اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ ایف آئی اے غیر قانونی سوسائٹیز کے خلاف کارروائیاں کرتی ہے اور خود بھی وہی کام کر رہی ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ میں وزارتوں اور ان کے ماتحت اداروں کے نام پر رئیل اسٹیٹ بزنس کے خلاف کیسز کی سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں ہوئی۔
عدالت نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں وزارتوں اور ان کے ماتحت اداروں کا رئیل اسٹیٹ بزنس کرنا غیرقانونی ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ نے استفسار کیا کہ کیا حکومت کے ماتحت ادارے بالواسطہ یا بلاواسطہ کوئی بزنس کر سکتے ہیں؟ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عدالتی ہدایت کے مطابق اس ہفتے کابینہ کو اس سے متعلق سمری بھجوا دیں گے۔چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ کیا یہ سرکاری ادارے اپنے نام کے ساتھ رئیل اسٹیٹ بزنس کر سکتے ہیں؟
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ یہ مفادات کا ٹکراؤ ہے، ایف آئی اے غیر قانونی سوسائٹیز کے خلاف کارروائیاں کرتی ہے اور خود بھی وہی کام کر رہی ہے، کیا سرکار خود کام نہیں کر سکتی؟انہوں نے کہا کہ کیا ہر چیز اس عدالت کو آپ کو کہنی ہے کہ یہ کریں، عدالت قانون کو دیکھ کر فیصلہ کرے گی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ریاست خود مجرموں کوتحفظ دیتی ہے، یہاں کرمنل اپیلوں میں یہ نظر آرہا ہوتا ہے کہ ریاست خود ان جرائم میں شامل ہے، یہ عدالت آپ کو بتا رہی ہے کہ اس میں بنیادی حقوق کا معاملہ ہے۔ چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ اٹارنی جنرل آئندہ سماعت پرحتمی دلائل دیں، ہم قانون کو دیکھ کر کیس کا فیصلہ کریں گے۔ عدالت نے حتمی دلائل طلب کرتے ہوئے سماعت 17 جنوری تک ملتوی کردی۔