میاں محمد بخش کہتے ہیں 'دشمن مرے تے خوشی نہ کریئے، سجناں وی مرجانا' یعنی اگر دشمن کی موت ہو جائے تو خوشی نہ منائیں کیونکہ اپنوں کو بھی موت آنی ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کو خصوصی عدالت سے دی گئی موت کی سزا سے کسی کو خوش نہیں ہونا چاہیے لیکن قانون کا اپنا راستہ ہے اور عدالت کے کسی فیصلے سے خواہ کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو ماننا تو پڑتا ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پھانسی کا فیصلہ ہو یا پھر نواز شریف کے خلاف پانامہ کیس میں دیا گیا فیصلہ، قانونی ماہرین کے نزدیک یہ فیصلے انتہائی متنازع تھے پھر بھی مانے گئے۔
عدالت کے فیصلے سے اختلاف پر پریس کانفرنس کرنا اور دھمکی آمیز زبان استعمال کرنا یا فیصلہ دینے والے جج کی تضحیک کرنا بھی میری نا قص رائے میں توہین عدالت ہے۔
عدالت کے فیصلے پر اعتراض بھی عدالت کے ذریعے ہی دور کیا جا سکتا ہے لیکن بد قسمتی سے ہمارے یہاں رواج پڑ گیا ہے کہ کوئی بھی اپنے خلاف فیصلے کو تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ میں ذاتی طور پر اس میں عدالت کو بھی بری الذمہ نہیں سمجھتا کیوں کہ ہماری عدلیہ نے بے شمار ایسے فیصلے دیئے جو متنازع قرار پائے۔
https://www.youtube.com/watch?v=SteUBZjEHCo
اب مسئلہ یہ ہے کہ اسکا حل کیا ہے۔ اس کا ایک سادہ سا حل چودھری شجاعت کی زبان میں ماضی پر 'مٹی پاؤ' ہے۔ کہیں نہ کہیں سے تو آگے بڑھنا ہے۔ متعدد بار یہ گزارش کی کہ مل بیٹھ کر اپنی اپنی حدود کا تعین کر لیں اور آگے بڑھیں۔
ہم ہر بات میں رائی کا پہاڑ بنانے کے ماہر ہیں۔ ساری دنیا میں مدت ملازمت ختم ہونے پر آرمی چیف کی تبدیلی ایک معمول کا عمل ہے لیکن ہمارے ہاں ہر تین سال بعد ہیجان برپا کر دیا جاتا ہے۔ ابھی دو تین دن قبل ہی بھارت کا آرمی چیف تبدیل ہوا ہے لیکن وہاں کوئی ہیجان برپا نہیں ہوا۔
اگر ملکی سرحدوں پر حالات تشویشناک ہیں تو دونوں جانب ہیں لیکن توسیع صرف ہمیں چاہِئے۔
اس بات سے شاید ہی کوئی انکار کرے کہ ماضی میں ہمارا ہر آرمی چیف حکومت پر دباؤ ڈال کر مدت ملازمت میں توسیع لیتا رہا ہے۔ بحث تو اس بات پر بھی ہو سکتی ہے کہ اگر حالات خراب ہوں یا جنگ کا خطرہ ہو تو کیا صرف ہماری پیدل فوج ہی لڑے گی کیونکہ ہم نے آج تک کبھی ہوائی یا بحری فوج کے سالار کو توسیع لیتے نہیں دیکھا۔
عدالت عظمیٰ نے اگر آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا معاملہ قومی اسمبلی کو بھجوا دیا تو اس کی تحسین کی جانی چاہیے تھی کہ عدالت نے قومی اسمبلی کی توقیر کی لیکن ہم نے اس پر بھی خوش ہونے کے بجائے ایک طوفان کھڑا کر دیا۔
https://www.youtube.com/watch?v=10Af0YDQyIM&t=1s
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعہ ہو گی یا آئین پاکستان میں تبدیلی کرنا ہوگی، یہ فیصلہ حکومت کو کرنا ہے۔ اس مسئلے پر حکومت سے تعاون کیا جائے یا نہیں یہ فیصلہ حزب اختلاف کی جماعتیں ہی کرینگی لیکن میری ناقص رائے میں حزب اختلاف خاص طور پر مسلم لیگ (ن) کو اس معاملے پر حکومت سے تعاون نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ پارٹی کے قائد کے فلسفے 'ووٹ کو عزت دو' کے خلاف ہے۔
میاں نوز شریف نے آج تک کسی آرمی چیف کو مدت ملازمت میں توسیع نہیں دی لحاضا اگر پارٹی اس مسئلے پر حکومت سے تعاون کرتی ہے تو وہ قائد کے فلسفہ کے خلاف ووٹ شمار کیا جائیگا۔