پاکستان میں اختتام پذیر ہوتی رواں دہائی میں اگر سیاسی بحث و مباحثوں کا تجزیہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ احتساب کسی بھی مباحثے کا بنیادی نکتہ خیال رہا۔ ایک جانب احتساب کے حق میں لوگ تھے تو دوسری جانب ان کے احتسابی خیالات کو سیاسی شکار گردی قرار دیا جاتا اور یوں یہ سلسلہ چلتا رہا۔ لیکن یہ سلسلہ بس یوں ہی چلتا نہیں رہا بلکہ اس نے کئی شخصیات کے سیاسی وجود کو زبردست نقصان پہنچایا۔ ان سے حکومتیں چھن گئیں اور انہیں اپنی زندگی کے قیمتی سال و ماہ قید و بند کی صعوبتیں جھیلنی پڑیں۔
غور کیا جائے تو ان سب افراد میں چاہے وہ کسی بھی سیاسی شناخت کے ساتھ موجود ہوں ان میں اکثریت سیاسی افراد کی تھی۔ اور اس کے بعد ایسے بیوروکریٹس کی جو ان سیاسی افراد کے ساتھ کام کر چکے تھے، وہ تھے۔ حتیٰ کہ ان میں سے کئی تو اب تک جیلوں میں پڑے ہیں۔ اس احتسابی گھن چکر میں جو بھی آیا اس نے اصولی طور پر اپنی سزائیں کاٹیں اور پھر قانونی ریلیف ملنے کے بعد ہی وہ جیلوں سے رہا ہوئے۔ اس وقت تو جیلوں میں بھیجنے والے خوش تھے اور ٹھٹہ کیا کرتے کہ ان کے مخالفین کیسے ایک مشکل وقت سے گزر رہے ہیں تاہم شاید سیاسی طور پر عاقبت نااندیش عناصر یہ دیکھ نہ سکے کہ احتساب کے ٹھیکیداروں کا یہ بھاری بھرکم بلڈوزر سطح زمین کی اونچ نیچ میں غیر متوازن ہو کر کسی بھی جانب چل سکتا ہے حتیٰ کہ ان کی اپنی جانب بھی۔
ہوا یوں کہ احمد نورانی کی معاونِ خصوصی وزیر اعظم برائے اطلاعات اور سی پیک اتھارٹی کے چیئرمین جنرل ر عاصم سلیم باجوہ کے اثاثوں سے متعلق ایک خبر فیکٹ فوکس نامی ویب سائٹ پر سامنے آ گئی۔ جس میں کروڑوں ڈالرز کی کمپنیوں کا جنرل صاحب کی اہلیہ اور بچوں کے نام پر براہ راست ہونے کا ذکر تھا۔ جس کے بعد کافی دیر تو یہ خبر چھپانے کی کوشش کی گئی تاہم یہ نہ ہو سکا اور مریم نواز نے اس کو سیاسی بیانیے کا حصہ بنا لیا جس کے بعد جو سلسلہ شروع ہوا وہ تھم نہ سکا۔
اس کے رد عمل میں باجوہ صاحب نے ایک وضاحتی پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے ان کمپنیوں کے وجود تو مانا لیکن ان سے منسوب کاروبار کے حجم کو رد کر دیا۔ کچھ ہی دیر بعد مشیر اطلاعات کے عہدے سے مستعفی ہونے کا بھی اعلان کر دیا لیکن سی پیک اتھارٹی کی چیئرمین شپ بدستور اپنے پاس رکھی۔ وزیر اعظم کی جانب سے یہ کہتے ہوئے استعفا رد ہو گیا کہ وہ عاصم باجوہ کی اثاثوں سے متعلق وضاحت پر مطمئن ہیں۔ اور اب ان کے پاس دنوں عہدے موجود ہیں۔
تاہم، لگتا یہ ہے کہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ میڈیا کے آف دی ریکارڈ حلقوں میں طاقت کے کئی دھڑوں کے بارے میں افواہیں گرم ہیں۔ تو آج Asian Review Nikkei میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں یہ کہا گیا ہے کہ سی پیک کے سربراہ یعنی جنرل ر عاصم سلیم باجوہ پر استعفا دینے کے لئے دباؤ ہے۔ یہ دباؤ کس طرف سے ہے؟ اس حوالے سے جریدے کا کہنا ہے کہ پاکستانی میڈیا میں یہ سوالیہ خیال سرگرم ہے کہ طاقتور جنرل ر باجوہ کے اثاثوں کے حوالے سے خبر برابر کے طاقتور حلقوں کی اشیر باد کے بغیر نہیں دی جا سکتی۔
مضمون میں لکھا گیا ہے کہ سی پیک کی سربراہی پر ایک ایسے شخص کی موجودگی جس پر بڑے اثاثے نامعلوم ذرائع اور اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے بنانے یا ان میں مدد دینے کا الزام ہو اس پورے منصوبے پر سوال تو اٹھاتا ہے۔ دوسری جانب سیاسی طور پر بھی دباؤ بڑھ رہا ہے اور اس کو کوئی نہ کوئی راہ تو دینا ہوگی۔
ساتھ ہی مضمون میں وارسا کے ایشیئن ریسرچ سنٹر برائے وار سٹڈیز کے محقق کا بیان شامل کیا گیا ہے جو کہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی ایلیٹ سی پیک کو ہر حال میں اختلافات کے باوجود پورا کرنا چاہتے ہیں۔ ساتھ ہی ولسن انسٹیوٹ کے ایشیا پروگرام کے ڈپٹی ڈائریکٹر کیوگلمین کا بھی تجزیہ اس میں شامل کیا گیا ہے۔ جس میں ان کا کہنا ہے کہ کرپشن کا سکینڈل عاصم باجوہ کو سی پیک پر کام کرنے سے نہیں روک سکے گا۔ یہ انہوں نے اس سیاق و سباق میں کہا کہ چین اور پاکستان دنوں ممالک میں انہیں سی پیک کے حوالے سے اعلیٰ درجے پر جانچا جاتا ہے۔
اب تازہ ترین طور پر وزیر اعظم کے مشیر برائے احتساب شہزاد اکبر نے کہہ دیا ہے کہ جسے جنرل عاصم باجوہ کی منی ٹریل پر اعتراض ہے وہ جا کر عدالت میں جے آئی ٹی کے لئے درخواست دے دے۔
گو کہ موٹروے واقعے کے بعد سے یہ معاملہ میڈیا اور عوام کی نظروں سے کچھ دیر کے لئے اوجھل ہے لیکن پاکستان کے سیاسی ماحول میں جس طرح سے احتساب کا نعرہ روز روز دہرا کر پیوست کیا گیا ہے امید یہی ہے کہ یہ آنے والی سیاسی کشمکش کے چند مہینوں میں پھر زندہ ہوگا اور اس کے نشانے پر وہی ہوں گے جنہوں نے سیاسی مقاصد کے لئے اس جن کو بوتل سے نکالا تھا۔