موٹروے ایک، قوانین دو: عوام کو پریشان کیوں کیا جا رہا ہے؟

موٹروے ایک، قوانین دو: عوام کو پریشان کیوں کیا جا رہا ہے؟
آج صبح 11 اپریل 8 بجے کر قریب ایم 5 سکھر پر ایک کربناک صورتحال سے گزرا۔ میں، میرا بیٹا اور بیٹی رات ایک بجے کراچی سے نکلے۔ بیٹی کا شوہر قانون نافذ کرنے والے ادارے میں افسر ہے، بیٹی کو ایک بہت اہم کام کے لئے پنجاب گھر آنا تھا۔ آپ لوگ جانتے ہیں ایئر پورٹس وغیرہ بند ہیں. ‏اس کے شوہر کو موجودہ حالات کے پیش نظر چھٹی نہیں ملی، طبیعت خرابی کے باوجود میں بیٹے کے ساتھ کراچی گیا تاکہ بیٹی کو بائے روڈ لا سکوں۔

اس کے شوہر نے اپنے آفس سے لیٹر بھی دیا جس میں میرے اور میرے بیٹے کے قومی شناختی کارڈ نمبر بھی درج تھے۔ ہم تینوں رات کو کراچی سے نکلے۔ کراچی حیدرآباد ‏ایم 9 پر ہمیں کسی نے نہیں روکا، نہ سفر کرنے سے منع کیا، نہ ہی کہا کہ ایک کار میں دو سے زائد لوگ سفر نہیں کر سکتے۔ جب ہم 450 کلومیٹر کا سفر طے کر کے سکھر ایم 5 پر پہنچے تو وہاں ڈیوٹی پر موجود لوگوں نے مجھ سمیت کم از کم پچاس گاڑیوں کو روکا ہوا تھا۔

میں نے اس کو ادارے کا لیٹر بھی ‏دکھایا لیکن وہ ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھے کہ ایک گاڑی میں دو سے زیادہ لوگ سفر نہیں کر سکتے۔ اس عرصہ میں کچھ گاڑیوں کو اس نے ’اکاموڈیٹ‘ بھی کیا۔ انہیں جانے دیا لیکن ہم لوگوں کو درجنوں گاڑیوں کے ہمراہ روکے رکھا۔

سخت پریشانی اور تھکن کے عالم میں میری طبیعت خراب ہو گئی۔ بیٹی نے اپنے ‏شوہر سے رابطہ کیا۔ اس نے پتہ نہیں کس طرح ہمیں آدھے پونے گھنٹے کی مغزماری کے بعد سفر کی اجازت لے دی۔

میں صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں موٹر وے پولیس کے اربابِ اختیار سے کہ ایک ملک ہے، ایک محکمہ ہے، پھر دو قانون کیسے ہیں؟ اگر ہم واقعی کوئی غیر قانونی کام کر رہے تھے تو ہمیں کراچی سے ہی ‏کیوں نکلنے دیا اور اگر یہ قانون نہیں تو سکھر میں ایم 5 پر موجود افسر فرعون کیوں بنا ہوا تھا؟ یہ کیا طریقہ ہے کہ ایک موٹر وے اور چار سو کلومیٹر سفر کے بعد آپ فیملیز کو اس طرح تنگ کر رہے ہیں اور پھر بعد میں خوار کر کے اجازت بھی دے رہے ہیں؟

میں نے اس کے بعد جب ایم 5 پر سفر شروع ‏کیا تو کچھ دیر بعد اور گاڑیاں بھی نظر آئیں جن میں سفر کرنے والوں کی تعداد تین سے بھی زائد تھی۔ کیا ان گاڑیوں کو بھی اثر و رسوخ کی بنا پر اجازت ملی یا ایم 5 سکھر کا عملہ رشوت لے کر انہیں چھوڑ رہا ہے؟ اور اگر واقعی دو سے زیادہ لوگوں کا ایک کار میں سفر ممنوع ہے تو آغاز سفر میں ہی اس ‏کی اجازت کیوں دی جا رہی ہے؟ کیوں آدھے سفر کے بعد لوگوں کو خوار کیا جا رہا ہے کہ آپ سفر جاری نہیں رکھ سکتے؟

یہ کھلم کھلا یا تو محکمانہ نااہلی ہے یا اختیار کا ناجائز استعمال۔ موٹر وے پولیس ان چند محکموں میں سے ایک ہے جن کی ریپوٹیشن بہتر ہے۔ اس طرح کی کالی بھیڑوں کا محاسبہ کر کے ‏اس نسبتاً بہتر محکمے کو بچایا جائے اور پاکستان کے ہر کونے میں ایک ہی قانون کو رائج کیا جائے۔