ایران اور امریکہ کی کشیدگی میں جوں جوں اضافہ ہو رہا ہے، اسرائیل کی پریشانی بھی بڑھتی جا رہی ہے جس کا اظہار اسرائیلی قیادت کے بیانات سے واضح طور پر ہو رہا ہے جو یہ خیال کرتی ہے کہ اگر امریکہ اور ایران کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا تو ایران براہ راست یا پراکسی کے ذریعے اسرائیل پر حملہ آور ہو سکتا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران پر معاشی و عسکری دبائو میں اضافہ کرتے ہوئے ایرانی قیادت پر زور دیا تھا کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو ترک کرنے کے لیے مذاکرات کرے۔ امریکی صدر نے فوجی کارروائی کو بھی خارج از امکان قرار نہیں دیا تھا جو مشرق وسطیٰ کے بہت سے ملکوں کی خواہش بھی ہے جن میں سعودی عرب سرفہرست ہے۔
باعث دلچسپ امر یہ ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نتین یاہو کی حکومت ایران اور امریکہ کی حالیہ کشیدگی پر فکرمند دکھائی دے رہی ہے جب کہ اس سے قبل نیتن یاہو ڈونلڈ ٹرمپ کے بے لچک موقف کی حمایت کرتے رہے ہیں۔
برطانوی خبر رساں ادارے رائٹرز کی ایک رپورٹ کے مطابق، اسرائیل کے وزیر برائے توانائی یووال استاینیتز نے ایران اور امریکہ میں بڑھتی ہوئی کشیدگی پر بات کرتے ہوئے کہا، یہ حقیقت ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا، اگر ایران اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا تو مجھے خدشہ ہے کہ ایران اور اس کے پڑوسی ملک حزب اللہ اور دیگر جہادی تنظیموں کو غزہ سے استعمال کریں گے۔
یووال استاینیتز اسرائیلی وزیراعظم کے قریبی ساتھی اور کابینہ کے اہم رُکن ہیں۔ انہوں نے کہا، اور یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ ایران براہ راست اسرائیل پر میزائل حملے کی کوشش ہی کر ڈالے۔
واضح رہے کہ شام میں کچھ عرصہ قبل ایرانی اور اسرائیلی فورسز مدمقابل آ چکی ہیں جب کہ لبنان میں حزب اللہ اور فلسطینی عسکریت پسند گروہوں کا بھی اسرائیل سے مقابلہ ہو چکا ہے۔
تاہم، مشرق وسطیٰ کے دو کناروں پر موجود ایران اور اسرائیل میں کبھی براہ راست لڑائی نہیں ہوئی۔