Get Alerts

سنو، میری بہن مریم!

سنو، میری بہن مریم!
میں نے سنا ہے کہ آپ کو پارٹی کی ناٸب صدارت مل گئی ہے اور آپ نے باقاعدہ سیاست کے اس پر خار میدان میں قدم رکھ دیا ہے۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے کہ پاکستان کو ذوالفقار علی بھٹو، بےنظیر بھٹو اور نواز شریف کے بعد ایک اور بہادر اور عوامی لیڈر مل گیا ہے لیکن ساتھ ہی میرا دل پریشان بھی ہے کہ پچھلوں کا جو انجام ہوا وہی آپ کا بھی نہ ہو اس لئے آپ کو بہت محتاط رہنے کی بھی ضرورت ہے۔

پاکستان میں ہر لیڈر کو جہاں مقامی اور بین القوامی طاقتوں کی طرف سے ڈسا جاتا رہا ہے وہیں خوشامدی اور مفاد پرست ٹولے نے بھی ہر لیڈر کو چاروں اطراف سے گھیر کر عوام اور زمینی حقاٸق سے دور کر کے تباہی کی جانب دھکیلا ہے۔ مجھے آپ کی سیاسی بصیرت پر کوٸی شک نہیں لیکن خوشامد اور چاپلوسی ایسے خطرناک جال ہیں کہ وقت کے بڑے بڑے بادشاہ اس میں پھنس کر زوال کا شکار ہوئے ہیں اس لئے سب سے پہلے آپ کو مفاد پرست اور خوشامدی ٹولے سے محتاط رہنا چاہیے اور اپنے ناقدین کو ہمیشہ پہلی ترجیح دینی چاہیے۔



ناقدین کی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک ایسا ناقد ہوتا ہے جس کا ایجنڈا ذاتی نوعیت کا ہوتا ہے لیکن وہ زمینی حقاٸق کو جانتے ہوئے بھی کسی نہ کسی اصول کا سہارا لے کر مخالفت برائے مخالفت کرتا ہے۔ اور ایک ناقد اصولی ہوتا ہے جو اصولوں پر سمجھوتا نہیں کرتا۔ اصولی طور پر ہی حمایت یا مخالفت کرتا ہے۔ آپ کو اپنی پارٹی میں موجود ایسے لوگوں کی نشاندہی کر کے اپنے قریب رکھنا چاہیے جو آپ کے سامنے آپ کی بات سے اصولی اختلاف کرنے کی جرأت رکھتے ہوں، جی حضوری کرنے اور ہاں میں ہاں ملانے والے ضروری نہیں کہ آپ کہ خیرخواہ ہوں۔

جب آپ اپنے ناقدین کو اپنے قریب رکھیں گی تو بات کرنے سے پہلے آپ کو بات کو تولنا بھی پڑے گا اور پھر ناقدین اور اختلاف رائے رکھنے والے آپ پر کسی بھی معاملے کے پوشیدہ پہلو سمجھنے میں آپ کی مدد بھی کریں گے۔ قسمت ہمیشہ بہادر لوگوں پر ہی مہربان ہوتی ہے اور عوام بھی بہادر لیڈر کو پسند کرتے ہیں۔



ماشاءاللہ آپ کو اللہ نے بہت ہمت اور حوصلہ عطا کیا ہے۔ میں امید رکھتا ہوں کہ آپ کا یہ ہمت، حوصلہ اور بہادری پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کے کام آئے گا۔ مجھے اس بات کا دکھ بھی ہے کہ آپ اپنی بیمار والدہ کو چھوڑ کر اپنے والد کے ساتھ جیل چلی گٸیں اور اس بات کی بھی خوشی ہے کہ آپ نے اب اس بات کو سمجھ لیا ہے کہ جب انسان کے کاندھوں پر قدرت قومی ذمہ داری ڈالتی ہے تو پھر اسے ذاتی دکھوں اور تکلیفوں کو برداشت کر کے قومی مقاصد کو ترجیح دینی پڑتی ہے۔

اگر آج آپ ملک اور قوم کے لئے اپنے ذاتی دکھوں کو پس پشت ڈال کر قومی ذمہ داری کو ترجیح دے کر عملی سیاست میں آٸی ہیں تو ان شاء اللہ کل یہ قوم بھی اپنے ذاتی دکھ اور تکلیف چھوڑ کر آپ کا قومی مقاصد میں ساتھ دے گی۔

اس کے ساتھ ہی میں یہ امید کرتا ہوں کہ مسلم لیگ  پر اس وقت جو ایک مخصوص صوبے کی چھاپ ہے وہ آپ کے آنے کے بعد ختم ہوگی۔ آج کل آپ کے لئے جو نعرہ لگ رہا ہے، ’چاروں صوبوں کی آواز، مریم نواز مریم نواز‘، بصد احترام میں اس نعرے سے اختلاف کرتا ہوں۔ آپ ابھی چاروں صوبوں کی آواز نہیں ہیں۔ لیکن یہ ضرور ہے کہ آپ کو چاروں صوبوں کی آواز بننا ہوگا اور چاروں صوبوں کے لوگ یہ چاہتے ہیں کہ آپ چاروں صوبوں کی آواز بنیں لیکن اس کے لئے آپ کو ان چھوٹے صوبوں کے مساٸل پر آواز اٹھانی ہوگی۔



پورے ملک کے چپے چپے میں خود جا کر لوگوں کے حالات دیکھنے ہوں گے۔ ان کے مساٸل پر بات کرنی ہوگی۔ بلوچستان، سندھ، کے پی اور فاٹا (جو اب خے پی میں ضم ہو چکا ہے) میں جاری سیاسی اور سکیورٹی حالات پر بات کرنی ہوگی اور ان کے مساٸل پر پالیسی دینی ہوگی۔

میڈیا پر جو لوگ مسلم لیگ ن کی نماٸندگی کرتے ہیں ان میں پنجاب کے علاوہ دیگر صوبوں کے لوگ بھی نظر آنے چاہئیں۔ آپ کو دوسرے صوبوں میں اپنے سیاسی مراکز کو فعال کرنا ہوگا اور وہاں جا کر وقت گزارنا ہوگا۔ آپ کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ دوسرے صوبے بھی آپ کو پنجاب کی طرح ہی عزیز ہیں۔ تب ہی آپ صحیح معنوں میں چاروں صوبوں کی آواز بن سکیں گی جس کی اس ملک کو بھی اشد ضرورت ہے۔

آپ کا خیر خواہ

مصنف کیمسٹری میں ماسٹرز ہیں، اور کراچی یونیورسٹی میں ابلاغیات کی تعلیم بھی حاصل کر رہے ہیں۔