پاکستان کی 15 ویں قومی اسمبلی 9 اگست 2023 کو اپنی مدت پوری کرنے کے بعد تحلیل ہو چکی ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ روز روز کے تماشے سے ملک اور قوم دونوں کی جان چھوٹ گئی۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی کے آخری اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ یہ اسمبلی ملک کی تاریخ کی بدترین اسمبلی تھی جو عوام کو ریلیف دینے اور عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام رہی۔ عباسی صاحب نے بات تو کافی حد تک درست کی ہے مگر ان کو ساتھ یہ بھی بتانا چاہئیے تھا کہ وہ کس اسمبلی سے موازنہ کر کے موجودہ اسمبلی کو بدترین کہہ رہے تھے، پاکستان کی کون سی ایسی اسمبلی ہے جو پاکستان کے عوام کے مسائل حل کرنے میں کامیاب رہی ہے؟
پاکستان کی پارلیمنٹ تو ہمیشہ سے ایک ربڑسٹیمپ کی مانند رہی ہے جو ملک کی اشرافیہ کے لیے مزید طاقت سے لطف اندوز ہونے کا محض ایک ذریعہ رہی ہے۔ قانون سازی سے لے کر عوام کے مسائل تک تمام معاملات پردے کے پیچھے طے ہوتے رہے ہیں اور اس بار بھی پہلے والی تاریخ ہی دہرائی جا رہی ہے۔ اس لیے جو گفتگو شاہد خاقان عباسی صاحب نے کی ہے وہ کوئی خبر نہیں ہے۔ البتہ اس اسمبلی کے بارے میں ایک منفرد بات یہ ہوئی ہے کہ اس نے پاکستان کے فرسودہ اورغیر مؤثر نظام کو عوام اور دنیا کے سامنے مزید ننگا کر دیا ہے اور ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ یہ قوم جمہوریت اور پارلیمنٹ جیسی عیاشیوں کی متحمل نہیں ہو سکتی۔
2018 کے عام انتخابات کے بعد قیام میں آنے والی قومی اسمبلی اپنے آغاز سے ہی شعبدہ بازیوں کی نذر ہو گئی تھی۔ تحریک انصاف کی حکومت اور اس کے اراکین قومی اسمبلی کا رویہ گویا یوں تھا کہ جیسے وہ برائے نام اسمبلی کے تابوت میں آخری کیل ٹھونکنے کے لیے آئے تھے اور یوں بھی دکھائی دیتا تھا کہ وہ پارلیمنٹ سے نادیدہ قوتوں کے پرانے حساب چکانے آئے تھے۔ انہوں نے پہلے دن سے ہی پارلیمنٹ کو یہ سمجھا کہ وہ اس کو کچھ نہیں سمجھتے۔ کون سی ایسی فحش اور لغو گفتگو ہو گی جو اس اسمبلی میں نہیں ہوئی؟ کون سے ایسے بے ہودہ نعرے ہوں گے جو اس اسمبلی میں نہیں لگے؟ ابھی بھی اسی پارٹی کے ایک غیر مہذب رکن اسمبلی کی وہ نعرے بازی آنکھوں کے سامنے آ رہی ہے جو اس نے پیپلز پارٹی کے چیئرمین کے بارے میں کی تھی جس پر مذمت کرنے کی بجائے کئی جوکر ہنستے اور لطف اندوز ہوتے نظر آئے تھے۔
خیر اس رکن اسمبلی نے اپنے لیڈر کی سنت پر عمل کیا ہو گا جو 70 سال کا ہونے کے باوجود اور ساری دنیا کو سب سے زیادہ جاننے کے باوجود طالب علموں اور نوجوانوں کے سامنے جلسوں میں غیر اخلاقی گفتگو کیا کرتا تھا۔ خیر یہ بھی کوئی پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ جب کبھی اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کر عوام کے ووٹوں پہ شب خون مار کر کوئی قومی اسمبلی کے ایوان میں پہنچتا ہے تو اس کا رویہ ایسا ہی تضحیک آمیز ہوتا ہے بس صرف کرداربدلتے رہتے ہیں۔ جو کام تحریک انصاف کے اراکین کرتے رہے وہ کبھی (ن) لیگ کے شیخ رشید اور تہمینہ دولتانہ اسی پارلیمنٹ کے اندر محترمہ بے نظیر بھٹوکے ساتھ کرتے رہے۔
عباسی صاحب نے کہا کہ قومی اسمبلی سے ایسے بل پاس کروائے گئے ہیں جن کا فائدہ عوام کے بجائے حکومت کو ہوا ہے، تو جناب والا یہ خوش فہمی کس کو تھی کہ یہ اسمبلی عوام کے مسائل کے حل کے لیے وجود میں آئی ہے؟ اس اسمبلی کا وجود ہی کچھ خاص قوتوں کو خاص فائدہ پہنچانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا۔ تحریک انصاف کے دور میں بھی کئی ایسے متنازعہ بل قومی اسمبلی سے پاس کروائے گئے جو ایک آزاد اور عوامی قومی اسمبلی سے کبھی پاس نہ ہوتے۔ اس کے بعد شہباز شریف کی حکومت میں بھی وہی کام ہوا کیونکہ عمران ہو یا شہباز، یہ سب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ہیں، پیچھے سے دونوں کی ڈوریاں ہلانے والے تو ایک ہی ہیں جو ہمیشہ کسی عمران کے لیے شہباز کا ڈر زندہ رکھتے ہیں اور جن کی کمین گاہ ایسے تیروں سے کبھی خالی نہیں ہوتی۔
یہ کہنا بالکل بے جا نہ ہو گا کہ شہباز کو عمران کے نامکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لیے لایا گیا تھا جو اسمبلی کے آخری دنوں میں دھڑا دھڑا متنازعہ بلوں کی منظوری کی صورت میں آشکار ہوا۔ تو عباسی صاحب عوام کے لیے جھوٹ، پروپیگنڈا کافی ریلیف ہے جس پہ اس کا اچھا خاصا گزارا ہو رہا ہے۔ عوام کی حالت زار پہ یہ شعرصادر آتا ہے؛
؎ خون جگر پینے کو لخت جگر کھانے کو
لیلیٰ یہ غذا ملتی ہے تیرے دیوانے کو
قبلہ عباسی صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ جب وہ نیب کی حراست میں تھے تو ان سے ٹیکس دینے کے متعلق کوئی سوال نہیں پوچھا گیا اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ اراکین پارلیمنٹ سے ٹیکس سے متعلق سوال نہیں کیا جاتا۔ جناب سابق وزیر اعظم صاحب! اگر ٹیکس ہی دینا ہے تو پھر پارلیمنٹ جانے کی کیا ضرورت ہے؟ 'تیلی کے ساتھ معاشقہ بھی کیا اور سوکھی روٹی بھی کھائی'، یہ تو کوئی بات نہ ہوئی۔ پرویز مشرف نے اپنے دور میں برطانیہ کی ایک لیگل فرم براڈ شیٹ کو پاکستان کی بیرون ملک میں پڑی ہوئی غیر قانونی رقوم کا سراغ لگانے کا ٹاسک دیا اور پھر کچھ عرصے بعد پاکستان میں سیاست کی ہوا بدل گئی تو مشرف صاحب کو کھوئی ہوئی رقم کے ساتھ پاکستان کے سیاست دانوں کی کرپشن اور بدعنوانی بھی بھول گئی اور انہوں نے اس پروجیکٹ کو ادھورا ہی چھوڑ دیا۔ اس واقعے کے کچھ عرصے بعد ایک محفل میں براڈ شیٹ کے مالک کاوے موسوی کی پرویز مشرف سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے مشرف سے پوچھا کہ جناب میری فرم نے بڑی محنت کر کے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت کا سراغ لگایا تھا مگر آپ نے اس کیس کی پیروی ہی چھوڑ دی تو پاکستان کے کمانڈو جنرل نے جواب دیا کہ جناب وہ لوگ اب پارلیمنٹ میں آ گئے ہیں اس لیے اس پروجیکٹ کی اب ضرورت نہیں رہی۔
9 اگست کو ختم ہونے والی قومی اسمبلی عوام کے مسائل کے حل میں اتنی ہی مؤثر اور اہمیت کی حامل رہی ہے جتنی نگران وزیر اعظم کے نام پر گفت و شنید کرنے کے لیے تقریباً اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض اور شہباز شریف کے درمیان ہونے والی ملاقات کی اہمیت ہے۔ عباسی صاحب کو زیادہ مایوس نہیں ہونا چاہئیے کیونکہ اس قومی اسمبلی نے بڑے تاریخی اور غیر مثالی کام بھی کیے ہیں جیسا کہ اپنے بل بوتے پر کونسلر نہ بن پانے والے قاسم سوری کو ڈپٹی سپیکر بنایا گیا، دہائیوں سے وزیر اعظم بننے کی تڑپ لیے شہباز شریف کو وزیر اعظم بنوایا گیا، جس کو اس کی بیوی بتاتی تھی کہ تم ملک کے وزیر اعظم ہو اس کو وزیر اعظم بنایا گیا، تاریخ میں پہلی دفعہ اسٹیبلشمنٹ نے ایک منتخب وزیر اعظم کو مارشل لاء لگانےکے بجائے پارلیمنٹ سے تحریک عدم اعتماد کے ذریعے گھر بھیجنے کا انتظام کیا اور راجہ ریاض کو 'اپوزیشن لیڈر' بنانے جیسا چمتکار بھی ہوا مگر اس اپوزیشن کا آج تک پتہ نہیں چل سکا جس کے وہ لیڈر تھے۔ اب پھر سے نئی دھڑے بندیاں ہوں گی، سوفٹ ویئر اپ ڈیٹ ہوں گے اور پھر دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے نام پر نئے میک اپ کے ساتھ پرانے جوکروں کو سامنے لایا جائے گا۔ عام فراست تو یہی کہتی ہے کہ جو اس بار ہوا ہے یہ بار بار ہوتا رہے گا۔ جون ایلیا نے کہا تھا؛
؎ ہے کچھ ایسا کہ جیسے یہ سب کچھ
اس سے پہلے بھی ہو چکا ہے کہیں