سب سے پہلے تو آپ سب کو آداب عرض ہے۔ زمانہ ہوا تحریر کے ذریعے گفتگو کیے۔ یہ موئی فکر معاش ایسی لت ہے جو جونک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔ صبح سات بجے گھر سے نکلنے اور شام سات بجے گھر گھسنے کے بعد کہاں ہمت رہ جاتی ہے کہ کاغذ اور قلم کو تکیں۔ خیر قصہ مختصر، میں خیریت سے ہوں اور آپ کی خیریت نیک مطلوب ہے۔
آج بھی بات عجلت میں ہی ہو گی کہ مارے تھکاوٹ کے آنکھیں موندی جا رہی ہیں۔ لیکن مدعا ہی ایسا تھا کہ اس کو لکھ کر ذہن سے نکالنا ضروری تھا ورنہ پوری رات دماغ میں کرلاتا رہتا، نیند کو قریب نہ پھٹکنے دیتا۔ جی جناب، آج بات ہو گی پاکستان کے عظیم الشان خاندانی نظام کی جو اب دن بدن زوال کا شکار ہے۔ اگر ہم بھی سرکاری جماعت کے پیروکاروں کی طرح صرف ان کے قائد جناب عمران خان صاحب کی سنیں تو اس زبوں حالی کا ذمہ دار مغربی کلچر ہے۔
یہی نہیں، پاکستان کی جامعات کو بھی اس بات پر تحقیق کرنے کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ مغرب کی اس یلغار پر ریسرچ کی جائے۔ آفٹر آل، پاکستان کی یونیورسٹیوں میں تو یوں بھی تحقیقی سہولیات اپنے عروج پر ہیں۔
ظاہری بات ہے پاکستان میں اور کوئی مسئلے مسائل تو ہیں نہیں۔ مہنگائی کی طرف سے مکمل اطمینان ہے کیونکہ فی کس آمدن اب امریکی ڈالر کے حساب سے مقرر ہو چکی ہے۔ پوری دنیا سے ماہرین پاکستان میں نوکریاں لینے کے لیے امڈے آ رہے ہیں۔ عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کی جان و مال کی بھرپور حفاظت کی جارہی ہے۔ سب بچے اسکولوں میں جا رہے ہیں۔ ہمارا تعلیمی نظام دنیا کے بہترین دماغ پیدا کر رہا ہے۔ کرونا کی آڑ میں کسی بھی قسم کی مالی بے قاعدگی نہیں ہوئی۔ یہی تو ہے وہ ریاست مدینہ جس کا وعدہ قائد اعظم ثانی جناب عمران خان نے کیا تھا۔
دیکھیے، فلسفہ اور سوشل سائنس کی بات تب کی جاتی ہے جب انسان کی بنیادی ضروریات پوری ہو چکی ہوں۔ ایسا کوئی مسئلہ پاکستان میں نہیں ہے لہذٰا ہم اپنے بلند و بالا خاندانی نظام کے گرد فصیلیں لگانے پر زور دیں گے۔
جی، بالکل وہی خاندانی نظام جس کی بنیاد ہی جبر پر ہے۔ جہاں ہر رشتہ کسی مجبوری کی وجہ سے قائم ہو۔ جہاں بچے ماں باپ کی زندگی میں اپنی مرضی سے شادی تو کیا، پروفیشن تک نہ چن سکتے ہوں۔ جہاں گھر میں بہوئیں اس لیے لائی جائیں کہ وہ گھر کا سب کام سنبھالیں، اپنے میکے کو مکمل فراموش کر دیں، اور اپنی تمام زندگی قربانی اور ایثار کی مورتیں بن کر گزاریں۔ جہاں اولاد اس لیے پیدا کی جائے کہ تمام عمر اس پر پالنے کا احسان جتایا جائے۔ جہاں والدین کا بڑھاپا بوجھ سمجھا جائے۔ جہاں عورتوں کو یا تو جیتے جی مار دیا جائے یا چولہا پھاڑ کر۔ جہاں بیٹیوں پر خاندان کی فرسودہ روایات اور نام نہاد عزت کا پہاڑ کھڑا کر دیا جائے۔ جہاں کسی فرد کو انسان نہیں بلکہ نظام کا پہیہ سمجھا جائے۔ جہاں شخصی آزادی اور سوچ بدتمیزی اور بے حیائی ہو۔ جہاں سانس لینے کے بھی آداب ہوں۔ جہاں تمام زندگی لوگوں کی خوشنودی میں گزار دی جائے۔
ظاہری بات ہے کہ مغرب کو تو ایسے تاباں نظام سے خوف ہو گا۔ وہاں پر روز کابینہ بیٹھتی ہو گی کہ پاکستان نامی ایک ملک کا خاندانی نظام جو وہاں کی ترقی کا ضامن ہے اسے کیسے برباد کیا جائے۔ خان صاحب کا کہنا سر آنکھوں پر کیونکہ مغرب کو تو ان سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ ہمارے ہاں ایسے کئی بوڑھے لوگ ہیں جنہوں نے رنگین زندگی گزارنے کے بعد چہرے پر نہیں تو پیٹ میں داڑھی اگا لی۔ جن کی نظر ہمسائے میں رہنے والے بھوکے بچوں پر نہیں لیکن عورت کے وجود سے پیدا ہونے والے فسادات پر ضرور رہتی ہے۔ خان صاحب نے بھی غالباً مغرب کو اچھی طرح سے دیکھنے پرکھنے کے بعد اپنی زندگی کا حاصل یہی نکالا ہے۔ اس معاشرے کو اسی تجزیے کی ضرورت تھی۔ بھوکے پیٹ اور ہر وقت خوف کا کیا ہے۔ سکوں تو صرف قبر میں ہے۔
مجھے یاد نہیں کہ کس نے کہا تھا لیکن خوب کہا تھا کہ خان صاحب کو خود سے ہی سب سے بڑا خطرہ ہے۔ اسی میں یہ اضافہ کرتی چلوں کہ ہمارے خاندانی نظام کو بھی خود سے ہی خطرہ ہے۔ جس عمارت کہ بنیادیں گل گئی ہوں اسے بلڈوزر سے زمین بوس کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جہاں کی فضا میں گھٹن ہو وہاں گلا گھونٹ کر مارنے کی کوئی وجہ نہیں۔ جہاں انسانوں کی آواز دبانا اخلاقی معیار ہو وہ معاشرہ کب تک قائم رہ سکتا ہے۔ جناب یہ خاندانی نظام اپنا ہی 'شریکا' ہے۔ یہ مغرب کس کھیت کی مولی ہے۔ اس کی کیا مجال ہمارا کچھ بھی بگاڑ سکے۔
ہم اپنی بربادی میں خودکفیل ہیں، بابا۔