Get Alerts

لاہور مر رہا ہے اور حکمران سیر سپاٹے کر رہے ہیں

اس شہر رومانس کے قاتل وہی لوگ ہیں جو 40 سال سے تخت پر بیٹھے ہیں۔ انہیں 8 فروری کے انتخابات میں اہلِ لاہور دھتکار چکے ہیں مگر فارم 47 اور ہئیت مقتدرہ کی وجہ سے پھر سنگھاسن پر بٹھا دیے گئے۔ چونکہ لاہور نے انہیں ووٹ نہیں دیے اس لیے وہ لاہور کو مرتا ہوا چھوڑ کر جنیوا سیر سپاٹے کر رہے ہیں۔

لاہور مر رہا ہے اور حکمران سیر سپاٹے کر رہے ہیں

ہندوستان کی تاریخ لگ بھگ 9 ہزار سال قدیم ہے۔ اس کے قدیمی شہروں جیسے متھرا، بنارس جس کا قدیمی نام وارانسی بحال کر دیا گیا ہے، چنائے، دہلی، جے پور اور لاہور شامل ہیں۔ ممکن ہے کچھ اور شہر بھی شامل ہوں مگر ہم صرف لاہور کی بات کرتے ہیں۔ یہ میرا شہر ہے جہاں میں نے آنکھ کھولی، ہوش سنبھالا اور شہر کے رومانس میں ہوش کھویا بھی۔

لاہور مر رہا ہے۔ سموگ کی موت شہر کی رومان پرور فضاؤں پر چھا چکی ہے۔ غیر منقسم ہندوستان کی ہزار سالہ تاریخ والا لاہور موت کے منہ پر ہے اور تخت لاہور پر قبضہ گروپ فارم 47 کے جعلی حکمران جنیوا میں سیر سپاٹے کر رہے ہیں۔ انہوں نے اہل لاہور کو مرنے کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

شہر لاہور تہذیبی، ادبی اور علمی روایات کا گڑھ رہا ہے۔ اردو اور پنجابی زبان و ادب کا مرکز لاہور ہمیشہ سے برصغیر کے نمایاں ترین شہروں شمار ہوتا رہا ہے۔ ہم اتنے بے حس ہیں کہ پہلے جدیدیت کی دوڑ میں تاریخ سے نابلد حکمرانوں نے شہر لاہور کی 9 ہزار سالہ تاریخ سے کھلواڑ کیا، اب اس شہر رومان کی فضاؤں کو بھی آلودہ کر دیا ہے۔ بھگوان رام کے بیٹے راجہ لہو چند نے دریائے ایراوتی کے کنارے اس شہر کی بنیاد رکھی تھی۔ ایراوتی راوی کا قدیمی نام ہے۔ راجہ لہو چند کے نام کا مندر آج بھی شاہی قلعہ میں موجود ہے۔ ہم نے تو اپنا دریا ہی اجاڑ دیا۔

ہم نے انڈر پاس بنائے، اورنج لائن ٹرین، میڑو بس تو بنا لی مگر راوی کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس سے بڑا ظلم اپنے شہر سے کوئی نہیں کر سکتا۔ لندن جدیدیت کا استعارہ ہے اور دریائے ٹیمز روانی سے بہہ رہا ہے کیونکہ لندن کو جو حکمران ملے وہ تاریخی شعور کے حامل تھے، جو تاریخ اور جدیدیت کو ساتھ لے کر چلتے تھے مگر ہمارے لنڈے کے انقلابی حکمران پہلے تاریخ مسخ کرتے رہے، اب لاہور کی آب و ہوا میں بھی سموگ کا زہر گھول دیا ہے۔ زہریلی دھند نے لاہور کو موت کا کنواں بنا دیا ہے۔

کہاں لاہور کا تعارف ٹی ہاؤس، حلقہ ارباب ذوق، شاہی قلعہ، شاہی مسجد، گردوارہ، کیتھڈرل چرچ، جین مندر، گورنمنٹ کالج، شالا مار باغ، لاہور ہائی کورٹ اور مسجد وزیر خان جیسی عمارتیں تھیں۔ بسنت جیسا تہوار، لاہور کے فلمی نگار خانے، اس شہر بے مثال سے شائع ہونے والے اردو کے اخبارات، اردو اور پنجابی کی کتب تھیں کیونکہ یہ شہر اشاعت کاری کا بھی گڑھ ہے اور کہاں اب سموگ اس کا تعارف بن چکی ہے۔

لاہور جو کبھی باغوں کا شہر تھا، جس میں لارنس گاڑدن، جہانگیر کا مقبرہ، بادامی باغ (جہاں اب کوئی باغ نہیں) جیسے باغات تھے اب لوگ کھلی فضاؤں میں جانے سے کتراتے ہیں۔ اس شہر رومانس کے قاتل کون لوگ ہیں؟ وہی جو 40 سال سے تخت پر چمٹ کر بیٹھے ہیں، جن کو 8 فروری کے انتخابات میں اہلِ لاہور دھتکار چکے ہیں مگر فارم 47 اور ہئیت مقتدرہ کی وجہ سے پھر وہ سنگھاسن پر بٹھا دیے گئے۔ چونکہ لاہور نے ان کو ووٹ نہیں دیے اس لیے وہ لاہور کو مرتا ہوا چھوڑ کر جنیوا سیر سپاٹے کر رہے ہیں، مگر مقام ماتم یہ ہے کہ فارم 47 کی جعلی وزیر اعلیٰ کے ساتھ ریاست کا ملازم چیف سیکرٹری بھی ان کی ذاتی چاکری کر رہا ہے۔

روم جل رہا تھا اور نیرو بانسری بجا رہا تھا۔ آج لاہور مر رہا ہے اور جعلی حکمران جنیوا میں موج میلا کر رہے ہیں۔ 77 سالہ ملکی تاریخ میں صرف ایک حکمران گزرا ہے، وہ جیل میں قید آزاد انسان کہتا تھا درخت لگاؤ، درخت لگاؤ اور یہ بنارسی ٹھگ اور ان کے دستر خوان کے رسیا صحافی اس بات کا مذاق اڑاتے تھے۔ اب بھگتو ان زہر آلود فضاؤں کو اور قدرت سے بارش کی دعا مانگو۔

حسنین جمیل 17 سال سے صحافت سے وابستہ ہیں۔ وہ افسانوں کی تین کتابوں؛ 'کون لوگ'، 'امرتسر 30 کلومیٹر' اور 'ہجرت' کے مصنف ہیں۔