قریب ایک ہفتے کی اعصاب شکن سیاسی و قانونی جنگ کے بعد بالآخر سنیچر کی شام سابق وزیر اعظم عمران خان نے ہتھیار ڈال دیے جب سپیکر اسد قیصر نے رات 12 بجے سے کچھ ہی دیر قبل اعلان کیا کہ وہ اپنے عہدے سے استعفا دے رہے ہیں اور تحریکِ عدم اعتماد پر ووٹنگ کے لئے سپیکرز کے پینل میں مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کو دعوت دی کہ وہ اجلاس کی کارروائی کو آگے چلائیں۔ عدم اعتماد پاس ہو گئی۔ اور پھر سوموار کو وزیر اعظم کا انتخاب بھی ہو گیا۔ شہباز شریف ملک کے 23ویں وزیر اعظم منتخب ہوئے اور پھر انہوں نے وزارتِ عظمیٰ کا حلف بھی لے لیا۔ لیکن اس موقع پر صدر عارف علوی موجود نہیں تھے۔ انہیں اچانک کسی بیماری نے آ لیا تھا۔ انہوں نے شہباز شریف کا حلف لینے سے معذرت کی۔ اس سے قبل اسد قیصر نے عدم اعتماد کی کارروائی آگے بڑھانے کے بجائے استعفا دینے پر اکتفا کرتے ہوئے اسمبلی سے اٹھ جانا بہتر جانا تھا۔ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے وزارتِ عظمیٰ کے لئے ووٹنگ کروا کر اپنی پارٹی کی شکست دیکھنے پر ایک بار پھر منصبِ صدارت ایاز صادق کے حوالے کرنا مناسب جانا اور پھر وزیر اعظم کی تقریر کے فوراً بعد بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سے پہلے ہی سپیکر کا منصب چند لمحے کے لئے سنبھال کر اجلاس کو 5 دن کے لئے برخاست کر دیا۔ اس سے قبل اتوار کی شام ملک بھر میں پاکستان تحریکِ انصاف کے کارکنان بھی بڑی تعداد میں سڑکوں پر آئے اور انہوں نے ناصرف سیاسی مخالفین بلکہ فوجی اسٹیبلشمنٹ پر بھی شدید تنقید کی اور اپنے روایتی انداز میں گالم گلوچ سے بھی گریز نہ کیا۔ اور شاید یہی شہباز شریف حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ہونے جا رہا ہے۔
سیاسی عدم استحکام
عمران خان دورِ حکومت کا سب سے بڑا چیلنج ان کی حکومت کے بارے میں یہ تاثر رہا کہ وہ 'سلیکٹڈ' تھی اور اسے اسٹیبلشمنٹ نے بنوایا تھا۔ عمران خان بیانیہ سازی کے ماہر ہیں۔ 2014 میں انہوں نے یہ بیانیہ عام کیا کہ 2013 میں بننے والی حکومت دھاندلی زدہ تھی اور اس کے لئے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نجم سیٹھی نے '35 پنکچر' لگائے تھے۔ بعد ازاں انہوں نے تسلیم کر لیا کہ وہ جھوٹ بولتے رہے تھے لیکن تب تک یہ عقیدہ ان کے چاہنے والوں کے دلوں میں گھر کر چکا تھا۔ اب انہوں نے شہباز شریف حکومت کو بھی ایک بڑا چیلنج ایک مبینہ خط کی صورت میں دیا ہے جس کی بنیاد پر وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ان کی حکومت امریکہ نے گرائی۔ یہ خط نہ کسی نے دیکھا ہے، نہ کوئی یقین سے کہہ سکتا ہے کہ اس کے مندرجات کیا ہیں لیکن عمران خان کے حامی ان کی بات پر اندھا اعتبار کرتے ہیں۔ وہ یقین رکھتے ہیں کہ ان کے قائد نے ان سے جھوٹ نہیں بولا۔
سینیئر تجزیہ کار نجم سیٹھی نے دی فرائیڈے ٹائمز کے لئے اپنے اداریے میں لکھا ہے کہ حکومت کا سب سے بڑا چیلنج مہنگائی کم کرنا ہے۔ اس کے علاوہ بجٹ بھی بنانا ہے اور سابق وزیر اعظم بڑے اطمینان سے اپنے ہی پیدا کیے ہوئے بحران کو نئی حکومت کے خلاف استعمال کر سکتے ہیں اگر ملکی تاریخ کے سب سے بڑے خسارے والا بجٹ عوام کی مشکلات کو مدنظر رکھ کر نہ بنایا گیا۔ وہ مزید کہتے ہیں کہ 9 جماعتوں نے اس حکومت کو کندھا فراہم کیا ہے اور اب وہ اپنا حصہ مانگیں گی۔
"اُن کی خواہشات مختلف سمتوں سے حکومت کے دامن گیر ہوں گی۔ اگر شہباز شریف اگلے انتخابات سے پہلے اس مسئلے کو نہ سنبھال سکے تو عمران خان پلٹ کر وار کریں گے اور حکومت کے لئے نت نئی مشکلات پیدا کرتے رہیں گے۔
اس لیئے جن کا خیال ہے کہ وہ طویل تناؤ کے بعد اب سکون کا سانس لے لیں گے، اُن سے گذارش ہے کہ وہ اپنے خیالات پر نظر ثانی کریں۔ جمہوریت کے درپے مشکلات اور مصائب ابھی کہیں نہیں گئے۔"
خط کا مقابلہ کرنے کے لئے شہباز شریف نے اپنی پہلی تقریر میں ان کیمرہ تحقیقات کا اعلان کیا ہے لیکن سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری اسے پہلے ہی مسترد کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تحقیقات عدالتِ عظمیٰ کے بنائے گئے کمیشن کے ذریعے ہی قابلِ اعتبار ہو سکتی ہیں۔
معاشی چیلنج
نجم سیٹھی نے اداریے میں جن مشکلات کی طرف اشارہ کیا، ان میں سے کچھ پر شہباز شریف نے بھی اپنی تقریر میں تبصرہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ سابق حکومت نے پاکستان پر بیرونی قرض میں ساڑھے تین سال میں ملکی تاریخ میں اس سے پہلے کے کل قرض کا 80 فیصد مزید اضافہ کر ڈالا۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ملکی تاریخ میں بلند ترین سطح پر پہنچ سکتا ہے۔ جب کہ عوام پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
معیشت پر گہری نگاہ رکھنے والے صحافی خرم حسین نے کہا ہے کہ پاکستان کے معاشی چیلنجز بہت ہی سنگین ہیں۔ حکومت کا سب سے پہلا کام آئی ایم ایف کے پروگرام کو بحال کرانا ہے۔ اس کی بحالی کیلئے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے جو اقدامات اٹھانے کیلئے کہا ہے، حکومت کو ان پر لازمی عملدرآمد کرانا ہوگا۔
نیا دور ٹی وی کے پروگرام ”خبر سے آگے” میں گفتگو کرتے ہوئے خرم حسین کا کہنا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر عمران خان نے جو ریلیف دیا تھا، اسے سب سے پہلے ختم کرنا ہوگا۔ اس وقت سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کے دبائو پر جو سہولیات ختم کی جائیں گی، اس کے بعد پاکستان میں پیٹرول اور ڈیزل کی فی لیٹر قیمت میں کس حد تک اضافہ ہوگا؟
"آج وزیراعظم شہباز شریف نے اپنی تقریر میں کہا تھا کہ ڈالر کی قدر کو مستحکم کرنا اشد ضروری ہے۔ ہم نے دیکھا کہ پاکستان میں جیسے جیسے سیاسی بحران بڑھ رہا تھا اس کا ملکی معیشت پر بڑا گہرا اثر پڑا۔ ڈالر کی قدر 190 سے زائد تک جا پہنچی تھی۔ اب وہ گر کے 182 پر پہنچ چکی ہے۔ اب صرف ایک دن میں ڈالر کی قدر میں اتنی بڑی کمی ہونا یہ چیز ثابت کرتا ہے کہ سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہو رہا ہے۔ فنانشل مارکیٹس کو لگ رہا ہے کہ پاکستان میں معاشی استحکام آنا شروع ہو جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں حکومت کی تبدیلی کے آثار نظر آنا شروع ہو چکے ہیں۔ سٹاک مارکیٹس میں بہتری آ رہی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی ہو رہی ہے اور اس کے علاوہ فارن بانڈز کے ییلڈز گر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ اس کے باوجود موجودہ حکومت بین الاقوامی مدد مانگنے پر مجبور ہو جائے گی۔ اندازہ یہی ہے کہ دوبارہ سے چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب کے پاس جانے کا فیصلہ کیا جائے گا تاکہ تیل کی طلب پوری کی جا سکے اور غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں بہتری ہو سکے۔
خرم حسین نے کہا کہ اگر حکومت نے وہ اقدامات اٹھا لیے جو ابھی آئی ایم ایف ڈیمانڈ کر رہا ہے تو پاکستان میں مہنگائی کا نیا طوفان آ جائے گا۔"
سول ملٹری تعلقات
پاکستانی سیاست میں سول ملٹری تعلقات کا مسئلہ دائمی ہے۔ حکومتیں فوجی اور سویلین دونوں ہی آتی جاتی رہیں لیکن یہ مسئلہ کبھی حل نہ ہو سکا۔ یہاں تک کہ جنرل ایوب خان کے خلاف ذوالفقار علی بھٹو اور جنرل ضیاالحق کے خلاف وزیر اعظم جونیجو کی بغاوتیں بھی ہوئیں جب یہ دونوں آمر اقتدار میں تھے۔ یہ مسئلہ صرف تبھی پیدا نہیں ہوتا جب سویلین اقتدار میں ہوں۔
تاہم، سکیورٹی امور پر گہری نظر رکھنے والے اقرا یونیورسٹی کے استاد ڈاکٹر اعجاز حسین بھٹی کا کہنا ہے کہ شہباز شریف حکومت اور فوج کے تعلقات بہترین نوعیت کے رہیں گے۔ پہلے تو شہباز شریف کو علم ہے کہ پچھلی حکومت کا فوج کے اندر تقرریوں تبادلوں کے معاملے اور خارجہ امور میں اپنی ٹانگ اڑانے سے تحریکِ انصاف کو نقصان پہنچا لہٰذا ان حوالوں سے وہ پھونک پھونک کر قدم رکھیں گے۔ دوسرے، شہباز شریف اور مسلم لیگ ن نے پاناما پیپرز کے منظرِ عام پر آنے کے بعد سے بہت سے کرپشن الزامات کا سامنا کیا ہے۔ اور انہیں احتجاجی سیاست نے ایک نئی زندگی بخشی ہے۔ اگر وہ سمجھداری سے کام لیں تو انہیں فوج سے لڑنے کے بجائے اقتدار میں رہتے ہوئے پوری کوشش کرنی چاہیے کہ وہ اس موقع سے پورا سیاسی فائدہ اٹھا سکیں۔
بھٹی کے مطابق اس کی تیسری وجہ پاکستان کا موجودہ معاشی نظام ہے اور اگر ماضی کو دیکھا جائے تو شریفوں سے بہتری کی توقع کی جا سکتی ہے۔ "چونکہ فوج کو بھی معاشی بگاڑ کا ادراک ہے، انہیں بھی اندازہ ہوگا کہ وہ ایک خاص حد سے زیادہ نئی حکومت کو دیوار سے نہ لگائیں۔ لہٰذا اس حکومت کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات بہتر رہنا زیادہ قرینِ قیاس ہے"۔
آنے والے دنوں میں عمران خان ایک بار پھر سڑکوں پر ہوں گے اور شہباز شریف اپنی ایڈمنسٹریشن کے جوہر دکھا رہے ہوں گے۔ ماضی کو دیکھیں تو یہ دونوں حضرات اب اس جگہ پر ہیں جہاں یہ بہترین پرفارم کرتے ہیں۔ یہ مقابلہ اگر اخلاقیات کے دائرے میں رہے تو اس سے ملکی معیشت اور گورننس میں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔