نیا سامراج اور حقیقی آزادی کا خواب

نیا سامراج اور حقیقی آزادی کا خواب
دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیاتی نظام تیزی سے دنیا کے مختلف خطوں سے بظاہر ختم ہوتا چلا گیا لیکن اس کی جگہ ایک نئے عالمی سامراجی نظام نے لے لی۔

اب یہ نیا عالمی سامراجی نظام اپنی تہذیبی وثقافتی یلغار کے ساتھ ساتھ عالمی سیاست اور معیشت پر بھی چھاتا چلا جا رہا ہے۔ نو آبادیاتی نظام میں ہونے والے مظالم آج بھی تاریخ کی کتب میں درج ہیں۔ ان مظالم کو اگر باضابطہ تحریر میں لایا جائے تو شاید ان کے لیے کتب کی کئی جلدیں درکار ہوں۔ نام نہاد برتر تہذیبی و ثقافتی ورثے کے حامل نو آبادیاتی حکمرانوں نے کبھی آزادی کے پروانوں کو توپوں کے دہانے کے آگے باندھ کر اڑایا یا پھر برتر تہذیب کے دعویداروں نے کبھی اپنے ہی پرورش کیے ہوئے فوجی حکمرانوں کو پوری دنیا کے سامنے براہ راست اپنے ہی سامراجی میڈیا کے سامنے پھانسی پر چڑھتا ہوا دکھایا۔

اس نئے سامراج نے اپنے من پسند میڈیا گروپس کے ذریعے سامراج افواج کے مفتوح علاقوں میں داخلے کو حقیقی آزادی کا نام دیا اور سامراجی میڈیا بھی سامراج زندہ باد کے گن گاتا رہا۔ ایڈورڈ سعید نے اپنی کتابCulture & Civilization میں اس سامراجی میڈیا کے کردار کو خلیجی جنگ کے دوران حقیقی طور پر عیاں کیا ہے۔

نئے سامراجی نظام نے محکوم اقوام کا ناصرف سیاسی، سماجی، ثقافتی، بلکہ معاشی استحصال کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ممتاز فلسطینی محقق ایڈورڈ سعید اپنی مشہور زمانہ کتاب Culture & Civilization  میں نو آبادیاتی نظام میں ہونے والے کی مظالم کا ذکر کرتے ہیں۔ دراصل اِصلاح کے نام پر ہی تیسری دنیا میں سامراج نے دراصل کئی اقسام کے استحصال کو جنم دیا اور پھر نام نہاد مہذب دنیا کو اِس سے روشناس بھی کروایا۔

ایڈورڈ سید لکھتے ہیں کہ کس طرح نو آبادیاتی آقاؤں نے اپنی زبان، ثقافت، تہذیب کو محکوم اقوام کے مقابلے میں برتر ثابت کیا۔ نام نہاد مہذب، سامراجی ثقافتی وتہذیبی یلغار سے زیادہ خطرناک عمل سامراج کا تیسری دنیا کا منظم معاشی استحصال ہے۔ پوری صنعتی ترقی نے سامراج کے پنجہ کو ہندوستان اور وسطی افریقہ میں مزید مستحکم کیا۔ اس استحصالی صنعتی ترقی کے لیے خام مال فراہم کرنا بھی محکوم تیسری دنیا کے لیے لازم و ملزوم ہو گیا۔

آج پرانے نو آبادیاتی نظام کا تو خاتمہ ہو چکا ہے لیکن ایک نیا سامراج دراصل نو آبادیاتی نظام کی ہی ایک نئی شکل ہے۔ یہ نیا سامراج ہی دراصل عالمی مالیاتی اور تجارتی اداروں اور مراکز کو کنٹرول کرتا ہے۔ اور یہ نیا سامراج ہی دراصل عالمی مالیات اور تجارت ادارہ اور مراکز کنٹرول کرتا ہے۔ اِس نئے سامراج نے ایک ایسا معاشی نظام ترتیب دیا ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک غریب سے غریب تر ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اور اس معاشی استحصال کے منحوس چکر میں سے نکلنا شاید مسقتبل قریب میں ان ممالک کے لیے مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ معاشی ناہمواریوں کی بدولت ہی نیا سامراج تیسری دنیا کے ممالک کو مزید قرضوں تلے دباتا چلا جا رہا ہے۔ اِس نئے سامراج نے ہی ایران میں ڈاکٹر مصدق کی حکومت کا خاتمہ کر ڈالا اور ایران کے تیل کے ذخائر پر اپنا کنٹرول مزید مستحکم کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ وہی سامراج ہے جس نے مصر میں قوم پرست رہنما جمال عبدالناصر کی نہر سوئز کو قومیانے کے فیصلے پر اِس کے خلاف طبلِ جنگ بجا دیا۔ یہ وہی سامراج ہے جس نے مشرق وسطیٰ میں عربوں کے درمیان ایک نئی استعماریت کی دُم کی پرورش کا فیصلہ کیا جو مشرق وسطیٰ میں پائیدار امن کے لیے ایک ناسور ہے۔

یہ وہی استعمار ہے جو مشرقِ وسطیٰ میں اپنے مفادات کے حصول کے لیے کبھی بادشاہوں کے ہاتھ مستحکم کرتا ہے یا پھر اپنے مفادات کی خاطر فوجی آمروں کی حمایت جاری رکھنے کا فیصلہ کرتا ہے۔ یہ وہی نیا سامراج ہے جو گوئٹے مالا، مشرقی وسطیٰ اور تیسری دُنیا کے ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی کا باعث بھی بن رہا ہے۔

یہ وہی سامراج ہے جس کے خلاف لڑتے لڑتے کئی قوم پرست اور علیحدگی پسند رہنما کبھی پرامن اور کبھی مسلح جہدوجہد کرتے کرتے اَمر ہو گئے۔ یہ نیا سامراج کیوبا میں تو شاید ناکام رہا لیکن لاطینی امریکہ میں مداخلت کاری سے بعض نہ آیا۔ پر وہی نیا سامراج ہے جس کی نظریں ابھی بھی مشرقِ وسطیٰ کے قدرتی ذخائر اور تیل پر جمی ہوتی ہیں۔ پر وہی نیا سامراج ہے جو کسی بھی آزاد اور خود مختار ملک پر کیمیائی و حیاتیاتی ہتھیاروں کی موجودگی کا الزام لگا کر تمام عالمی قوانین کی دھجیاں اُڑاتے ہوئے اُسے پتھر کے زمانے میں پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ وہی نیا سامراج ہے جو دراصل پرانے نو آبادیاتی نظام کی ہی بدلی ہوئی نئی شکل ہے۔

تیسری دنیا کے ممالک کے لیے حقیقی آزادی دراصل غربت افلاس اور بیماری سے چھٹکارا ہی ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک کے لیے حقیقی آزادی کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمہ سے ہی منسوب کی جا سکتی ہے۔ نئے سامراج سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کو منظم، قابل اور محب وطن اور نڈر قیادت کی ضرورت ہے۔ جو تیسری دنیا میں ناصرف سیاسی استحکام بلکہ معاشی استحکام اور اس کے فوائد عام عوام تک پہنچا سکے۔ حقیقی آزادی کے حصول کے لیے تیسری دنیا کے ممالک میں عدل و انصاف اور گڈ گورننس کی ضرورت ہے۔

حقیقی آزادی کے لیے تیسری دنیا کے معاشروں میں پسے ہوئے طبقوں کو بااختیار بنانا ہوگا۔ تیسری دنیا میں حقیقی آزادی کے لیے خواتین، اقلیتوں اور مظلوم طبقوں کے حقوق کے تحفظ کے لئے سیاسی قیادت کو اپنی خاموشی توڑنا ہوگی اور میدان عمل میں آنا ہوگا۔

تیسری دنیا میں حقیقی آزادی کے لیے قانون کی بالادستی پر یقین رکھنا ہوگا۔ تیسری دنیا کے ممالک کو نئے سامراج سے نبرد آزما ہونے کے لئے نسلی مذہبی اور معاشی تفریق کا خاتمہ کرنا ہوگا۔ حقیقی آزادی کے لیے تیسری دنیا میں قومی یکجہتی کا فروغ لازم وملزوم ہے۔ یقیناً حقیقی آزدی کا سفر تیسری دنیا کے لیے ایک کٹھن سفر ہے۔ تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک آج بھی بھاری قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔ ترقی پذیر ممالک کی فی کس آمدن انتہائی کم ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں سالانہ تجارتی خسارہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں افراطِ زر کی شرح بھی بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں بچتوں کی شرح انتہائی کم ہے۔

ترقی پذیر ممالک میں پیداوری لاگت انتہائی زیادہ ہے۔ ترقی پذیر ممالک میں ہنرمند افراد کی بھی کمی ہے۔ ترقی پذیر ممالک کی Imports آج بھی Export  کے مقابلے میں زیادہ ہیں۔

لہذا ان وجوہات کی بنا پر ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک آزاد خارجہ پالیسی تشکیل دنیا بھی ایک خواب سے کم نہیں۔ اِس صورت حال میں حقیقی آزادی کا حصول ایک خوبصورت انتخابی نعرہ تو ہو سکتا ہے لیکن حقیقت سے چشم پوشی کے مترادف بھی ہے۔