بدولت وہی طاقت ور ہیں کہ صاحب مسند اقتدار تو بس کٹھ پتلی ہے۔
جو حکمران اور پارٹی اپوزیشن میں ہوتے ہوئے پردوں کے پیچھے سے ڈوریاں ہلانے والے کرداروں پر چیختی چنگھاڑتی حکومتی سٹیج کا انتظام سنبھالتی ہے اسے اچانک چپ لگ جاتی ہے۔ اسکے تماشائی تالیاں بجا بجا کر اسے اکساتے ہیں کہ وہ وہی پرفارمنس پورے ڈرامے کے دوران دکھائے جس کا اسنے پرومو جاری کیا تھا مگر کہاں جی۔۔۔ سب خاموشی۔۔۔ اورپھر ایک عرصے کے بعد معلوم پڑتا ہے وہ تو صرف بندھے ہوئے قابل ترس کٹھ پتلی کردار تھے۔
پاکستان میں سول ملٹری تقسیم اور اقتدار کی کشمکش تو کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ لیکن پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ اس ملک کے طاقت ور ترین وزیر اعظموں سے لے کر مکمل طور پر پچھلوں کی اشیر باد کے محتاج ہائبرڈ وزیر اعظموں تک اپنی ماتحت خفیہ ایجنسیوں کی جانب سے ذلت امیز انداز میں جاسوسیوں، فون ریکارڈنگز اور اس قسم کے دیگر داؤ پیچ کا شکار رہے ہیں۔ اس میں ایسے وزرا اعظم بھی گزرے جنہوں نے اس صورتحال میں مکمل طور پر سرنڈر نہیں کیا بلکہ کسی نہ کسی طرح اپنے حق کی لڑائی لڑتے رہے۔ اور کچھ ایسے بھی جو اس پست صورتحال پر فرحاں و شاداں رہے۔
ابھی حال میں ہی تو ہمارے موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے بڑے ہی فخر سے بتایا کہ وہ کیسی زندگی گزار رہے ہیں آئی ایس آئی کو سب پتہ ہے۔ وہ بتانا یہ چاہ رہے تھے کہ وہ ایک ایمانداری کی زندگی گزار رہے ہیں جس کی وجہ سے فوج اور ایجنسیاں ان کے ساتھ ہیں۔
اب خان صاحب کو کون سمجھائے کہ جس امر کا وہ اعتراف کر رہے ہیں اس اعترافی بیان کا مطلب ہے کہ آپ دراصل یہ بتا رہے ہیں وہ جو آئینی طور پر آپ کے ماتحتوں کے بھی ماتحت ہیں وہ آپ پر حکمران ہیں۔ بہر حال اب عمران خان اگر اپنے عہدے اور دفتر کا وقار سمجھ جائیں تو رونا ہی کس چیز کا۔
ہم آپ کو پاکستان کے دیر سربراہان مملکت اور انکی نگرانی کے بارے میں بتاتے ہیں جس کو لے کر وہ جناب عمران خان کی طرح مطمئین نہ تھے بلکہ کئی بار تو طنز و مزاح کا بھی سہار لے لیا جاتا تھا وہ بھی طاقتوروں کے سامنے۔
اپنی کتاب Directorate S: America's Secret Wars in Afghanistan and Pakistan میں مصنف سٹیو کول لکھتے ہیں کہ اس وقت کے صدر پاکستان آصف علی زرداری آئی ایس آئی کی حد سے زیادہ نگرانی کو مذاق کا نشانہ بناتے تھے ۔ ایک بارامریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا آصف علی زرداری کے ساتھ کھانا کھا رہے تھے جبکہ آئی ایس آئی چیف جنرل احمد شجاع پاشا بھی وہیں موجود تھے۔ زرداری نے اس موقع پر طنز کرتے ہوئے احمد شجاع کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ میں جو سوچتا ہوں کرتا ہوں احمد کو سب پتہ ہوتا ہے۔ میں تو اب اپنے دفتر میں جب داخل ہوتا ہوں تو سب سے پہلے کہتا ہوں ہیلو احمد!۔
پھر آصف علی زرداری نے کہا کہ ایک بار میرا صدارتی جہاز فلائٹ لینے کے قابل نہیں تھا اور میرا ایک ضروری دورہ شیڈول تھا۔ ایسے میں صرف آئی ایس آئی کو مدد کے لئیے آواز لگا سکتا تھا۔ میں نے احمد کو کال کی اور کہا کہ احمد مجھے تمہارا جہاز درکار ہوگا لیکن میں اسے استعمال اس شرط پر کروں گا کہ تم میرے ساتھ اس جہاز میں سفر کرو گے۔ مصنف لکھتے ہیں کہ اس وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی احمد شجاع پاشا ہنس دیئے لیکن وہ ایک خفت سے بھرپور لمحہ تھا۔
ایک اور واقعہ ہمیں ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی ڈاکٹر مبشر حسن کی کتاب دی میراج آف پاور میں ملتا ہے۔ مبشر حسن ایک سیاستدان، محقق اور معاشی ماہر ہونے کے ساتھ ساتھ ملکی طاقتی ایوانوں میں ہونے والی شطرنج کی چالوں کے چشم دید گواہ بھی ہیں۔ اور انہوں نے بہت سے ایسے واقعات بھی قلم بند کیئے ہیں جس سے معلوم پڑتا ہے کہ پاکستان کے طاقت ور ترین وزرا اعظم بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے رہے اور وہ اس کھیل میں خود کو کمزور سمجھتے رہے۔ ایسا ہی ایک واقعہ ذولفقار علی بھٹو کے حوالے سے بھی ہے جسے انہوں نے اپنی کتاب دی مراج آف پاور میں درج کیا ہے۔
وہ بھٹو صاحب غور سے سن رہے تھے۔ شاید میں انہیں بہت سنجیدہ لگا ہوں گا۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا، ’آپ کے خیال میں مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘’میں آپ کو یہ کہنے آیا ہوں کہ آپ دوبارہ سے عوام میں اپنی طاقت کو بحال کرنے کی کوشش کریں‘. وہ چند لمحے کے لئے رکے اور پھر گویا ہوئے، ’ڈاکٹر، جو تم مجھے کرنے کے لئے کہہ رہے ہو، میرے میں وہ کرنے کی طاقت نہیں ہے‘
میں پاکستان کے ذہین ترین اور ملکی تاریخ کے طاقتور ترین وزیر اعظم کے یہ الفاظ سن کر ٹوٹ کر رہ گیا۔ ہم دونوں کافی دیر خاموش بیٹھے رہے۔
خاموشی توڑتے ہوئے میں نے پوچھا، میں ذرا آپ کا فون دیکھ لوں؟ میں نے ٹیلی فون اٹھایا، اپنی جیب سے چابیوں کا گچھا نکالا، کچھ پیچ ڈھیلے کیے اور اندر سے ایک ٹکڑا نکال کر بھٹو صاحب کی طرف بڑھایا۔
’کیا آپ جانتے ہیں یہ کیا ہے؟‘ میں نے ان سے پوچھا۔
’نہیں۔ کیا ہے یہ؟‘ انہوں نے جواب دیا۔
’یہ آپ کے فون کو ریکارڈ کرنے کے لئے ہے‘۔
’یہ حرامزادے میرا بھی کرتے ہیں؟‘ انہوں نے یکلخت جواب دیا۔
ایک اور لمبے وقفے کے بعد انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ کہ یہ ریکارڈ کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے؟ میں نے انہیں بتایا کہ میں نے اپنے فون میں ایسا ہی ایک آلہ دیکھا تھا اور اسے ایک ایکسپرٹ کو دکھایا تھا جس نے اسے کھول کر بتایا تھا کہ یہ ریکارڈنگ کے لئے استعمال ہوتا ہے اور ہر ایک پر ایک علیحدہ نمبر ہوتا ہے۔
کچھ توقف کے بعد انہوں نے بیگم نصرت بھٹو کو بلایا۔ نصرت آئیں تو انہوں نے یہ آلہ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا کہ مبشر کے مطابق یہ میرا فون ریکارڈ کرنے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ بلب کے آگے اس آلے کو رکھ کر کچھ معائنہ کرنے کے بعد بیگم صاحبہ نے کہا کہ یہ تو گھر کے تمام فونوں میں ہے۔
بھٹو صاحب بھونچکے رہ گئے اور ایک وقفے کے بعد اپنی بیوی سے پوچھا کہ تمہیں کیسے پتہ چلا؟
انہوں نے جواب دیا: ’’مجھے نہیں پتہ تھا۔ شاہنواز کو اس کے کمرے والے فون میں ایک آلہ ملا تھا اور اسے لگا کہ آپ نے لگوایا ہے تاکہ اس کی گرل فرینڈز سے اس کی بات چیت کو سن سکیں۔ اس نے پھر تمام ٹیلی فون کھول کر دیکھے اور جب اسے سب میں یہ نظر آیا تو وہ مطمئن ہو گیا‘‘۔
ہم سب کافی دیر خاموش بیٹھے رہے اور پھر میں نے واپسی کی اجازت چاہی۔
تو یہ ہے پاکستان میں بظاہر اقتدار یافتہ سویلین حکمرانوں کے ساتھ ہونے والے سلوک اور انکے رد عمل۔ حاصل تحریر شاید یہی ہے کہ اس سب کو روکنے کے لیئے اب کوئی نیا میثاق سول حکومت ہونا ضروری ہے۔