سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے وفاقی و شعبہ جاتی تعلیم نے آج یکساں قومی نصاب میں پاکستان کی جمہوری تاریخ، قومی سطح پر کی گئی ’غلطیوں‘ اور معاشرے کی زبوں حالی کے اسباب شامل کرنے کی سفارش کی ہے۔
بدھ کو پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں اراکین نے متفقہ طور پر یکساں قومی نصاب میں وہ تمام تاریخی حقائق شامل کرنے کی سفارش کی جو اب تک ’مخفی‘ رکھنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔
کمیٹی چئیرمین عرفان الحق صدیقی نے اراکین سے اس سلسلے میں سفارشات طلب کیں، جو بعد ازاں یکساں قومی نصاب تیار کرنے کے ذمہ دار ادارے نیشنل کریکولم کونسل کو ارسال کی جائیں گی۔
قائمہ کمیٹی میں یکستاں قومی نصاب پر بحث کے دوران اراکین نے نئی چھاپی گئی کتابوں میں غلطیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ یکساں قومی نصاب کا ’آئیڈیا کنفیوژن‘ کا شکار ہو رہا ہے۔ اس موقع پر نیشنل کریکولم کونسل کی ڈائریکٹر مریم چغتائی نے چھپی ہوئی کتابوں میں سے غلطیاں دور کرنے کی یقین دہانی کرائی۔
چئیرمین کمیٹی عرفان الحق صدیقی نے اس موقع پر کہا کہ ’بحیثیت پاکستانی ہم سب اپنے آپ اور آنے والی نسلوں کو دھوکا دے رہے ہیں۔‘
پاکستان مسلم لیگ نواز سے تعلق رکھنے والے رکن سینیٹ عرفان الحق صدیقی کا کہنا تھا کہ ’مستقبل کے معماروں سے پاکستان میں جمہوریت کے ساتھ ہونے والے سلوک کو چھپایا جاتا ہے، اور آنے والی نسلوں کو نہیں بتایا جاتا کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی کیا وجوہات تھیں۔‘
’ہم انہیں نہیں بتاتے کہ بنگلہ دیش جو ہمارا ایک چھوٹا سا حصہ تھا آج اتنی ترقی کیوں کر پایا، اور ہم کیوں ہر لحاظ سے پیچھے ہیں۔‘
عرفان الحق صدیقی کا کہنا تھا کہ ’پاکستان میں سب منافقت سے کام لیتے ہوئے خود کو دھوکا دے رہے ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم بچوں کو حساب اور سائنس تو پڑھاتے ہیں لیکن انہیں جمہوریت کی تعریف، فوائد اور حمود الرحمن کمیشن کے متعلق نہیں بتاتے، ان چیزوں کو ہم بڑے آرام سے نصاب میں سے نکال دیتے ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آج کے پاکستانی نوجوان کو بالکل نہیں معلوم کہ جمہوریت کیا ہے اور پاکستان میں جمہوریت کے لیے کس نے کیا قربانی دی ہے۔‘
’ہم اپنی جڑوں سے علیحدہ ہو گئے ہیں اوپر ایک خوبصورت گملا رکھ دیا گیا ہے، ہم بچوں کو نہیں بتاتے کہ آمروں نے اس ملک کے ساتھ کیا کچھ کیا، اس طرح صرف خود کو نہیں بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی دھوکا دے رہے ہیں۔‘
اس موقع پر پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والی سینیٹر ڈاکٹر مہر تاج روغانی نے کہا کہ پاکستان میں منافقت آج نہیں آئی بلکہ یہ پہلے سے موجود ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا میں نیا نصاب کامیابی سے پڑھایا جا رہا ہے اور اس میں کوئی مسائل نہیں ہیں۔
چیئرمین عرفان صدیقی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ’ڈاکٹر صاحبہ میرا مطلب آپ کی حکومت سے نہیں تھا، بلکہ میں یہی کہہ رہا ہوں کہ شروع سے منافقت سے کام لیا گیا ہے۔‘
سینیٹر جام مہتاب حسین دہڑ نے کہا کہ ہم سب اراکین کمیٹی اور سینیٹرز اللہ اور اپنے ضمیر کو جواب دہ ہیں، اور ہمیں تاریخی غلطیوں کی درستی کی یہ کوشش ضرور کرنا چاہیے۔
اس موقع پر چئیرمین کمیٹی نے تمام اراکین سے دریافت کیا کہ کیا یہ چیزیں واحد قومی نصاب میں شامل کی جانی چاہئیں تو سب نے اس کے حق میں ہاتھ اٹھا کر تائید کی۔
قائمہ کمیٹی کے چئیرمین نے اراکین کو اس سلسلے میں اپنی تجاویز دینے کو کہا جو نیشنل کریکولم کونسل کو ارسال کی جائیں گی۔
نیشنل کریکولم کونسل کی ڈائریکٹر مریم چغتائی نے کمیٹی چئیرمین سے استدعا کی کہ انہیں اس کارروائی کے منٹس مہیا کیے جائیں جن کی مدد سے وہ ان سفارشات پر کام کر سکیں گی۔
اس پر چئیرمین اور بعض دوسرے اراکین نے ڈاکٹر مریم چغتائی کو کہا کہ ان کے لیے مسائل بن سکتے ہیں، جس پر نیشنل کریکولم کونسل کی ڈائریکٹر نے کہا: ’تبھی تو میں منٹس مانگ رہی ہوں آپ سے۔‘
اس سے قبل واحد قومی نصاب پر بحث کے دوران فوزیہ ارشد کا کہنا تھا کہ سکول میں مذہبی تعلیم سے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔ ’ہمارے ہاں فقہ الگ الگ ہے جب کہ ہر بچہ گھر میں قرآن اور نماز سیکھتا اور پڑھتا ہے۔‘
جماعت اسلامی کے مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ پرائمری کلاسوں میں صرف قرآن پڑھایا جاتا ہے، جب کہ بڑی جماعتوں میں اس کا ترجمہ اور کوئی فقہی تعلیم نہیں دی جاتی۔