ریاض: پاکستانی جوڑے پر الزام تھا کہ وہ منشیات کی سمگلنگ میں ملوث تھے، سعودی وزارت خارجہ نے بھی جوڑے کو سزائے موت دئیے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔
سعودی وزارت کی جانب سے سامنے آنے والی تفصیلات کے مطابق دونوں کا جرم ثابت ہونے پر انہیں سزا دینے کا فیصلہ کیا گیا، جبکہ اس فیصلے کو ملک کی عدالت عظمیٰ نے بھی برقرار رکھا۔ جس پر دونوں کی سزا پر عملدرامد کیا گیا۔
جسٹس پروجیکٹ پاکستان (جے پی پی) نے واقعہ پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک قیدیوں کے تبادلے پر مذاکرات کررہے ہیں، ایسے وقت میں میاں بیوی کے سر قلم کردیئے گئے۔
ان کا کہنا تھا کہ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے نام پر فراڈ کرنے والے ملازمت کے نام پر لوگوں سے منشیات کی سمگلنگ کرواتے ہیں۔
جے پی پی کے مطابق یہ گزشتہ پانچ سالوں میں پہلی پاکستانی خاتون کو سزائے موت دی گئی، وزیر اعظم عمران خان کے احکامات کے باوجود حکومت بیرون ملک شہریوں کی مدد نہیں کر رہی۔
خیال رہے سعودی عرب میں سزائے موت دیے جانے کی شرح دنیا میں بلند ترین شمار کی جاتی ہے جہاں دہشت گردی، ریپ، مسلح ڈکیتی اور منشیات کی اسمگلنگ پر سزائے موت دی جاتی ہے۔
انسانی حقوق کے ماہرین سعودی عرب میں ملزمان کے ٹرائل کے حوالے سے کئی بار سوال اٹھا چکے ہیں، تاہم سعودی حکومت کا موقف ہے کہ سزائے موت مزید جرائم کو روکنے کے لیے موثر ہے۔
سعودی عرب میں 2016 میں مجموعی طور پر 144 افراد کو سزا دی گئی تھی تاہم انسانی حقوق کے گروپ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2016 میں سعودی عرب میں 150 سے زائد افراد کو سزائے موت دی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ 2015 میں سعودی عرب میں 158 افراد کو سزائے موت دی گئی تھی، جو گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے زیادہ تھی۔