چند روز قبل میں اپنے کزن کے ساتھ کریانہ دکان میں بیٹھا تھا۔ ہم سب آپس میں گپ شپ لگا رہے تھے، میرا ایک چھوٹا کزن جو تھوڑا زیادہ باتونی ہے وہ ہر وقت اور ہر چیز میں مبالغہ سے کام لیتا ہے۔ میں نے اپنا موبائل فون آن کیا تو میرے موبائل فون کے مینیو میں " آئین پاکستان" کے نام سے ایک ایپ موجود تھی، تو اس باتونی کزن نے مجھ سے کہا؟ کاشف یہ گرین رنگ والی ایپ کس چیز کی ہے؟ تو میں نے کہا خود دیکھ لو کیا لکھا اس پر۔ تو کہنے لگا " آئین پاکستان"۔ پھر مجھ سے پوچھا کہ یہ آئین کیا چیز ہوتا ہے؟ تو میں نے کہا یہ آئین کوئی چیز نہیں ہوتا ہے بلکہ سادہ الفاظ میں آئین پاکستان کو ہم پاکستان کا قانون کہتے ہیں۔
لفظ قانون میرے کزن کو سمجھ آ گیا، لیکن وہ زیادہ بولنے کی عادت سے مجبور مزید بولتا رہا اور پوچھنے لگا کہ یہ قانون کیا ہوتا ہے؟ تو میں نے کہا تھانے میں کہیں گئے ہو؟ تو وہ کہنے لگا نہیں۔ میں نے کہا تھانے میں جاؤ، وہاں یہ قانون کی کتاب پڑھائی جاتی ہے۔ میرا ایک دوسرا کزن اس موقع پر بولا اور کہا آپ اتنا زیادہ مت سیکھو، ورنہ آپ کا دماغ خراب ہو جائے گا۔ صرف یہ سیکھو کہ آئین، قانون ہوتا ہے، یہ آپ کے لئے کافی ہے۔
بعد میں، میں نے سوچا کہ کیا اتنا اس کے لئے واقعی کافی ہے یا اس کو اور بھی قانون کے بارے میں سیکھنا چاہیے۔ تاکہ، کل کوئی قانون کے خلاف کام نہ کرے۔
قانون بولتا ہے اور اکثر اوقات قانون بالکل خاموش ہو جاتا ہے۔ میں نے اس کی خاموشی پر بہت زیادہ سوچا لیکن میں کسی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکا، آخر میں صرف اس نتیجہ پر پہنچ سکا کہ قانون خاموش نہیں ہو سکتا بلکہ قانون کی بولتی کو خاموش کیا جاتا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو قانون کو خاموش کرا لیتے ہیں؟ کتابیں پڑھ لو، اخباروں کو پڑھ لو، پھر بھی کچھ پتہ نہیں چلے گا کہ آخر یہ کون لوگ ہیں۔ اس پراسرار خاموشی کے پیچھے چھپے کرداروں کی تلاش میں تاریخ کی کتابیں، اخباروں کو پڑھا اور لوگوں سے رہنمائی حاصل کرنا شروع کی۔
حال ہی میں خصوصی عدالت نے ایک سابق صدر کو سزائے موت سنائی تھی۔ چند ہی دنوں بعد تفصیلی فیصلہ آیا جس میں پیراگراف نمبر 66 میں لکھا تھا کہ مجرم کو ہر جرم میں علیحدہ علیحدہ سزائے موت دی جائے اور اگر مجرم سزا سے پہلے فوت ہو جائے تو لاش کو اسلام آباد کے ڈی چوک لایا جا اور تین دن تک لٹکایا جائے۔
یہ ڈی چوک والی بات میرے خیال سے اس لئے لکھی گئی تاکہ آئندہ کوئی پاکستان کے آئین کو مذاق نا سمجھ لے۔ لیکن، لاہور ہائیکورٹ کے مختصر فیصلے نے ثابت کیا کہ قانون بولتا ہے مگر خاموش بھی ہو جاتا ہے۔