آج ہمارا محور ہماری صحافی برداری ہے جس پر میں ہمیشہ فخر کرتا ہوں۔ اگرچہ مجھے اسی برادری نے ڈس اون کیا ہے کہ اب تم صحافت نہیں کر رہے بلکہ صحافت کی استادی کر رہے ہو، اس لئے تم صحافی نہیں ہو اور ہم خاموش رہ گئے کہ چلیں ہمارے یہ بھائی ٹھیک ہوں گے۔ مگر چونکہ قلم برداری سے تعلق ابھی تک قائم ہے اور کبھی کبھار علاقائی مسائل پر خبریں چھاپ دیتے ہیں تو لوگ ہمیں ابھی بھی صحافی سمجھتے ہیں اور یہ سن کر خوشی بھی ہوتی ہے۔ اب کوئی مجھے صحافی سمجھے یا نہ سمجھے، یہ اس کی اپنی ذہنی اختراع ہے۔
گذشتہ روز پشاور کے صحافی دوستوں کے نیوز گروپ میں ایک ویڈیو گردش کرتی نظر آئی جس میں ایک سینیئر صحافی جس کے سورسز ہر ادارے میں موجود ہیں اور انویسٹی گیٹیو رپورٹنگ اگر پشاور میں زندہ ہے تو ارشد عزیز ملک سے ہی زندہ ہے جس کی کہانیاں واقعی قابل ستائش ہوتی ہیں، وہ ایک خاتون سے سخت لہجے میں بات کر رہا ہے۔ بعد میں پتہ چلا کہ وہ ایڈیشنل اسسٹنٹ کمشنر ثانیہ صافی ہیں جس نے پشاور میں اساتذہ کی اپ گریڈیشن کے حوالے سے ہونے والے احتجاج میں صحافیوں کو کوریج سے روکا تھا اور انہیں برا بھلا کہا تھا جس پر صحافی غصہ ہوئے اور ثانیہ صافی کے آفس میں پہنچ کر اس کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانا چاہا مگر بیوروکریسی کا نشہ سر چڑھ کر بولا اور وہ صحافیوں سے الجھ گئیں۔ انہیں معلوم نہیں تھا کہ صحافیوں کی جیب میں پیسے نہیں ہوں گے مگر وہ جھکنا نہیں جانتے، اپنے مالکان کے سوا۔ پھر وہی ہوا کہ ثانیہ صافی کی جانب سے جرگہ ہوا اور بات ختم کر دی گئی۔
اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں جن میں صحافی ایک پلیٹ فارم پر کھڑے ہوئے ہیں۔ جس بھی پارٹی کے عہدیداروں نے کسی صحافی کے خلاف کوئی بات کی وہ اس کے ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں اور اس بات کی پروا نہیں کرتے کہ سامنے والا کس پارٹی کا ہے۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں پشاور کی صحافی برادری کئی دفعہ عمرانی رویے اور اس کے حواریوں کی فوج پر سیخ پا ہوئی اور پھر انہیں منانے حکمران جماعت آ جاتی۔ اسی طرح بیوروکریسی اور پولیس کے ساتھ واقعات بھی موجود ہیں جس میں ان کا اتفاق موجود ہے اور دیکھنے سے لگتا ہے مگر جب الیکشن کے دن آتے ہیں تو یہ صحافی اپنے دوستوں کے خلاف ایسے پروپیگنڈا کرتے ہیں کہ لگتا ہی نہیں کہ یہ وہ دوست ہیں جو ایک صف میں کھڑے تھے مگر الیکشن یعنی پریس کلب الیکشن کے ہو جانے کے بعد یہ پھر سے ایک ہو جاتے ہیں جیسے بچے ادھر لڑتے ہیں ادھر پھر کھیلنے لگ جاتے ہیں تو یہ صحافی بچوں کی خاصیت رکھنے والی مخلوق ہے۔ دل میں شاید ہی کوئی بات رکھتے ہوں۔
قیوم سٹیڈیم پشاور میں ایک دفعہ دوستوں کا سوئمنگ پول جانے کا پروگرام بنا۔ مجھے سوئمنگ نہیں آتی مگر دوستوں کا ساتھ نبھانا تھا اس لئے گرمی کو ختم کرنے وہاں پہنچ گئے۔ ڈائریکٹر سپورٹس سے اجازت لی جا چکی تھی مگر جوں ہی ہم پانچ چھ صحافیوں کو انچارج نے سوئمنگ پول کی جانب آتے دیکھا اس نے تالا لگا دیا اور دوسرے راستے سے کھسک گیا۔ ہم نے دیکھ لیا تھا اس لئے اس کا بچنا ناممکن تھا۔ ایک دوست نے پوچھا کہ ایسا کیوں کیا تو گویا ہوئے، میری مرضی ہے میں اس کا انچارج ہوں۔ اور بدتمیزی پر اتر آیا حالانکہ اسے اجازت نامہ دکھایا بھی گیا مگر وہ نہیں مانا اور پھر لڑائی میں وہ زخمی ہو گیا۔ اس کے اور ساتھی بھی آ گئے تھے۔ تب یاد پڑتا ہے تین دن پہلے ایک دھماکہ ہوا تھا جس کے لئے سکیورٹی میٹنگ جاری تھی۔ جب منسٹر سپورٹس عاقل شاہ کو پتہ چلا اور اس نے رابطہ کیا کہ آپ لوگ جائیں، ہم اس پر بیٹھ جائیں گے۔ تب راقم نے عاقل شاہ کو فون کیا کہ آپ نے ابھی آنا ہے۔ آپ کے لئے وہ سکیورٹی کی میٹنگ اہم ہے، ہمارے لئے یہ میٹنگ ضروری ہے۔ وہ آئے اور آتے ہی پوچھا کہ وسیم خٹک کون ہے؟ میں نے جواب دیا کہ میں ہوں۔ ادارے کا پوچھا کہ کہاں کام کرتے ہو؟ میں نے ترکی بہ ترکی جواب دیا تو بولے، وہ میرا بھانجا ہے جس کے ساتھ کام کرتے ہو، ابھی فون کروں اسے؟ میں نے فوراً جواب دیا نہ کریں۔ یہ سمجھیں کہ میں اب اس ادارے میں نہیں ہوں، پھر بھی صحافی برادری کے ساتھ کھڑا ہوں۔ میرے سارے دوست مجھ سے زیادہ بپھرے ہوئے تھے۔ پھر وہ بندہ معطل ہوا۔
کہنے کا مطلب یہ تھا کہ اپنوں کے ساتھ کھڑا ہونا ہی پڑتا ہے مگر مجھے ایک بات پر بہت افسوس ہوتا ہے جب ہمارے صحافی دوست دوسروں کے مسائل کے لئے تو کھڑے ہوتے ہیں مگر اپنے مسائل کے حل کے لئے بات نہیں کرتے۔ آج بھی پشاور میں صحافی پندرہ بیس ہزارروپے ماہانہ تنخواہ پر کام کر رہے ہیں حالانکہ بتیس ہزار ایک مزدور کی کم سے کم اجرت ہے جس پر میڈیا مالکان خاموش ہیں حتی کہ کچھ اداروں نے تو رپورٹرز کی پوسٹ ہی ختم کر دی ہیں۔ وہ اب ویب سائٹس اور وٹس ایپ گروپس سے خبریں لے کر شائع کرتے ہیں جبکہ حکومت انہیں تواتر سے پھر بھی اشتہارات دیتی ہے۔
میڈیا یونینز کبھی کبھار بیدار ہو جاتی ہیں مگر وہ بیداری کچھ وقت کے لئے ہی ہوتی ہے جو جلد جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے۔ کاش ہمارے یہ بھائی مالکان کے خلاف بھی لڑائی کا اعلان کریں اور اپنے حقوق کے لئے آخر تک لڑیں تو بات بنے۔ ورنہ آنے والے دور میں صحافت رہے گی اور نا ہی صحافیوں کے جھگڑے رہیں گے کیونکہ ڈیجیٹل میڈیا نے صحافیوں کے لئے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔