لیاقت بلوچ کا کینیڈا پلٹ بیٹا، اور پنجاب یونیورسٹی کے جنازے

لیاقت بلوچ کا کینیڈا پلٹ بیٹا، اور پنجاب یونیورسٹی کے جنازے
پنجاب یونیورسٹی میں ہمارے ایک استاد بتایا کرتے تھے افغان جہاد کے دنوں میں کلاس میں لڑکیوں اور لڑکوں کے درمیان پارٹیشن ہوتی تھی۔ اکثر لڑکوں والا پورشن خالی ہوتا تھا۔ پوچھنے پر پتہ چلتا تھا کہ فلاں بھائی صاحب جہاد کے لئے افغانستان گئے تھے، وہ شہید ہو گئے ہیں، آج ان کی نماز جنازہ ہے تو سبھی وہاں گئے ہیں۔ کلاس خالی ہے۔

یہ قصہ جماعت اسلامی کے لیڈر لیاقت بلوچ کے بیٹے احمد سلمان بلوچ کے کینیڈا سے PhD کرنے پر سامنے آنے والے ردعمل پر یاد آیا۔ پاکستان میں موجود منافقوں کے اس ٹولے نے بے ضابطہ طور پر دہائیوں تک ملک پر راج کیا ہے۔ ڈنڈے کے زور پر نام نہاد مذہبی، اخلاقی و نظریاتی قوانین نافذ کرائے۔ ردعمل کی ناقابل تسخیر قوت حاصل کرنے کے بعد تعلیمی اداروں میں تربیت کے نام پر پورے تعلیمی نظام کی ہئیت بدل دی لیکن ذاتی طور پر انہوں نے اپنی اولادوں کو اس سارے عمل سے لاتعلق کیوں رکھا؟ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ سیاست میرٹ پر مبنی ایک طویل جدوجہد کا عمل ہے جس کے ذریعے ان کا جلد مین سٹریم ہو جانا تقریباً ناممکن ہے تو کیوں نہ مذہبی جذباتیت کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر کے شارٹ کٹ سے قوت حاصل کی جائے۔

وہ یہ بھی جانتے تھے کہ مذہبی سیاست ایک جذباتی عمل ہے جس کے ذریعے کچے ذہنوں کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اصل میں یہ کوئی ایسی نظریاتی لڑائی نہیں جس میں اپنے بچے جھونک دیے جائیں۔ لیاقت بلوچ کو یہ بھی پتہ تھا کہ پاکستان کا تعلیمی نظام کیا ہے اور اداروں میں کیا پڑھایا جاتا ہے تبھی تو انہوں نے ایک بہترین فیصلہ لیا۔ لیکن میری رائے میں دوسروں کے بچوں کو بھی ٹورنٹو یونیورسٹی جیسے آزادانہ ماحول میں پڑھنے کی گنجائش دی جانی چاہیے تاکہ طلبہ کی ٹھیک طرح سے نظریاتی و جذباتی تربیت ہو سکے۔ سیاست ذاتی مفادات کے لئے کی جانے والی گیم ہے تو مذہبی بنیادوں پر لوگوں کے بچے مروانے والے لوگوں کے بارے میں کیا کہا جائے گا؟

سچ تو یہ ہے کہ افغان جہاد بھی ایک مذہبی سیاسی گیم تھی جس میں ڈالروں کے عوض جماعت اسلامی سمیت کئی مذہبی سیاسی جماعتیں کود پڑی تھیں۔ جماعت اسلامی کے بارے میں شاید خواجہ آصف نے ٹھیک ہی کہا تھا "قیام پاکستان سے لے کر اب تک جماعت اسلامی کبھی بھی تاریخ کی درست سمت پر کھڑی نہیں ہوئی"۔

یہ ساری زندگی مغرب کے ساتھ نفرت کا چورن بیچتے رہے ہیں؛ کہ وہاں کا نظام تو تباہ حال ہے۔ اصل نظام تو ہمارے ہاں ہے۔ مغرب تو زبوں حالی کا شکار ہے جب کہ ہم تو اعلیٰ اخلاقی اقدار رکھتے ہیں تاہم جب بات اپنے نفع کی ہوئی تو تمام نظریات پس پشت ڈال دیے۔ لیاقت بلوچ کی ذاتی ترجیحات کچھ بھی رہیں، ان سے کوئی لینا دینا نہیں لیکن اگر ذرا بھی اخلاقیات باقی ہیں تو لوگوں کے بچوں کو ورغلانا چھوڑ دیں۔ اپنے بچوں کی طرح اوروں کے بچوں پر بھی توجہ دیں اور انہیں سچ بتائیں کہ تعلیمی نظام وہی اچھا جو عدم تشدد کی ترغیت دے، دوسروں کے اختلافی نظریات کو جذب کرنے کا حوصلہ دے۔ لیاقت بلوچ صاحب! جمعیت اور ٹورنٹو یونیورسٹی کی پروڈکٹ میں فرق کو اگر جان چکے ہیں تو معاشرے کو بھی اس سے استفادہ کرنے کا موقع دیں۔

مصنّف نیا دور میڈیا سے منسلک ہیں۔