تنخواہوں کی عدم ادائیگی ، تاخیر اور صحافیوں کی مالی مشکلات ایک اور قیمتی ہیرا نگل گئی۔ پبلک نیوز کے سینئر رپورٹر مستنصر عباس انتقال کر گئے۔
مستنصر عباس پبلک نیوز کے سٹاف رپورٹر تھے جو عرصہ 3 سال سے پبلک نیوز کے ساتھ منسلک تھے۔
ان کے قریبی دوستوں کا کہنا ہے کہ ان سے جب بھی رابطہ ہوا پریشان حال ہی نظر آئے، میڈیا ہاوسز کی جانب سے عدم ادائیگی اور تاخیر سے ہمیشہ مشکلات میں گھرے رہے اور مشکلات کا سامنا کرتے کرتے تمام مشکلات سے جان خلاصی کروا کے اللہ کو پیارے ہو گئے۔
پبلک نیوز میں 2018 سے اسائمنٹ ڈیسک پہ کام کرنے والی سمیرا اشرف راجپوت نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ مستنصر عباس کو بہت قریب سے جانتی تھیں ، وہ بہت محنتی اور نڈر صحافی تھے۔ ان کے مطابق وہ پچھلے کئی سالوں سے امراض قلب میں مبتلا تھے لیکن اس کے باوجود میں باقاعدگی سے دفتر آیا کرتے تھے۔
سمیرا راجہپوت کا کہنا تھا کہ پبلک نیوز نے ان کی 11 ماہ کی تنخواہ نہیں دی جبکہ مستنصر عباس سمیت بہت سے رپورٹرز اور سٹاف ممبرز کی 10 ماہ سے زائد کی تنخواہیں زیر التواء ہیں جو ادارے کی جانب سے ادا نہیں کی جارہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مستنصر عباس تنخواہ کی عدم ادائیگی کو لیکر ہمیشہ پریشان رہتے تھے اور اسی پریشانی میں کہا کرتے تھے کہ پتہ نہیں تنخواہوں کا معاملہ حل ہوگا بھی یا نہیں۔
انکا مزید کہنا تھا کہ دفتر کے بہت سے رپورٹرز تنخواہ نہ ملنے کے باعث رپورٹنگ کرنے نہیں جاتے تھے مگر وہ ہر جگہ جاتے اور کہا کرتے کہ ان کی محنت اور کام کی وجہ سے شاید ادارے کو شرم آجائے اور وہ ان کو تنخواہ دے دیں۔
مستنصر عباس کے دیگر دوستوں کا کہنا تھا کہ ان کودوران ملازمت دو دفعہ دل کا دورہ پڑا اور کل جب ان کی وفات ہوئی وہ تب بھی اپنی صحافتی ذمہ داریاں پوری کر رہے تھے۔ تاہم کسی بھی مرحلے میں ادارے نے ان کی مالی معاونت نہ کی البتہ ادارے نے ان سمیت بہت سے ملازمین کی کئی ماہ کی تنخواہیں روک رکھی ہیں۔
میڈیا سے تعلق رکھنے والے تمام رپورٹرز نے مطالبہ کیا ہے کہ پبلک نیوز کی جانب سے مستنصر عباس کے خاندان کی مالی معاونت کی جائے اور ان سمیت تمام ملازمین کی تنخواہوں کی رکی ہوئی تنخواہوں کی ادائگی کی جائے۔ مستنصر عباس کی وفات کے بعد ٹوئٹر پر JusticeForMustansar کے نام سے ٹرینڈ چلایا جارہا ہے۔