میں آئین ہوں، میں وہی ہوں جو آپ کے حقوق کا ضامن ہے۔ آپ کی سامنے ہر جگہ میرا تعارف الگ طور پر سامنے آتا ہے۔ میرا ایک تعارف وہ ہے جو قانونی ٹھیکیدار کرتے ہیں، ایک تعارف وہ بھی ہے جو مذہب کے بیوپاری بغلیں بجا کر کرتے رہتے ہیں۔ میرا تعارف وہاں سے بھی آپ کے سامنے آتا ہے جہاں میری پاسداری کی قسم کھا کر پھر ہر طرح سے پامالی کرنے کا تہیہ کر لیا جاتا ہے۔ ایک میرا تعارف پارلیمان سے بھی آتا ہے جہاں اپنے فائدے کے مطابق مجھے ڈھالا جاتا ہے اور خلاف ورزیاں بھی دھڑلے سے کی جاتی ہیں۔
چلو میری کہانی شروع سے شروع کرتے ہیں۔ کہتے ہیں آج جس خدوخال کے کرہ ارض پر ہم وجود رکھتے ہیں، اس کو اس شکل میں آنے کے لئے کئی تبدیلیوں، مراحل اور ایک طویل عرصے تک پیچدہ عمل سے گزرنا پڑا، تب جا کر آج کی موجودہ شکل تک پہنچا۔
یہ بات ہے تیرہویں صدی کے اوائل کی، جب انگلستان پر بادشاہ جان کی حکمرانی تھی۔ بادشاہ جان (کنگ جان) کا شمار تاریخ کے بدترین بادشاہوں میں ہوتا ہے۔ یہ وہی کنگ جان ہیں جو اپنی بیوی کو قید میں رکھنے، مخالفین کو بھوکا مارنے (مبینہ طور پر)، اپنے بھتیجے کو قتل کرنے اور سرداروں کی داڑھیاں کھینچنے کی وجہ سے مشہور/ بدنام تھے۔ کنگ جان نے بیرونی جنگوں کے اخراجات پورے کرنے کے لئے امرا و خواص پر بھاری ٹیکس نافد کئے۔ ٹیکس دینے سے انکار کرنے پر انہیں سخت سزائیں دی جاتیں یا جائیدادیں ضبط کر لی جاتیں۔ امرا مطالبہ کرنے لگے کہ کنگ جان قانون کی پاسداری کرے۔ جب بادشاہ نے اپنے طور طریقے نہیں بدلے تو بالآخر باغی جاگیرداروں نے لندن پر قبضہ کر لیا اور کنگ جان کو مذاکرات پر مجبور کر دیا۔
دونوں اطراف کے لوگ جون 1215 میں دریائے تھامس کے کنارے رنیمیڈ (Runnymede) کے مقام پر ملے۔ مذاکرات کے نتیجے میں طے کردہ نقاط کو کنگ جان کے کلرکوں نے ایک دستاویز کی صورت میں تحریر کیا۔ 63 شقوں اور 3500 الفاظ پر مشتمل لاطینی زبان میں لکھی گئی اس دستاویز کو ہم آج میگنا کارٹا کے نام سے جانتے ہیں۔
بادشاہ چونکہ پڑھا لکھا نہیں تھا تو یہ دستاویز تحریر کرنے کے بعد بادشاہ کو پڑھ کر سنائی گئی۔ بادشاہ دستاویز میں شامل شقوں سے متفق اور مطمئن ہرگز نہ تھا کیونکہ ان سے اس کی حکمرانی محدود ہو رہی تھی۔ لیکن چونکہ بادشاہ کے سر پر موت کی تلوار لٹک رہی تھی تو بحالت مجبوری انہیں اس دستاویز پر شاہی مہر ثبت کرنی پڑی۔ چارٹر کی اکثر شقیں قرون وسطیٰ کے عہد کے حقوق اور روایات سے متعلق تھیں۔ اس کے باوجود میگنا کارٹا دنیا بھر میں آزادی کی ایک طاقتور علامت کے طور پر ابھرا۔
اس چارٹر میں پہلی بار عدل اور منصفانہ سماعت کا حق تسلیم کیا گیا جو آج بھی دنیا کے قوانین کا حصہ ہے۔ یہی میگنا کارٹا ہے جس کا اثر تقریباً ہر ملک کے باضابطہ آئین میں ملتا ہے۔ اسی میگنا کارٹا کو جمہوریت کے قانون اور نظام کی سب سے پہلی شکل اور رہنما کی حیثیت حاصل ہے۔ پوری دنیا تقریباً آٹھ سو سال بعد آج بھی اسی دستور اور نظام سے رہنمائی حاصل کر رہی ہے۔ اسی میگنا کارٹا کو اگر دنیا کا پہلا تحریری آئین کہا جائے تو بھی شاید کوئی مبالغہ آرائی نہ ہو گی۔ یہی آئین بعدازاں دنیا میں آزادی کی علامت اور طاقتور کو گھٹنے ٹیکنے اور آئین و قانون کے تابع لانے کا ذریعہ بنا۔
اب آتے ہیں اس میگنا کارٹا کے 732 سال بعد کے دور میں جب برصغیر میگنا کارٹا کی زمین کے باشندوں کے تسلط سے چھٹکارا پانے میں کامیاب ہو چکا تھا۔ یہ بات ہے 1947 کی جب متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت دو الگ الگ ملکوں کی حیثیت میں دنیا کے نقشے پر ابھرے۔ بھارت نے تو سیاست دانوں کے کندھے پر اپنا آئین تقسیم کے بعد محض دو سے تین سالوں میں دے دیا اور انڈین ایکٹ 1935 سے جان چھڑا لی جبکہ پاکستان سردست منجدھاروں سے سرگرداں رہا۔
ملک کا پہلا آئین وجود میں آنے کے تقریباً 9 سال کے بعد بن پایا۔ ستم یہ کہ بڑی مشکلوں سے بنا ملک کا پہلا آئین حیات خضر نہ پا سکا اور اپنی پیدائش کے محض دو ہی سالوں کے بعد کالعدم قرار دے دیا گیا۔ اس کے بعد ملک کو بزور چھڑی چلانے کے لئے باضابطہ چھوڑ دیا گیا جس سے آج تک ملک جان نہیں چھڑا پایا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ملک کا دوسرا آئین ایک آئین شکن کی تمکنت کے زیر اثر بنا جس کی حیات 1962 سے 1969 تک رہی۔ ملک کا تیسرا آئین جو آج نہایت کسمپرسی کی حالت میں تادم حیات ہے وہ بھی ملک کے دو لخت ہونے کے بعد آزادی کے تقریباً 26 سال بعد بنا۔ مزید براں یہ کہ اس آئین کا اجراء اسی شخص کے ہاتھوں ہوا جس نے آمرانہ صلاحیتوں سے اپنا لوہا منوایا تھا۔
آج اس آئین کو بنے ہوئے 50 سال کا عرصہ ہو چکا ہے۔ ملکی آئین کی پچاس سال کی تاریخ دراصل ملک میں آئین کی پامالی اور عصمت دری کی تاریخ ہے۔ اس وقت کے مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور صدر ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کے دو لخت ہونے کے بعد قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ مایوس نہ ہوں، ہم بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو سمیٹیں گے۔ ہم نیا پاکستان بنائیں گے۔ یوں نیا پاکستان بننے کی اصطلاح وجود میں آئی اور پھر ملک کے بے بس عوام نے نئے پاکستان کی تابناکیاں ملاحظہ فرمائیں۔
یہ تھی میری کہانی۔ دراصل یہ میرے دکھوں کی ایک داستان ہے۔ اس ملک میں میری حکمرانی شاید ایک خواب تھا اور ایک خواب بن کر ہی رہے گا جو شاید ایک لاحاصل حقیقت کا روپ دھار چکا ہے۔ ملک میں دراصل آئین کی نہیں بلکہ زر اور زور کی حکمرانی ہے۔ دراصل آئین اس ملک میں اس خوبصورت دوشیزہ کی طرح ہے جو جسمانی طور پر تو میسر ہے لیکن اس کی روحانی اساس حاصل نہیں۔