آزادی کا سفر؛ کیا ہم آج بھی آزاد ہیں؟

آزادی کا سفر؛ کیا ہم آج بھی آزاد ہیں؟
برصغیر پر برطانوی راج کے بعد مسلمان خصوصاً انگریزوں کی بربریت کا شکار ہوئے۔ جنگ آزادی میں اگر چہ ہندو اور مسلمانوں نے مل کر انگریز راج کی مخالفت کرتے ہوئے جنگی مہموں میں بھر پور حصہ لیا۔ لیکن ہندو انگریزوں کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ ہم تو بے قصور ہیں۔ ہندوؤں کے لئے کوئی مسئلہ نہیں تھا کہ وہ انگریزوں کی سر پرستی میں رہیں یا پھر مسلمانوں کی۔ محکوم تو محکوم ہوتا ہے۔ نتیجہ برٹش گورنمنٹ کا سارا نزلہ مسلمانوں پر گرا۔ وہ اس قدر بے بس کر دیے گئے وہاں سے تاریخ کا ایک سیاہ باب رقم ہوا۔ مسلمانوں کی جائیدادیں ضبط کر لی گئیں۔ ان سے زمینیں چھین لی گئیں۔ انھیں سرکاری نوکریوں اور ہر قسم کی آسائشات سے محروم کر دیا گیا۔ ہندو انگریزوں کی شہہ پا کر مسلمانوں پہ علیحدہ ستم ڈھانے لگے۔ 1967 میں ہندی اردو تنازعہ نے ہندوؤں کی سوچ مسلمانوں پر واضح کر دی کہ یہ اب کبھی بھی مسلمانوں کو چین سے نہیں رہنے دیں گے۔ کیونکہ ہندوؤں کو پہلی بار مجموعی طور پر کچھ اجارہ داری قائم کرنے کا موقع ملا تھا۔ اور یہ قاعدہ ہے کہ جو قوم دبی ہوئی ہو اسے اگر اختیار مل جائے تو وہ وحشت کے نئے باب رقم کرتی ہے۔ اسرائیل اس بات کی واضح مثال ہے۔ بیسویں صدی میں ہندوؤں کے عزائم کھل کر سامنے آنا شروع ہو گئے۔ اب برملا مسلمانوں کو وندے ماترم پڑھنے پر مجبور کیا جانے لگا۔ اسی صدی میں اک اور تحریک جسے "شدھی تحریک" کا نام دیا گیا وہ بھی زور پکڑنے لگی۔ جس کے تحت منظم طریقے سے مسلمان ہونے والے ہندوؤں کو دوبارہ ہندو بنایا جانے لگا۔ دیا نند سرسوتی کی "آریہ سماج" تحریک نے واضح کہہ دیا کہ ہندوستان صرف ہندؤوں کا ہے اور مسلمانوں کے لئے کوئی جگہ نہیں۔ یہ وہ پر تشدد تنظیم ہے جس پر "آر ایس ایس کا نظریہ" مسلمانوں کے خلاف اس وقت پورے ہندوستان پر عذاب بن کر چھایا ہوا ہے۔

یہ وہ عوامل تھے جن کے تحت بر صغیر کے مسلمانوں پر واضح ہو گیا کہ وہ اور ہندو دو الگ الگ قومیں ہیں اور ہندو مسلم بھائی بھائی کے نعرے محض دکھاوا ہیں۔اصل مقصد صرف مسلمانوں کو ایک مکمل اقلیت بنا کر نئے بننے والے ہندو نظام جمہوریت کے نیچے دبانا تھا۔اسی سوچ نے اکابرین مسلم کے ساتھ ساتھ عام لوگوں کو بھی یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ کیسے اس مسئلے سے جان چھڑائی جائے۔

خطبہ الہٰ باد 1930ء جس میں پہلی بار صحیح معنوں میں دو قومی نظریے کی حمایت کی گئی۔ اس خطبے کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی۔ انھوں نے واضح طور پر مسلم اکثریتی علاقوں کے لئے ایک نئی مملکت کے قیام کی تجویز دی۔ اس خطبے کی رو سے مسلمان ایک الگ سماجی اور سیاسی نظریہ رکھتے ہیں۔ ان کے لئے علیحدہ مملکت کا قیام ناگزیر ہے۔ لیکن مسلمانوں کی آپسی رنجشوں نے حالات پیچیدہ کر دیے۔ جس کی وجہ سے جناح جیسی عظیم ہستی کو لندن واپس جانا پڑا۔ یہ اقبال کا ہی اعجاز تھا کہ وہ قائد اعظم کو ہندوستان واپس لانے میں کامیاب ہوئے اور مسلم لیگ کی باگ دوڑ سنبھالنے کو کہا۔ وطن واپسی کے بعد قائد اعظم نے 22 دسمبر 1939 کو پوری قوم کے اعتماد کا ووٹ لیکر انھیں اپنی رہبری میں شامل کیا۔

22 مارچ تا 24 مارچ 1940 کو ہونے والے مسلم لیگ کے سالانہ اجتماع پر مسلم ریاست کے قیام کی پر زور حمایت میں قرار داد پیش کی گئی۔ اس جلسے کی صدارت قائد اعظم نے کی۔ جس میں انھوں نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان اس وقت معرض وجود میں آگیا تھا جب پہلا ہندو مسلمان ہوا۔ مسلم اور ہندو الگ مذہبی حیثیت رکھتے ہیں۔ انکی روایات، رسومات ایک دوسرے سے از حد جدا ہیں۔ ایک قوم جسے اپنا راہنما سمجھتی ہو وہ دوسری قوم کے لئے دشمن ہو سکتا ہے۔ مسلمان اقلیت ہیں اور ہر قسم کا علیحدہ نظام حیات رکھتے ہیں جبکہ ہندو اکثریت، ایسے میں انکا ایک ساتھ رہنا مسلمانوں کے لئے مسائل کا موجب ہو گا۔ ہر قسم کے اختلاف رکھنے والی ان دو قوموں کا جدا ہو جانا ہی واحد حل ہے۔

قائد اعظم اور انکی ٹیم کی مخلص کاوشوں سے تمام تر مخالفتوں کے باوجود قیام پاکستان کا حصول ممکن ہوا اور یوں 14 اگست 1947 کو پاکستان بن گیا۔ لارڈ ماؤنٹ بیٹن چاہتا تھا کہ وہ دو نوزائیدہ مملکتوں کا مشترکہ گورنر جنرل بنے۔ کانگرس اسے پہلے ہی گورنر شپ دینے کا عہد کر چکی تھی۔ لیکن قائد اعظم نے اسے کہا کہ اگر دو ملکوں کے درمیان جنگ ہو تو وہ کسے کہے گا کہ دفاع کریں اور کسے کہے گا کہ وہ حملہ کریں۔ وہ اس بات سے چڑ گیا اور اس نے قائد اعظم کو دھمکی دی کہ وہ ایسا کٹا پھٹا پاکستان بنائے گا جو چند سالوں سے زیادہ زندہ نہیں رہ سکے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اس نے اپنے اس عہد کی پوری ایمانداری سے پاسداری کی۔ لیکن یہ قائد اعظم کی انتھک محنت اور سیاسی بصیرت تھی کہ انھوں نے اس نوزائیدہ مملکت کی اپنی ڈوبتی صحت کے باوجود اپنے لہو سے آبیاری کی اور اسے ایک مظبوط مملکت بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

14 اگست 1947 سے آج جب کہ میں یہ سطور رقم کر رہا ہوں یعنی 14 اگست 2021 تک کیا ہم نے کوئی بھی ایسی مثال قائم کی ہے جو اس ملک کو بنانے والے ہمارے بزرگوں کی دی گئی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کر سکے؟ یہ ملک جو لیلتہ القدر کی عظیم الشان رات کو ہم نے حاصل کیا تھا کیا اس کی سر بلندی کے لئے ہم نے بحیثیت قوم کسی ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے؟ یہ سوال محض سوال نہیں بلکہ ہمارے لئے لمحہء فکریہ ہے کہ ہم نے محض زمین کا ٹکڑا حاصل کرنے کے لئے اتنی جدو جہد کی۔ پاکستان کی پیدائش سے لے کر آج تک ہم نے خود کو پاکستانی نہیں کہا۔ ہم یا تو بلوچ ہیں یا سندھی پختون ہیں یا پھر پنجابی۔ بانیء پاکستان نے واضح کہا تھا کہ یہ ملک "پاکستان" پاکستانیوں کے لئے ہے۔ "ہمیں سندھی، بلوچی، پشتون اور پنجابی کے جھگڑے میں نہیں پڑنا بلکہ ایک قوم ہو کر اس ملک کی تعمیر میں اپنا کلیدی کردار ادا کرنا ہے"۔

پاکستان صرف مسلمانوں کے لئے گوشئہ رحمت نہیں بلکہ یہاں بسنے والی ہر اقلیت کے لئے ایک دلکش باغ ہے۔ اس کے لئے قائد اعظم کا یہ فرمان دل کی سیاہی سے لکھنے لائق ہے کہ "آپ آزاد ہیں۔ اپنے مسجدوں میں جانے کے لئے، اپنے مندروں میں جانے کے لئے۔ اپنے گرجا گھروں میں آزادانہ عبادت کرنے کے لئے۔ آپ اب صرف پاکستانی ہیں اور سب پاکستانی اپنے اپنے عقائد کے تحت یہاں زندگی بسر کرنے کے لئے آزاد ہیں"۔ یہ فرمان دکھ کی بات ہے آج تک ہمارے نصاب کا حصہ نہیں بن سکا۔

2004 میں جنرل مشرف جیسی روشن خیال ہستی بھی اس فرمان کو نصاب کا حصہ نہیں بنا سکی۔ یہ فرمان اقلیتوں کو ایک احساس تفاخر سے دو چار کرتا ہے۔ انھیں احساس دلاتا ہے کہ وہ یہاں اقلیت نہیں بلکہ پاکستانی ہیں جن کے مال و جان اور عبادت گاہوں کی محافظ ایک فلاحی ریاست ہے۔ علما جو دین کی سمجھ زیادہ رکھتے ہیں وہ عوامی اجتماع سے بات کرتے وقت کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلام واحد مذہب ہے جو اقلیتوں کے حقوق کا پوری طرح سے ضامن ہے۔ مندر جلا کر گرجاؤں کو پامال کر کے اسلام کی خدمت اگر ہو سکتی تو مظلوم کے حق میں آواز اٹھانے کے لئے اسلام کبھی نہ کہتا۔ حکومت کو چاہئے کہ قائد کے مذکورہ بیان کو نصاب کا حصہ بنائے تاکہ اقلیتیں خود کو محفوظ تصور کر سکیں۔ ہمیں مجموعی طور پر ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کا احترام کرنا چاہئے تاکہ وطن عزیز کی ترقی و خوشحالی میں سب مل کر اپنا حصہ ڈال سکیں۔ آزدی کا جو سفر ہم نے ننگے پاؤں طے کیا تھا ان پاک قدموں کی لاج رکھتے ہوئے اس ملک کو عظیم ملک بنائیں تاکہ ہمارے بزرگوں کی روحیں بروز قیامت ہمارے گریبان نہ پکڑیں۔ بلکہ ہم سر خرو ہو کر انکی بیقرار آنکھوں کے لئے باعث تسکین ہوں۔

 

مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔