اک گمشدہ کی ڈائری سے ایک ورق

اک گمشدہ کی ڈائری سے ایک ورق
ہر طرف گہرا سکوت تھا گرمیوں کی یہ  راتیں  اور چھت پر پورے چاند کی ٹھنڈی چاندنی۔ گو کہ مچھروں کےلئے گرمی اور لائٹ سے ستے انسانوں کا شیریں خون پینے کےلئے سب سے موزوں وقت یہی تھا لیکن عوام کو اسکی اتنی عادت ہوچکی تھی کہ ان کو اب یہ خونی مچھر بھی گھر کے فرد ہی محسوس ہوتے تھے۔

دور لاری اڈے سے بسوں کے بےہنگم ہارن کی آوازیں کبھی کبھار اس سکوت کو منتشر کر رہی تھیں۔ پچھلے صحن میں لگی بیری کے پتے ہلکی ہلکی ہوا کے ساتھ دھیرے دھیرے تالیاں بجاتے محسوس ہو رہے تھے۔

چھوٹے سے واک مین کی ہینڈز فری کانوں میں لگائے، کمر سے نیچے آتے بالوں کو اماں کے لاکھ منع کرنے کے باوجود کھولے  ،“پیرس کے پلوں تلے” سینے سے لگائے وہ سٹور کو جانے والی سیڑھی پر بیٹھی خونی مچھروں سے بے پرواہ چاند کو تکتے ہوئے گویا پیرس ہی پہنچ گئی ہوئی تھی۔ وہ ابھی اس خوبرو شہد رنگ آنکھوں والے ہیرو کی بانہوں میں بانہیں ڈالے “ایفل ٹاور” کے نیچے کھڑے ہو کر چمکتے ستاروں میں اپنا اور اسکا نام ڈھونڈ ہی رہی تھی کہ اماں نےسینے سے لگی کتاب تقریباً چھینتے ہوئے اسکو واپس اسی سیڑھی پر لا پٹخا “اری او کمبخت اسوقت یہاں اس اندھیرے اور گرمی میں بیٹھی کیا کر رہی ہے؟” اماں نے کوستے ہوئے کہا۔ اب اماں کو کیسے بتاتی کہ وہ جہاں تھی وہاں نہ گرمی تھی نہ مچھر وہ تو خشبوؤں کا شہر تھا۔۔۔اماں کے بازو مڑوڑنےپر وہ کسمساتےہوئی بولی “اماں میں چاند دیکھ رہی تھی” اماں نے اسکو ایسے دیکھا جیسے وہ کوئی بدروح ہو۔۔۔ اٹھ یہاں سے کمبخت سویرے دم کرواتی ہوں ۔۔ لاکھ منع کیا ہے یہ بال کھول کے اس منحوس سیڑھی پر مت بیٹھا کر پر  سنتی کہاں ہے ۔اماں نے اسکو نیچے کی راہ دیکھائی ۔

 وہ ایسی ہی تھی جھلی سی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں جن میں ہر وقت حیرانگی اور استعجاب کی کیفیت رہتی تھی۔ کمر سے نیچےآتے سیدھے بال جن کو اماں ہمیشہ تیل کے ڈونگےمیں ڈبو کر کس کے باندھ دیتی تھیں جس سے اسکی آنکھیں مزید بڑی دکھتی تھیں، ایک تخیلاتی ہیرو، اسکی کتابیں کم ناول ، FM100 کا غزل ٹائم،وقت بے وقت  ٹی وی لاؤنج کے صوفے پہ پڑ کر سونااور اس آخری سیڑھی پر بیٹھ کر چاند اور تاروں سے باتیں کرنا  یہی اسکی دنیا تھی ۔ ابا اسکے آئیڈیل اور اماں ہٹلر اور جلاد تھیں جن کو اس سے ذرا سی محبت نہ تھی یہ اسکا ذاتی خیال تھا۔ 

رات کےبارہ بجنے میں کچھ ہی منٹ باقی تھے اس نے ادھر دیکھا کیک کا ایک بڑا سا پیس نکالا اور مین گیٹ کھول کر باہر نکل گئی اور گھر کےسامنے والے گیٹ کی بیل پر ہاتھ رکھ کر بھول گئی بیچارے قیصر بھائی نے ہوائیاں اُڑتے چہرے کی ساتھ دروازہ کھولا “ کیا ہوا ؟ سب خیر ہے ؟ اسوقت اکیلی آپ یہاں ؟ اوہ یہ سب بعد میں بتاتی ہوں جلدی سے صائمہ کو بلا دیں جلدی کر یں اس نے جھنجھلاتے ہوئے کہا اور ہاں میرا مت بتانا بس دروازے تک لے آئیں۔ وہ رات کے اس پہر کسی قیامت کی طرح نازل ہو ئی تھی ہونق شکل اور آدھی سوئی اور جاگتی آنکھوں کے ساتھ تقریباً کھینچتے ہوئےقیصر بھائی نے صائمہ کو آگے کیا، اس نے صائمہ کو دیکھتے ہی جھٹ سے پلیٹ آگے کرتے ہوئے کہا “ہیپی برتھ ٹو می” ہیں۔۔؟  ہاں آج سالگرہ ہے میری بقول اماں “کافروں والی رسم ہے”۔  ابا کیک شام میں لے آئے تو میں کاٹنے سے پہلے ہی نکال لائی کہ صبح تک تو خالی ڈبہ ہی بچنا تھا۔ اس نے بھرپور جوش سے رام کہانی سنائی ہق دق کھڑے قیصر بھائی نے ہڑبڑا کر مبارکباد دی اور صائمہ نے جلدی سے گلے لگا لیا اور کہا “پاگل تم نے تو جان نکال دی تھی میری”۔ اس کے لئے سالگرہ کا تحفہ وہ پرخلوص جملے تھے جو دوست نے ساتھ لگا کر کہے اس سب ہنگامے میں وہ بھول ہی گئی کے اماں خونخوار تیور لئے گیٹ پر استقبال کے لئے موجود ہیں۔وہ جلدی سے پلیٹ تھما کر واپس بھاگی اندر داخل ہوتے ہی اماں نے گیٹ بند کیا اسے اور اس سے لیکر ابا کے خاندان کے آخری مرحوم تک کو وہ کچھ کہا جو ناقابل تحریر ہے۔ یوں اسکی سالگرہ کی شام ہمیشہ کےلئے امر ہوگئی ۔

 میوزک کے عشق میں کچھ دن سے عمران سیریز کے عمران کی روح اس میں وارد ہوگئی تھی اور اسکی نگاہ پیٹی میں بند اس ڈبل کیسٹ والی نیشنل کی ٹیپ پر تھی جس پر مصدقہ اطلاع کیمطابق FM100 کے پورے سگنل آتے تھے اور اماں نے زمانہ قدیم میں جب کبھی ابا طائف ہوتے تھے اسکی پیدائش سے بھی پہلے اسکے جہیز کے نام پر خریدی تھی۔ چونکہ وہ شروع سے خود کو کسی فلسفی سے کم نہیں مانتی تھی سو اسکا ذاتی خیال تھا کہ تب بھی اسکو ہی ملنی ہے تو اب کیوں نہیں ؟ سو پیٹی کا ڈھکن کھولنے کےلئے ایک مددگار درکار تھا اور سب غدار بہن بھائی اس میں مدد سے انکاری۔۔۔ خیر جیسے تیسے اس نے نکال تو لی پر اب اماں کے عتاب سے کون بچائے گا۔ خیر “عشق کیا تو ڈرنا کیا” اس نے ابھی آن کر کی جائزہ لینا شروع ہی کیا اماں کا چھاپہ پڑ گیا ۔۔۔ پھر وہ آگے آگے اور اماں چپل لیکر اسکے پیچھے “اری کمبخت تو بس ذلیل کروانا مجھے “ پر اسے قطعاً نہ اماں کے کوسنوں کی پرواہ تھی اور نہ انکی آہ و زاری کی۔ اسے تو بس یہ دکھ لاحق تھا کہ اب اماں پھر سے اسکو لپیٹ کر پیٹی میں رکھ دیں گی اور شادی سے پہلے تو ناممکن ہے دوبارہ اس کا ملنا۔۔۔

افق کے اس پار غروب ہوتے سورج کی شعاعیں کھڑکی سے اندر آرہی تھیں موبائل پر عصر کی آذان کی آواز گونجی تو اس نے چونک کے دیکھا تو محسوس ہوا کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور ہونٹوں پر مسکراہٹ۔۔۔ اس نے ڈائیری دھیرے سے بند کر دی کہ  وہ جھلی لڑکی عرصہ ہوا گمشدہ ہے ۔۔۔۔