Get Alerts

کشمیر کاز کو مضبوط کرنے کیلئے پاکستان گلگت بلتستان کو دیوار سے نہ لگائے

اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانے سے کشمیر سے متعلق مؤقف کمزور ہوتا ہے تو اس کا واحد حل سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی ہے۔ سٹیٹ سبجیکٹ رول کو بحال کر کے گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر کی طرز کا سیٹ اپ دیا جائے تاکہ یہاں کے عوام کی محرومیوں کا ازالہ ہو سکے۔

کشمیر کاز کو مضبوط کرنے کیلئے پاکستان گلگت بلتستان کو دیوار سے نہ لگائے

حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان کے لوگوں نے ایک سے ایک مسائل کا سامنا کیا جہاں ایک طرف دہشت گردی کی لہر نے جنم لیا اور دوسری طرف سوہنی دھرتی کی زمینوں کو گرین ٹورازم نامی کمپنی کے حوالے کر دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان نے اس بات کا اعتراف گلگت بلتستان اسمبلی میں کیا کہ انہوں نے کابینہ سے مشاورت اور اجازت کے بعد زمینوں کو گرین ٹورازم کمپنی کے حوالے کیا۔ اس کے بعد گلگت بلتستان میں ایک کہرام مچ گیا۔ عوام نے اس فیصلے پر شدید ردعمل کا اظہار کیا اور شدید تنقید کی۔

اس سے قبل میں نے خالصہ سرکار والے آرٹیکل میں بھی لکھا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھی ایک ایکٹ جس کا نام روشنی ایکٹ تھا، متعارف کرایا گیا اور وہاں کی زمینوں کو مختلف سیاست دانوں، فوجیوں اور بیوروکریٹس کے رشتہ داروں کے نام منتقل کیا گیا۔ جس پر مقبوضہ کشمیر کے عوام نے سپریم کورٹ آف جموں کشمیر میں ایک پٹیشن داخل کی۔ کیس کا فیصلہ ان کے حق میں آ گیا اور تمام انتقال شدہ زمینوں کو دوبارہ کشمیریوں کے حوالے کر دیا گیا۔ اب تو مودی سرکار نے 370 بی کو ختم کر دیا اور باہر سے لوگوں کو زمین خریدنے کی اجازت دے دی جس پر پاکستان نے شدید تحفظات کا اظہار کیا۔ اب بھارت کے ایک جریدے کے مطابق جموں کشمیر کی زمینوں میں لیتھیئم کثرت سے پایا جاتا ہے اور مودی اپنے دوست اور بھارت کے مشہور بزنس مین اڈوانی کو یہ زمین دلوانے کے لیے 370 بی کا خاتمہ کر چکے ہیں۔ اب اڈوانی کی کمپنی انڈیا میں الیکٹرک کاریں متعارف کروا رہی ہے تا کہ لیتھیئم کا صحیح استعمال کر سکے اور اڈوانی کو نفع ہو۔

یہاں پر بھارت کی مثال اس لیے دی کہ حکومتیں اور دیگر تمام قوتیں ہمیشہ سے ہی اشرافیہ کے ہاتھوں مجبور رہی ہیں، خواہ پاکستان ہو یا ہندوستان۔ پاکستان کے بھی ایک بزنس ٹائیکون ملک ریاض کے سامنے ہماری عدالتیں ہوں یا حکومتیں، سب بے بس ہیں۔

حالیہ دنوں میں گلگت بلتستان کی زمینوں کو گرین ٹورازم کے سپرد کرنے پر جی بی کے عوام نے حکومت اور دیگر اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جو بھی حکومت ہو یا ادارہ، وہ ہمیشہ علاقے کی خوشحالی چاہتا ہے مگر اشرافیہ یہ نہیں دیکھتی۔ ان کو مطلب ہوتا ہے نفع سے۔ پاکستان کی 60 فیصد دولت یہاں کے 10 فیصد لوگوں کے ہاتھوں میں ہے جس میں سے 3 فیصد لوگ تو پاکستان میں ہی نہیں رہتے۔ مگر تمام تر قوانین انہی لوگوں کی ایما پر اور ان کی سہولت کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ یہاں پر میں کسی مخصوص طبقے کو تنقید کا نشانہ نہیں بنا رہا مگر جب عوام کی آنکھوں میں دھول جھونک کر ان کو ریاست کے خلاف کرنے اور اسی سے اپنا فائدہ اٹھانے والوں کے بارے میں نشاندہی کرنا بھی لازم ہے۔ اگرچہ اشرافیہ طاقتور ہے اور گلگت بلتستان کی زمینوں کو اپنی ایما پر استعمال کرنا چاہتی ہے تو یہاں کے لوگوں کو کیا کرنا چاہیے، یہ ایک اہم سوال ہے؟

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

بے شک پاکستان اور بالخصوص گلگت بلتستان کے لوگوں نے کشمیر کے لیے بہت سی قربانیاں دیں۔ گلگت بلتستان آج تک اپنے آئینی حقوق کے لیے جنگ لڑ رہا ہے۔ اگر ہم موازنہ کریں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ترقی اور دیگر وسائل کا تو یہ گلگت بلتستان آنے والے سیاح بھی ببانگ دہل کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں اتنی ترقی نہیں جتنی آزاد کشمیر میں ہے۔ پاکستان نے بھی چار بڑی جنگیں کشمیر کے لیے لڑی ہیں۔ اب پاکستان کی حکومت کو بھی کچھ اہم فیصلے لینا پڑیں گے۔ گلگت بلتستان کے لوگ 77 سال سے پاکستان کا آئینی حصہ بننے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اب حکومت دوسرے صوبوں کی طرح جی بی کو مراعات دے کر اس کو باقاعدہ پاکستان کا آئینی حصہ بنائے اور یہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ کرے۔ اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ بنا دیا جاتا ہے اور لوگوں کو انویسٹمنٹ کرنے کا بھرپور موقع ملتا ہے تو یہ ناصرف پاکستان کے حق میں بہتر ہو گا بلکہ گلگت بلتستان کی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرے گا۔

اگر حالیہ صورت حال میں کوئی بڑی انویسٹمنٹ یہاں گلگت بلتستان میں آتی ہے تو کوئی بھی انویسٹمنٹ اسی صورت کرے گا جب اسے امید ہو کہ اسے یہاں کے تمام تر وسائل استعمال کرنے کی اجازت ہو گی۔ حالیہ واقعات سے اخذ کرتے ہوئے میں یہ کہنے سے نہیں کتراؤں گا کہ نام نہاد کامریڈ پھر اس طرح کی انویسٹمنٹ کو رکوانے اور اپنی مردہ سیاست کو جگانے کے لیے جی بی کی آئینی حیثیت کو ٹول کی طرح استعمال کریں گے۔ اسی لیے یہاں کے لوگوں کو آئینی حقوق دے کر پاکستان یہاں پر انویسٹمنٹ کو فروغ دے سکتا ہے۔

پاکستان کے تمام حب الوطن اور غیور لوگ کشمیر سے اتنا ہی پیار کرتے ہیں جتنا کہ لاہور یا کراچی سے اور ہم سمیت ہمارے حکمران کبھی بھی کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے نہیں دیں گے۔ ہمارا اقوام متحدہ میں یہ سٹینڈ ہے کہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے اور یہاں کے لوگ ووٹ سے ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔ اگر گلگت بلتستان کو پاکستان کا آئینی حصہ بنانے سے یہ سٹانس کمزور ہوتا ہے تو اس کا واحد حل سٹیٹ سبجیکٹ رول کی بحالی ہے۔ گلگت بلتستان میں سٹیٹ سبجیکٹ رول کو بحال کیا جائے اور گلگت بلتستان کو بھی آزاد کشمیر کی طرز کا سیٹ اپ دیا جائے تا کہ یہاں کے لوگوں کی محرومیوں کا ازالہ ہو اور کسی کاز کو مضبوط کرنے کے لیے یہاں کے لوگوں کو دیوار سے نہ لگایا جائے۔

خلیق زیب فارمن کرسچیئن کالج لاہور سے فارغ التحصیل ہیں اور اب قانون کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔