Get Alerts

ماؤں کا عالمی دن؛ مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں

یوں تو ہر دن ماں کا ہوتا ہے، پھر بھی عالمی سطح پر ماؤں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال ماہ مئی کے دوسرے اتوار کو ماؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے صرف تقاریب منعقد کرنے سے بہتر ہے کہ عملی طور پر ماؤں کے حقوق اور اپنے فرائض ادا کیے جائیں۔

ماؤں کا عالمی دن؛ مائیں تو سب کی سانجھی ہوتی ہیں

یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت پر پیدا کیا (التین 4)۔

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات بنا کر اس دنیا میں بھیجا۔ انسان کے اشرف ہونے کا ایک اہم راز اس کے دیکھنے اور سننے کی صلاحیتوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دی، اچھے برے کے درمیان تمیز کرنے کی وہ قوت و صلاحیت دی جو کسی دوسری مخلوق کو حاصل نہیں۔ اسی عقل و شعور پر انسان کو مختلف بنایا کہ وہ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے من مانی کی زندگی نہ گزارے بلکہ اپنے معبود حقیقی کو پہچان کر اس کی عبادت کرے، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرے۔

اس دنیا میں سب کی الگ پہچان بنائی۔ ہر روپ، رنگ، نسل، ذات، قبیلے اور رشتے کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف بنایا۔ اور پھر اسی پہچان کو نام دینے کیلئے کئی رشتے بنائے، جن میں سب سے افضل رشتہ والدین کا ہے جن کی بدولت نا صرف ہم اس دنیا میں آتے ہیں بلکہ اس دنیا میں جینے کے طور طریقے بھی سیکھتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بچے کی پہلی درسگاہ اس کی ماں کی گود ہوتی ہے۔ ماں ایک ایسی ہستی ہے کہ اس پر اگر کچھ لکھا جائے تو سمندر کو کوزے میں بند کرنے کے برابر ہو گا۔

ماں! ایک ایسا رشتہ، ایک ایسا احساس، سکون، خوشی اور جنت کا نام ہے جو اللہ نے اس کے روپ میں ہمیں دنیا میں عطا کر دی ہے۔ ایک عورت وہ چاہے کسی کی بیٹی، بہن، بہو یا ساس کچھ بھی ہے وہ کسی نا کسی کی ماں بھی ہے۔ ناجانے کیوں ہم یہ بات بھول جاتے ہیں اور بس یاد رہتی ہے تو صرف اپنی ماں۔ ارے بھئی مائیں تو سب کی ایک سی ہوتی ہیں کیونکہ ماں تو ماں ہوتی ہے۔ جو اپنا سکھ، خوشی، دکھ، تکلیف، پریشانی، بیماری یہاں تک کہ اپنی پوری زندگی تک اپنی اولاد کیلئے قربان کر دیتی ہے۔ وہ تو اپنی اولاد میں کبھی فرق تک نہیں کرتی، سب رشتے اور ذمہ داریاں بخوبی نبھاتی ہے تو پھر ہم کیوں اس میں فرق لے آتے ہیں۔

یوں تو ہر دن ماں کا ہوتا ہے، اس کے بغیر گھر گھر نہیں قبرستان بن جاتا ہے، پھر بھی عالمی سطح پر ماؤں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے ہر سال ماہ مئی کے دوسرے اتوار کو ماؤں کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کی مناسبت سے تقاریب کرنے اور خبریں بنانے سے بہتر ہے کہ عملی طور پر ان کے حقوق اور اپنے فرائض کو ادا کیا جائے۔ انہیں معاشرے میں وہ عزت اور مقام دیا جائے جس کی وہ حقدار ہیں۔ لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم نے دنیا میں ملی اپنی اس جنت کو اپنے ہاتھوں سے روند رکھا ہے۔ گھر گھر کی کہانی ہے اولاد جب جوان ہو جاتی ہے تو وہ اپنی زندگیوں میں ایسے مگن ہو جاتے ہیں کہ اپنے آشیانے بساتے بساتے ماں کی آغوش ویران کر جاتے ہیں۔ اپنے سب فرائض اور ذمہ داریاں بھول جاتے ہیں۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

ماں کی اصل خوشی اس کی اولاد کی خوشی میں ہی ہوتی ہے، لیکن کیا کبھی اولاد نے اپنی ماں کی خوشی کے بارے میں سوچا؟ کہ ہمیں پال پوس کر جوان کر دیا، ہماری خاطر ناجانے اپنی کتنی خوشیاں قربان کر دیں اب وقت ہے انہیں ان کی دی گئی قربانیوں کا ثمر دیا جائے۔ ایک ماں اپنے جگر کا ٹکڑا تک ہنستے کھیلتے دوسرے کے حوالے کر دیتی ہے، چاہے وہ بیٹی ہو یا بیٹا ہو۔ اصل امتحان تو تب شروع ہوتا ہے جب ہم کسی نئے بندھن میں بندھ کر نئے رشتوں کے ساتھ زندگی کے نئے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ تب ان سب رشتوں میں توازن برقرار رکھنے کا جو فرض آپ کو ادا کرنا پڑتا ہے اس میں ہماری کل آبادی کا 80 فیصد حصہ ناکام ہو جاتا ہے۔

بیاہ کر گھر بیٹی لائی جاتی ہے لیکن وہ بہو بن کر آپ کی ماں کو اپنی ماں تسلیم نہیں کرتی اور ایسے ہی بیٹے بھی اپنی ساس کو ماں کہتے ضرور ہیں لیکن اپنی ماں جیسا درجہ نہیں دیتے اور روایتی داماد بن جاتے ہیں۔ ہمیں اس روایت اور اس سوچ کو بدلنے کی ضرورت ہے۔

اسی طرح جب ایک بیٹی ماں بنتی ہے تو اس کا خاص خیال رکھا جاتا ہے، سارے ناز نخرے اٹھائے جاتے ہیں اور جب بہو ماں بنتی ہے تو اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ کون سا کوئی انوکھا کارنامہ سرانجام دے رہی ہے۔ یہاں بھی ہم ماں کے رشتے میں اس کے ساتھ زیادتی کر جاتے ہیں۔ جبکہ دونوں ہیں تو ماں ہی نا، پھر چاہے بیٹی ہو یا بہو۔

پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے کہ دو ماؤں کے درمیان اپنی اپنی اولاد کو لے کر ان کی زندگی، ان کے مستقبل اور ان کی خوشیوں کی جنگ ہوتی ہے، جہاں جیت کسی کی بھی ہو لیکن ہارتی ماں کی مامتا ہی ہے۔ ایک ماں جو اپنے جگر کے ٹکڑے کو اپنے خون پسینے سے پروان چڑھاتی ہے ایک دن اپنے ہاتھوں سے اس کی زندگی کے نئے سفر کا آغاز کرتی ہے، اسے کسی اور کو سونپ دیتی ہے۔ پھر جب ان کی اولاد ہوتی ہے تو ان کیلئے وہی گھر وہی آغوش جہاں وہ پروان چڑھا وہ چھوٹا پڑ جاتا ہے اور وہ اپنی اولاد کے لیے وہ گھر چھوڑ کر اپنی ماں اور اس سے جڑے باقی رشتوں سے دور کہیں اور جا بستے ہیں۔ پھر ایک ماں تو جیت جاتی ہے لیکن وہ بزرگ ماں اور اس کی مامتا ہار جاتی ہے جسے زندگی کے اس حصے میں اپنی اولاد کی ضرورت ہوتی ہے لیکن بدقسمتی سے وہ اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور کچھ تو ایسے بدبخت بھی ہوتے ہیں جو اپنی ماؤں کو اولڈ ایج ہوم جیسی جگہوں پر چھوڑ آتے ہیں۔ وہ ماں جو ہر وقت اپنے لاڈلوں کو اپنی نظروں کے سامنے دیکھا کرتی تھی پھر اس کی ایک جھلک کے انتظار میں دن، مہینے اور کچھ تو کئی کئی سال گزار دیتی ہیں اور کچھ کی سانسیں اس انتظار کے ساتھ ہی دم توڑ جاتی ہیں۔ ایسے لوگ پھر دنیا اور آخرت دونوں میں ںاصرف رسوا ہوتے ہیں بلکہ دونوں جہانوں کی جنتوں سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔

ماں باپ کا خیال رکھنا صرف بیٹوں کا ہی فرض نہیں اس لیے کہ اسے وراثت میں حصہ زیادہ ملںا ہوتا ہے، اتنے ہی ماں باپ بیٹیوں کے بھی ہوتے ہیں۔ جن کے بیٹے نہیں ہوتے ان کی بیٹیاں ہی ان کے بیٹے بنتی ہیں۔ لیکن بیٹوں کے ہوتے ہوئے بیٹیوں کا بیٹے بننا، یہ احساس بھی ماں باپ کو کاٹ کھاتا ہے۔ اپنی اولاد کی ذمہ داریوں میں اپنے ماں باپ کے فرائض مت بھول جائیں۔ جتنا ہو سکے ان کا احساس کریں، ان کی خدمت کریں۔ وہ بھی اسی پیار، خیال، احساس، توجہ، اہمیت اور محبتوں کے حقدار ہیں جو اپنی ساری زندگی میں آپ پر نچھاور کرتے آئے ہیں۔ دنیا میں ملی اس جنت کی قدر کریں۔ ایک بار یہ چھن جائے پھر کبھی دوبارہ نہیں ملتی۔

اللہ پاک سب کی ماؤں کو سلامت رکھے، صحت و تندرستی والی لمبی عمر عطا فرمائے اور جن کی اس دنیا سے رخصت ہو گئی ہیں انہیں جنت میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے، آمین۔

مصنفہ سینیئر صحافی ہیں اور ملک کے متعدد ٹی وی چینلز پر کام کر چکی ہیں۔ انٹرنیٹ پر ان کے مختلف ویب سائٹس پر مضامین شائع ہوتے رہتے ہیں۔