وہ وقت دور نہیں جب مارگلہ کی وادیوں کے دامن میں واقع دارالحکومت سے کلمہ طیبہ اور درود و سلام کی صدائیں گونجیں گی۔ کیا منظر ہو گا، سفید لباس و پگڑی میں عوامی سمندر ریاست مدینہ کے حکمران کو گھر بھیجنے کی نیت سے آئے گا۔ اس عظیم الشان مارچ کی قیادت مفتی محمود کے فرزند پاکستانی سیاست کو سمجھنے والے زیرک سیاست دان مولانا فضل الرحمن کر رہے ہوں گے۔
آزادی مارچ کو حکمران وقت کے لیے مکافات عمل کہیں یا وقت کی تبدیلی کا اشارہ اس کا فیصلہ تاریخ پر چھوڑ دیتے ہیں۔
مولانا صاحب جو کہ 'یہودی سازش' کا شکار ہو گئے اور ایک لمبے عرصے کے بعد اقتدار کے ایوانوں سے دور ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت نااہل، ناکام اور سلیکشن کی پیداوار ہے اور اس کو گھر بھیجنے کا وقت آن پہنچا ہے۔
لیکن مولانا صاحب کیسے؟ ایک سال لگ گیا اپوزیشن کو راضی کرنے میں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں خاندانی سیاست میں جکڑی ہوئی ہیں، فیصلہ کی قوت سے عاری ہیں، دل سے مولانا کے ساتھ مگر دماغ سے سوچ میں مبتلا ہیں۔ اگر مارچ ناکام ہو گیا تو پھر سختی زیادہ نہ ہو جائے، کیونکہ ابھی پتہ نہیں پنڈی والے کس کے ساتھ ہیں۔ اگرچہ موسم نے کروٹ لی ہے، پنڈی میں ابھی گرمی ہے۔
کوٹ لکھپت کے قیدی اپنے بھائی کے توسط سے پیغام رسانی میں مصروف ہیں اور پارٹی کو اشارہ دے چکے کہ "اب آزادی مارچ مولانا کے سنگ" جبکہ مفاہمت کے بادشاہ بھی کہہ چکے ہیں "مولانا زندہ باد" مگر مذہبی کارڈ کے استعمال سے انکاری ہیں جو کہ مولانا کا ہتھیار ہے۔
ریاست مدینہ والے سکون میں ہیں۔ کوئی ڈر خوف نہیں۔ حال ہی میں وزیر داخلہ نے کہا کہ "کوئی مائی کا لعل حکومت گرا نہیں سکتا"۔ اس سے اعتماد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ لیکن مولانا کی تخلیقی صلاحیتوں کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ لوگ کہتے ہیں وہ اپنے پتے سوچ سمجھ کر کھیلتے ہیں۔ شاید کوئی اشارہ ملا ہو ان کو، کل ہی آزادی مارچ کی تاریخ تبدیل کی ہے۔ یہ کیا ڈھیل ہے یا حکمت عملی؟
خیر ان سب میں نمایاں بات یہ ہے کہ "اسلام آباد" پھر سے آباد ہونے کو ہے۔ جگہ جگہ رکاوٹیں، پولیس اور سکیورٹی فورسز کی بھرمار، وہی منظر ہو گا جو 2014 کے دھرنے میں تھا یا پھر دیکھنے کو کچھ اور ملے گا؟ ڈی چوک ایک بستی کی شکل میں تبدیل ہو جائے گا۔ اس وقت لوگوں کی انٹرٹیمنٹ کا سہارا میوزک تھا، مگر ریاست مدینہ میں ایسا ممکن نہیں۔
مولانا صاحب، لوگ انتظار میں ہیں۔ ابھی تو بس ایک دفعہ تاریخ تبدیل کی ہے لیکن ابھی بہت وقت ہے۔ معلوم پڑے آپ کا ہی ارادہ بدل جائے۔