یہ 11 جولائی کی رات ہے۔ جب میں دی نیشن اسلام آباد کے نیوز روم میں بطور انٹرنی کام کر رہا تھا، اُن دنوں میں عموماً دی نیشن کی دفتر سے رات گیارہ سے پہلے نکل جاتا لیکن 11 جولائی کی رات سر نے کال کی اور کہنے لگے ارے کاشف، آپ اپنا واٹس ایپ دیکھو، ایک آرٹیکل میں نے آپ کو بھیجا ہے، آپ اسی آرٹیکل کا اردو سے انگریزی میں ترجمہ کریں۔ میں نے سر سے کہا ٹھیک ہے کل تک انشاء اللہ اپنی کوشش کے مطابق کر لوں گا۔ گڈ نائٹ کہہ کر کال کاٹ دی۔
میں نے اپنا کام مکمل کرکے اُسی وقت آرٹیکل کا ترجمہ شروع کیا۔ رات کے گیارہ بجے تو شاہد صاحب ( سب ایڈیٹر دی نیشن) نے مجھے پکارا اور ہاتھ کے اشارے سے کہا، کر لیا ہے یا نہیں؟ میں نے کہا، سر کر لیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چلو ٹھیک ہے ابھی میرے پاس ٹائم نہیں ہے، میں فارغ ہو کر آپ کی فائل دیکھ لوں گا۔
کچھ منٹوں سے میرے دوست خضر کی کالز بھی آ رہی تھیں۔ اس کو بہت بھوک لگی تھی۔ مجھے دیکھا تو کہنے لگا، یار آپ فون کیوں نہیں اٹھا رہے تھے، میں نے بات ٹال کر اسے کہا چلو ستارہ مارکیٹ چلتے ہیں، آپ وہاں کھانا کھا لینا جبکہ میں چائے پی لوں گا۔ ویسے میں چائے کا زیادہ شوقین نہیں ہوں۔ میں نے مسکراہٹ لبوں پر بکھیرتے ہوئے نگاہوں سے دیکھا اور اس کو ساتھ روانہ کیا۔
ہم کچھ دیر بعد ستارہ مارکٹ کے کوئٹہ کیفے اور وہاں کھانا تناول فرمایا، اس کے بعد اپنے فلیٹ کی راہ لی۔ کوئٹہ کیفے کے لئے جو شارٹ کٹ راستہ ہم اختیار کرتے تھے وہ ایک گلی تھی جس کی چوڑائی دس بارہ فٹ تھی، اس گلی میں رات کے وقت عموماً بچے ٹینس اور کرکٹ کھیلتے تھے۔
میں اور خضر جب رات کے لگ بھگ 12 بجے اس گلی میں داخل ہوئے تو اس وقت ایک بچے کو دیکھا جو گیند کو ہوا میں اچھال کر کیچ کر رہا۔ میں نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس بچے سے کہا ارے بھائی پھینکو، میرے ذہن میں پہلے سے ہی تھا کہ یہ بچہ میری جانب گیند نہیں پھینکے گا لیکن خلاف توقع بچے نے میری جانب گیند اچھال دیا لیکن میری شومئی قسمت میں اسے کیچ نہ کر سکا اور گیند تھوڑی ہی فاصلہ پر کھڑی لڑکیوں پر گر گیا۔ میرے اندازے کے مطابق یہ لڑکیاں ٹینس کھیلنے کے لیے اپنی باری کا انتظار کر رہی تھیں اور آپس میں سب سہیلیاں تھیں اور ایلیٹ کلاس جیسی لگ رہی تھی۔
گیند لڑکیوں پر گرنے کے فوراً بعد میرے ساتھ دوست خضر کو شرارت سوجھی اور اس نے مجھے مخاطب کرتے ہوئے اونچی آواز میں کہا کہ کاشف کوئی اس طرح بھی کرتا ہے، یار یہ تو نے کیا کیا؟ خیر اخلاق کوئی معمولی چیز نہیں، میرے نزدیک اخلاقیات تربیت کا بہترین پیمانہ ہے، اُن لڑکیوں نے مجھے اُف تک نہیں کیا۔۔ غرضیکہ یہ ان کی اچھی تربیت، بہترین اخلاق کا منہ بولتا ثبوت تھا۔
سارے راستے میں میں خضر سے سخت ناراض رہا۔ مساوات بلڈنگ کے فلیٹ نمبر 305 میں ہم دونوں اکھٹے رہتے تھے، وہاں پہنچے تو دیگر دوست بھی وہاں موجود تھے۔ خضر سیدھا شاہ جی کے کمرے میں گیا جہاں منصور بھی موجود تھا، منصور نے مجھے آواز دی کاشف ادھر آؤ۔ میں گیا تو کہنے لگا آپ کا یہ چہرہ کیوں اترا ہوا ہے میں نے کہا کچھ خاص نہیں لیکن خضر نے کہانی شروع کی لیکن وہ اپنے مطابق کرنا چاہتا تھا، فلیٹ میں عدالت لگ گئی شاہ جی (اسلام آباد کے کچہری اور ہائی کورٹ کا وکیل ہے ) کے زیر صدارت، بیچ میں منصور علی بھی شامل ہو گیا۔ دلائل شروع ہونے سے پہلے یہ طے پا گیا جو ہارے گا وہ ہم سب کو چائے پلائے گا، چائے پر اتفاق ہو گیا۔ عدالت نے دلائل سننا شروع کیے۔
خضر نے پہلے اور بعد میں میں نے دلائل دیے۔ پوری کہانی سننے کے بعد شاہ جی نے کہا واہ جی یار یہ تو فلم کا سین ہے۔ شاہ جی نے فیصلہ سے خود کو یہ کہہ کر دستبردار کیا کہ اس کا فیصلہ کرنا میرے لیے مشکل ہے۔ منصور دو تین منٹ کے لئے خاموش رہا اور آخر انہوں نے پوائنٹس میں فیصلہ جاری کیا جس میں خضر کو 49 اور مجھے 51 پوائنٹس دیے گئے اور یوں خضر پر پارٹی ڈن ہوگیا۔ خیر چائے کے لئے ہم یہ کہہ کر نہیں گئے کیونکہ رات کا آدھا پہر گزر چکا تھا۔
کچھ دوست اتنے خاص دوست ہوتے ہیں کہ ان کی ہر غلطی ہماری لغت میں معنی نہیں رکھتی، جیسا میرا دوست! خیر چھوڑیں۔ پوری طرح سے استثنیٰ بھی نہیں دیا جا سکتا ہے جیسا کہ میرا ماننا ہے کہ اخلاقیات تربیت کا بہترین پیمانہ ہے، لڑکے بھی اخلاق سے پہچانے جاتے ہیں اور لڑکیاں بھی، اے دوست، یہ جان کر آپ کو خوشی ہوگی۔ کہیں پر آپ اور کہیں میں غلط ہوتا ہوں۔ بس چائے ہی سب غلطیوں کا حل ہونا چاہیے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
رشتوں کی گہرائیوں کو تھوڑا اور مضبوط بناتے ہیں
تم ہمیں ملنے آؤ ہم تمہیں چائے پلاتے ہیں