گرانے کی باتیں جانے دو

گرانے کی باتیں جانے دو
پاکستان کی سیاسی اور حکمرانوں کی تاریخ مجموعی طور پر کج رویوں سے عبارت ہے۔ حکومت بنتے ہی گرانے کی باتیں شروع کر دی جاتی ہیں۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ سیاسی جماعتوں کو عوام کے مسائل اور ملک کی ترقی اور استحکام سے کوئی واسطہ نہیں ہے، محض اقتدار سے غرض ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے کہ سیاست کے نام پرکھلواڑ جاری رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں بار بار مارشل لا لگتے رہے ہیں۔

ملک ترقی کی بجائے تنزلی کی طرف بڑھتا رہا ہے۔ ملکی صورتحال آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ کاروبار مملکت چلانے کیلئے ایک ایک پائی مانگنا پڑ رہی ہے۔ اس کے باوجود سیاستدان ایک دوسرے کو گرانے پر کمربستہ ہیں۔

ماضی سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ عمران خان حکومت کو بنے ابھی سال بھی نہیں ہوا۔ فضل الرحمان تو پہلے دن سے ہی حکومت گرانے نکل پڑے تھے۔ پیپلز پارٹی نے بھی نعرہ لگا دیا ہے۔



اپوزیشن کا کام کیا حکومت گرانا ہی ہوتا ہے؟ دنیا کے جمہوری ممالک میں کیا اپوزیشن حکومت گرانے پر ہی کمربستہ رہتی ہے؟ ہمسایہ ملک بھارت میں بھی کیا جو پارٹی اقتدار میں نہیں ہوتی وہ حکومت کے خلاف شازشوں میں مصروف رہتی ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔

مہذب اور حقیقی سیاستدان اپوزیشن میں رہتے ہوئے ملکی اور عوامی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ حکومت پر انتخابی وعدے پورے کرنے کیلئے دباؤ بڑھاتے ہیں۔ اگر حکومت عوامی مفاد میں کام نہ کر رہی ہو تو اپوزیشن پارلیمان میں ملکی ترقی اور عوام مسائل کے حل کے بل لے کر آتے ہیں اور پاس کراتے ہیں۔ مگر اقتدار کے بچاری سیاستدان صرف ذاتی مفاد کی جنگ کرتے ہیں۔



عمران خان حکومت جس طرح مشکلات کا شکار ہے، اپوزیشن کو ملکی اور عوامی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کا ساتھ دینے کی اشد ضرورت ہے۔ بصورت دیگر اپوزیشن کا حکومت کے خلاف احتجاج ملک کیلئے سود مند ثابت ہوگا اور نہ ہی کوئی عوام کو فائدہ پہنچے گا بلکہ حالات مزید خراب ہوں گے۔ جس طرح اسلامی صداراتی نظام کے بارے میں باتیں ہو رہی ہیں، یہ باتیں عملی شکل اختیار کر سکتی ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو اس موقع پر حکمت سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ اگر سیاسی جماعتوں نے اپنی سابقہ روش برقرار رکھی تو عین ممکن ہے جمہوریت کی بساط الٹ دی جائے۔



اس وقت جہوریت کا دفاع کیا جائے۔ موقع پرستوں کو کوئی موقع نہ دیا جائے۔ وہ یہ نہ کہہ سکیں کہ سیاستدان ملک اور جمہوریت چلانے کی اہلیت نہیں رکھتے ہیں۔ اس امر سے کوئی انکار نہیں ہے کہ سیاستدان اس وقت سیاسی بصیرت کا مظاہرہ نہیں کر رہے۔ دانستہ یا نادانستہ اپنے سیاسی عمل سے اس بات کو تقویت دے رہے ہیں کہ ملک میں قیادت کا بحران ہے۔ کوئی بھی سیاستدان اس قابل نہیں ہے جس کے پاس ملکی مسائل حال کرنے کی صلاحیت ہو۔

آصف زرداری، بلاول، فضل الرحمان اور لیگی قیادت کو چھوٹی جماعتوں سے مل کر قومی ایجنڈا تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے تشکیل کردہ ایجنڈا پارلیمان میں پیش کیا جائے اور عملدآمد کیلئے حکومت کو مجبور کریں۔

ایک صحت مند اور ملکی ترقی کی بحث کا آغاز یوں ہی ہوگا۔ ملکی سیاسی فضا میں انتہا پسندی اور غیرجمہوری آلودگی ختم ہوگی۔ اسلامی صداراتی نظام سے بھی اسی طور بچا جا سکتا ہے کہ سیاسی عمل کو فروغ دیا جائے اور سیاسی حکمت عملی سے کام لیا جائے۔ اگر حکومت گرانے کے لئے سٹرکوں کا رخ کیا گیا تو پھر جمہوریت ڈی ریل ہوگی اور صداراتی نظام کی راہ ہموار ہوگی۔



باخبر سیاسی کارکن اس امر سے بخوبی آگاہ ہیں کہ غیرجمہوری عناصر جمہوری روایات اور جمہوری نظام سے خائف ہیں۔ ادھار کھائے بیٹھے ہیں کہ جمہوریت کی بساط لپیٹی جائے۔ اب یہ جمہوری لوگوں کا فرض ہے کہ وہ جمہوریت کا تحفظ کریں اور کوئی موقع ایسا نہ دیں جس سے جمہوریت کے خلاف آواز پیدا ہو۔ اس لئے جمہوریت کی بقا اور استحکام کی خاطر گرانے کی باتیں جانے دو۔ جمہوریت کو پنپنے دو۔

مصنف ایک لکھاری اور صحافی ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی حقوق کے کارکن بھی ہیں۔