ضلع خضدار کے رہائشی 21 سالہ سلیم بہت ہی ناامید ہو کر بولے؛ میں ووٹ ڈالنا چاہتا ہوں مگر میرا ابھی تک شناختی کارڈ نہیں بنا۔ سلیم معذوری کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر سکا، اس کے والد مشکل سے دو وقت کی روٹی کما پاتے ہیں۔ قسمت کی ستم ظریفی ہے کہ ایک ہی خاندان کے پانچ افراد معذوری کے شکار ہیں، جن میں سلیم سمیت تین بھائی اور دو بہنیں شامل ہیں۔
سلیم کا بھائی عطاء اللہ 2018 کے انتخابات میں عوامی نمائندوں کے وعدوں پر مبنی منشور پہ یقین کر کے خود کی تقدیر کو ایک موقع دینے خضدار سے کرخ گیا تھا، کیونکہ اس کا آبائی علاقہ تحصیل کرخ ہے جو خضدار سے 65 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔
سلیم کے بھائی افتخار کی عمر 25 سال ہے۔ اس خاندان میں صرف ایک فرد کا شناختی کارڈ بنا ہے مگر اس بار عطاء اللہ بھی ووٹ ڈالنے کیلئے کرخ تک کا سفر کرنے کے بجائے خضدار میں رہ کر اپنا چنگچی رکشہ چلانا چاہتا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ الیکشن کے دن خضدار میں مختلف سیاسی کارکنان کا پولنگ سٹیشن تک آنا جانا ہوتا ہے تو میں کرخ جا کر اپنے پہلے سے ضائع شدہ ووٹ سے زیادہ اپنا رکشہ چلانے کو ترجیح دوں گا، کیونکہ اس سے میں اپنے ماں باپ اور چاروں معذور بہن بھائیوں کے لیے تھوڑے پیسے کما سکوں گا۔ ان سیاسی وعدوں اور نعروں کے پیچھے لچکدار زبان کی اصلیت ہم پہلے سے دیکھ چکے ہیں۔
سلیم کہتا ہے کہ مجھے پڑھنے کا بہت شوق ہے مگر جب میں چار سال کا تھا تب اچانک میرے پاؤں اور کمر کی ہڈیوں کو معذوری نے اپنی گرفت میں لے لیا، آہستہ آہستہ مجھے معذوری کے احساس نے کمزور کر دیا، اب دل نہیں کرتا کہ شناختی کارڈ بنواؤں۔ ہمارے والد کے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ کسی اچھے ہسپتال لے جا کر ہمارا علاج کروا سکیں۔ والد محنت مزدوری کر کے جو کماتے ہیں، اس سے بمشکل ہمارا پیٹ بھرتا ہے اور ہم پانچوں معذور بہن بھائی اتنی بھی گنجائش نہیں رکھتے کہ ایک وہیل چیئر لے سکیں۔ اگر ہم غریب نہ ہوتے تو آج ہم پانچوں کے پاس کم از کم وہیل چیئر ضرور ہوتی۔ چونکہ معذوری کی حالت میں غربت کی وجہ سے ہماری دیکھ بھال ہمارے ماں باپ کرتے ہیں تو ان کیلئے یہ ناممکن ہے کہ وہ ضعیف العمری میں ہمیں کندھوں پر اٹھا کر پولنگ سٹیشن تک لے جا سکیں۔
ان کے مطابق ہم ووٹ ہی کیوں دیں، کیونکہ ہمارے لیے کوئی سہولیات ہیں اور نا ہی کوئی خیر خواہ سیاسی رہنما موجود ہے جو ہماری حالت زار پہ ترس کھا کر ہمارے لیے سنجیدگی سے کچھ کر سکے۔ ہم بہت مشکل حالات میں ہیں جبکہ دوسرے ممالک میں معذور افراد کو توجہ حاصل ہوتی ہے حتی کہ ان کیلئے مخصوص قوانین کے ساتھ ساتھ سہولیات اور وظائف میسر ہوتے ہیں۔ مگر اس ملک میں معذور بچے اپنے ماں باپ پر بوجھ ہوتے ہیں۔ ایک طرف غربت اور دوسری طرف معذوری، میرا دل نہیں کرتا کہ میں خضدار کے نادرا آفس جا کر شناختی کارڈ کیلئے دھکے کھاؤں۔ میں ووٹ ڈالنا چاہتا ہوں مگر سوچتا ہوں مجھے میرے والد کیسے لے جائیں گے، وہ مجھے اٹھا نہیں سکتے، میں اب بڑا ہو چکا ہوں، پولنگ سٹیشن میں بھی ہمیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہمارے لیے کوئی سہولیات نہیں ہیں اور ہم کرخ سے خضدار منتقل ہوئے کیونکہ وہاں ہمارے والد کیلئے کوئی روزگار کے مواقع نہیں تھے۔ میرے بھائی بھی معذور ہیں مگر مجبوری اور غربت نے اس کو رکشہ چلانا سکھا دیا جو محنت مزدوری کر کے بمشکل دن میں چار سے پانچ سو روپے کما کر گھر لاتا ہے جس سے ہمارے گھر کا چولہا جلتا ہے۔
سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ خضدار آفس کی جانب سے بتایا گیا کہ ضلع خضدار میں اس وقت 1650 معذور افراد رجسٹرڈ ہیں۔
ایک رضاکار تنظیم ' کوئٹہ آن لائن رضاکار' کے بانی ضیاء خان کے مطابق بلوچستان بھر میں 21 ہزار کے قریب معذور افراد سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ میں رجسٹرڈ ہیں۔ ان کے مطابق رجسٹریشن کا عمل خاصا مشکل ہے۔ شعور اور آگہی کی کمی کی وجہ سے بلوچستان کے دور دراز علاقوں کے زیادہ تر معذور افراد رجسٹرڈ نہیں ہیں، جبکہ شہری علاقوں میں معذور افراد کی رجسٹریشن کی شرح دیہی علاقوں سے زیادہ ہے۔
معذور افراد کی رجسٹریشن کا عمل خاصا پیچیدہ ہے۔ تمام ڈاکومنٹس فائنل کرنے کے بعد ایک میڈیکل بورڈ معذوری سرٹیفکیٹ جاری کرتا ہے اور میڈیکل بورڈ کا ہر ماہ ایک اجلاس ہوتا ہے۔ اسی سرٹیفکیٹ کی بنیاد پر نادرا معذوروں کو شناختی کارڈ جاری کرتا ہے۔ اس حوالے سے ہر تحصیل میں ایک میڈیکل بورڈ قائم ہے اور کسی بھی معذوری کے شکار فرد کو ضروری کاغذات مکمل کرنے کے بعد میڈیکل بورڈ کے سامنے پیش ہونا ہوتا ہے۔
ادارہ شماریات پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق بلوچستان میں 21 ہزار کے قریب معذوری کے شکار افراد رجسٹرڈ ہیں جبکہ نادرا کے مطابق یہ تعداد 2020 تک 11 ہزار کے قریب تھی۔
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے جن معذور افراد سے میری بات ہوئی ان کے مطابق معذوری کے شکار افراد کی تعداد اس سے کئی گنا زیادہ ہے مگر رجسٹریشن کا عمل پیچیدہ ہونے کی وجہ سے ہزاروں معذور افراد اپنی رجسٹریشن کروانے سے قاصر رہتے ہیں کیونکہ ان کو حکومت کی طرف سے کوئی سہولیات نہیں ملتیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان بلوچستان کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر آف میڈیا کوآرڈینیشن غوث بخش بلوچ نے بتایا کہ معذوری کے شکار افراد کے لئے الیکشن ایکٹ میں سیکشن 93 میں درج ہے کہ معذوری کے شکار افراد جو پولنگ سٹیشن تک نہیں جا سکتے ان کے لئے پوسٹل بیلٹ کی سہولت موجود ہے۔ پوسٹل بیلٹ کی سہولت سے استفادہ کر کے وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ 2024 کے متوقع الیکشن کے حوالے سے بلوچستان بھر کے تمام ڈپٹی کمشنرز کو ہدایات دی گئی ہیں کہ جن پولنگ سٹیشنز میں معذوری کے شکار افراد کے ووٹ رجسٹرڈ ہیں ان کو پولنگ ڈے پر پولنگ سٹیشن تک رسائی دی جائے۔ ان کے مطابق پولنگ ڈے پر معذوری کے شکار افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ووٹ کاسٹ کرنے کی سہولت دی جائے گی اور ریمپ بھی بنائے جائیں گے۔
ضیاء خان کے مطابق حکومت کی جانب سے میسر سہولیات کے لئے سب سے پہلے ڈس ایبلٹی سرٹیفکیٹ بنوانا ہوتا ہے، پھر ڈس ایبلٹی شناختی کارڈ بنوا کر الیکشن کے حوالے سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق کچھ افراد اس حوالے سے الیکشن کمیشن سے ٹریننگ بھی لے چکے ہیں اور یہ لوگ ڈاک کے ذریعے ووٹ ڈالنے کے طریقے سے واقف ہوتے ہیں۔