Get Alerts

شیخ ایاز - برصغیر کا ایک عظیم شاعر

شیخ ایاز - برصغیر کا ایک عظیم شاعر
شیخ ایاز برصغیر پاکستان و ہندوستان میں ان چند شاعروں میں سے ایک تھے جن کو ان کے پڑھنے والوں نے یا لوگوں نے ان کی زندگی میں ہی بڑی پذیرائی دی۔ انہیں ایک نہ دوسرے دور میں ان کے اپنوں نے اگر کندھوں پر اٹھا لیا تو دوسرے دور میں انہیں انہی لوگوں نے غدار کہا۔ دشمنوں اور حکومتوں نے تو انہیں باغی اور غدار ٹھہرایا ہی لیکن اپنوں نے بھی کوئی کمی نہیں چھوڑی۔

یہ ملک میں ان چند شاعروں میں سے تھے جنہیں فوجی آمروں نے ان کے لکھے ہوئے لفظ یا شعروں پر (فیض احمد فیض بھی اپنی شاعری لکھنے پر جیل نہیں گئے) بڑی مدت تک جیلوں میں ڈالے رکھا۔ ان پر کفر کے فتوے بھی لگائے گئے۔ وہ واجب القتل بھی ٹھہرائے گئے۔ اہل ایمان ہونے کا دعویٰ کرنے والوں نے انہیں ملحد کہا اور ملحدوں نے ان کے الحاد کو خیرباد کہنے پر ان پر تنقیدوں کے تیر برسائے۔

لیکن ان کے دوست چاہے دشمن، اپنے اور پرائے اکثر اس بات پر متفق رہے کہ وہ اپنے دور کا سب سے عظیم شاعر تھا اور ہر دور کا عظیم شاعر رہے گا۔ بلا شرکت غیرے اسے سندھ کا قومی شاعر مانا جاتا ہے۔ 'سندھ کی آواز شیخ ایاز' 1960 اور 70 کی دہائی کا مقبول نعرہ تھا۔

سندھی زبان کے اس بڑے شاعر کو اپنی شاعری میں زبان کے استعمال کی معراج کے ہر حوالے سے لطیف ثانی یا شاہ عبداللطیف بھٹائی دوئم کہا جاتا ہے۔ شیخ مبارک علی کے نام سے 2 مارچ 1923 کو شکارپور میں پیدا ہونے والا شاعر شیخ ایاز 28 اپریل 1997 کو اس جہان رنگ و بو سے کوچ کر گیا لیکن شاہ بھٹائی کے ہی قریب بھٹ شاہ میں دفنایا گیا۔ جیسے شیخ ایاز نے خود اپنے اور شاہ لطیف کے بارے میں کہا تھا:

کچھ شاہ نے دی کچھ شیخ نے دی
بس سندھڑی کو صورت لوگو

ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ ایاز کو tactician fighter کے نام سے یاد کیا تھا اور کہا تھا دنیا میں یہ پہلی مثال ہے کہ وہ اپنی شاعری کے ذریعے سماجی انقلاب برپا کرنا چاہتا ہے۔

سندھی زبان کے سب سے بڑے اس شاعر شیخ ایاز کے والد شیخ غلام حسین شعر و ادب کے مطالعے کے بڑے رسیا اور روزگار کے لئے مقامی مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش تھے جنہوں نے ایک ہندو عورت سے شادی کی تھی جس خاتون نے شادی کے وقت اپنا مذہب تبدیل کر لیا تھا یا ان سے کروا لیا گیا تھا۔ اس پر تنازع بھی ہوا تھا۔ شیخ غلام حسین اپنے زمانے میں ہندوستان میں نکلنے والے سندھی اردو کے تمام ادبی و سیاسی جرائد، کتابیں اور اخبارات گھر لایا کرتے تھے جن میں مولانا ابوالکلام آزاد کا 'الہلال' و دیگر جرائد بھی ہوا کرتے تھے۔ اس بچے مبارک علی نے اپنے والد کی ساری کتابیں و جرائد پڑھ لیے ہوئے تھے اور دس گیارہ سال کی عمر تک اقبال کی بانگ درا، بال جبریل، میر و غالب کے دیوان تک اسے زبانی یاد تھے۔ شیخ ایاز کے والد شیخ غلام حسین بدتمیزی پر اپنے باس مجسٹریٹ کے سر پر فوٹ سکیل یا رولر مار کر فرار ہو گئے تھے اور پھر کئی برس شکارپور سے غائب رہ کر ہندوستان کی سیر کرتے رہے۔ جب واپس گھر لوٹے تو اپنے ساتھ کئی کتابیں بھی لے آئے تھے۔

شکارپور شہر جسے سندھ کا پیرس کہا جاتا تھا جنوبی ایشیا کا صدر دروازہ یا گیٹ وے اور سمرقند و بخارا کے بعد تیسرا بڑا کاروباری مرکز تھا۔ جہاں کے ہندو تاجر دنیا بھر میں اپنی بیوپاری کوٹھیاں رکھتے تھے اور ہنڈی کے کاروبار اور اس میں دیانت کی وجہ سے ملکوں ملکوں مشہور تھے۔ جہاں زار کے وقتوں کا روسی روبل سکہ بھی رائج الوقت کی طرح چلا کرتا۔ ہندو بیوپاری تمام دنیا سے روپیہ پیسہ کما کر شکارپور میں اور خاص کر تعمیرات پر خرچ کرتے۔ شہر میں باغات، پانی و نکاسی کا نظام اور اپنے بجلی گھر تھے۔ جہاں کاروباری زندگی کے ساتھ ساتھ انتہائی سرگرم ثقافتی اور ادبی زندگی بھی تھی۔ اسی شہر شکارپور نے شیخ یاز کو شیخ ایاز بنایا تھا۔ ایاز سے کئی برس قبل یہاں شاعر چین رائے سامی ہو کر گزرا ہے جو کلاسیکل سندھی شاعری کی سہ مورتی میں سے ایک مورتی مانا جاتا ہے۔ یعنی شاہ، سچل اور سامی۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی، سچل سرمست اور چین رائے سامی۔ کہتے ہیں کہ اس شہر میں گرونانک نے بھی قیام کیا تھا اور یہاں سندھ کا پہلا سکھ ٹھکانہ یا گردوارہ قائم ہوا تھا۔

شکارپور، جس کے مندروں اور گردواروں میں بھگتیاں اور کیرتن، باغوں میں موسیقی کے ہنڈولے، درگاہوں پر میلے، لائبریریوں اور درسگاہوں اور جمانی ہال نامی ٹائون ہال میں مشاعرے ہوا کرتے تھے۔ شیخ مبارک علی کی ابتدائی تعلیم 'نیو ایرا' سکول اور گورنمنٹ ہائی سکول شکارپور میں ہوئی جہاں ان کے استاد کھیئل داس فانی کو انہوں نے شاعری میں بھی اپنا استاد بنایا۔ شیخ ایاز کی پہلی نظم 'مرد خدا' کے عنوان سے بچوں کے جریدے 'سدرشن' میں پندرہ سال کی عمر میں 1938 میں چھپی جو شکارپور سے بہاری لال چھابڑیا نے جاری کیا تھا۔ شکارپور کے پڑوسی شہر چک سے شائع ہونے والے ادبی جریدے 'سندھو' میں بھی ان کی شاعری اسی عمر میں شائع ہوئی تھی۔ وہ ان دنوں علامہ اقبال کی شاعری سے کافی متاثر تھے۔

گورنمنٹ ہائی سکول سے میٹرک کے بعد انہوں نے سی اینڈ ایس کالج شکارپور میں داخلہ لیا جہاں ان سے ایک سال سینیئر رام جیٹھ ملانی بھی پڑھتا تھا جو بعد میں ہندوستان میں مشہور قانون دان، سیاستدان اور وزیر قانون بھی بنا تھا۔ رام جیٹھ ملانی اور شیخ ایاز دونوں کالج کی ڈبیٹنگ سوسائٹی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ کبھی وہ مباحثے کے موضوع کے حق اور کبھی رام جیٹھ ملانی موضوع کی مخالفت میں مباحثہ سمیٹا کرتے تھے۔ ایک دفعہ ان دونوں نے اس تقریری موضوع میں حصہ لیا تھا 'اگر میں ایک دن کیلے ہندوستان کا وزیراعظم ہوتا'۔ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں انہوں نے کہا تھا اگر مجھے بھارت میں پاکستان کا سفیر بنا کر بھیجا جائے تو میں مسئلہ کشمیر حل کروا سکتا ہوں کیونکہ اس وقت انڈیا کے نائب صدارت کے انتخابات لڑنے والا رام جیٹھ ملانی میرا بچپن کا دوست ہے۔

اب شکارپور کی ہوائیں بھی بدل رہی تھیں۔ چنبیلی کی خوشبو جیسے صبح اور رات کی رانی کی خوشبو جیسی کسی شاموں میں اب فرقہ واریت کی فضا گھلنے لگی تھی۔ شیخ ایاز کے اپنے محلے کے اور رشتہ دار شیخ واجد علی وکیل سینکڑوں رضاکاروں کی قیادت کرتے پا پیدل چالیس میل کے فاصلے پر سکھر شہر میں 'مسجد منزل گاہ' پر ہندو مسلم دنگوں میں حصہ لینے پہنچے تھے۔ اگر شیخ واجد علی کی سربراہی میں رضاکاروں کے یہ جتھے مسجد منزل گاہ نہ پہنچے ہوتے کم از کم سندھ نے پاکستان بنانے میں پہل نہ کی ہوتی۔ شیخ ایاز تو اپنے شیخ محلے شکارپور کی بھائی بندوں کے ساتھ ان رضاکار جتھوں میں شامل نہیں تھے لیکن یہ جوان ہوتا ہوا کسرتی بدن والا تیراک نوجوان شیخ مبارک اپنے محلے کے ان مسٹنڈوں میں ضرور شامل تھا جو ہندوؤں کے بند خالی گھروں کے دروازوں کے بند تالوں پر گیلا تولیہ رکھ کر ہتھوڑا مارتے تھے اور اس کسرتی نوجوان کو کمروں کے روشندانوں سے اندر بھیجتے تھے۔ یہ بات شیخ ایاز نے مجھے خود بتائی تھی اور پھر اس نے مجھ سے بڑے تاسف سے کہا تھا 'مکافات عمل' بھی کوئی چیز ہے۔ جب تقسیم سے کئی سال بعد اس کے سکھر میں پرانے خالی گھر میں ایم کیو ایم کے شرپسند جتھے کودے تھے اور جب ان کے گھر کی بجلی کٹی ہوئی تھی تو ان ایم کیو ایمی شرپسندوں نے شیخ آیاز کی کتابوں کو الماریوں سے نکال کر ان کو جلا کر روشنی کر کے ایاز کا گھر لوٹا تھا۔

شیخ ایاز 1945 میں سی اینڈ ایس کالج شکارپور سے انٹر میڈیٹ پاس کر کے مزید پڑھنے کو کراچی پہنچے تو ڈی جے کالج میں داخلہ لیا جہاں ان کے ایک استاد شاہ عبداللطیف بھٹائی کے شارح، شاہ جو رسالو کے ایڈیٹر اور فارسی کے ماہر سکالر ڈاکٹر ہوتچند مولچند چند گربخشانی تھے جو ان دنوں علامہ اقبال پر ایک تحقیقی مقالہ لکھ رہے تھے۔ شیخ ایاز یہاں کالج کے ادبی مجلے کے ایڈیٹر بھی بنے اور سندھی ادبی مجلس میں بھی حصہ لینے لگے تھے۔ بی اے میں داخلہ لیںے پر شیخ ایاز کو شوق ہوا کہ وہ بھی علامہ اقبال پر ڈاکٹریٹ کریں۔ لیکن علامہ اقبال کی شاعری سے انتہائی متاثر شیخ ایاز کی سوچ و خیالات میں تبدیلی تب آئی جب ان کی ملاقات دو لوگوں حشو کیولرامانی اور ایک پنجابی کامریڈ مونس سے ہوئی۔ دراصل مونس اور حشو کا نہ فقط ان کے ذہن بلکہ زندگی پر بھی بڑا اثر رہا۔ یہاں تک کہ ایاز نے اپنے بڑے بیٹے کا نام بھی اپنے اسی پنجابی کامریڈ دوست مونس کے نام پر رکھا۔ مونس ایاز جو خود بھی شاعر اور لکھاری ہیں۔

ایاز کا کراچی ان دنوں انقلابی تحاریک اور انقلابی لوگوں کا گڑھ تھا۔ نوجوان حشو کیولرامانی برطانیہ سے پڑھ کر واپس چھٹیوں پر آیا ہوا تھا۔ لندن میں حشو کیولرامانی کرشنا مینن کی قائم کردہ انڈین لیگ کا سرگرم رکن تھا جہاں اس کی ملاقات اندرا گاندھی سے بھی ہوئی تھی تو جواہر لال نہرو سے بھی مل چکا تھا۔ حشو چھٹیوں پر کراچی آیا تو دوسرا مہا یدھ چھڑ چکا تھا اور حشو اب کراچی میں طلبہ تحریک کو منظم کرنے لگا۔ سوبھو گیانچندانی سے مل کر انہی دنوں انڈین نیوی کی بغاوت کے حق میں کراچی میں مزدوروں کا بہت بڑا جلسہ ہوا تھا۔ بھگت سنگھ اور ساتھیوں کو سزا ہو چکی تھی۔ لیکن جب گاندھی سندھ کے دورے پر آئے تو کراچی کے سٹی سٹیشن پر ان کے خلاف اور بھگت سنگھ کے اور اس کے ساتھیوں کے حق میں نوجوانوں نے اسے سیاہ جھنڈیاں لہرا کر دکھائی تھیں۔ مزدوروں اور طلبہ کے انگزیز مخالف جلوس پر لاٹھی چارج پر شیخ ایاز نے اپنا مشہور افسانہ 'سفید وحشی' لکھا۔

نیز غیر منقسم یا برٹش انڈیا میں فرقہ واریت پر اس نے اپنی مشہور معرکتہ آلارا نظم 'او باغی او راج دروہی بھارت میں بلووں کے بانی' لکھی تھی جس پر بعد میں شاید پابندی لگی تھی۔ لیکن وہ نظم آج بھی جنوبی ایشیا خاص طور برصغیر میں فرقہ واریت پر پوری صادق آتی ہے۔

انہی دنوں میں شیخ ایاز، حشو کیولرامانی اور سوبھو گیانچندانی کا ہمعصر لیکن ان سے الگ تھلگ ایک اور کردار پرچوودیارتھی بھی تھا۔ وہ سندھ کو انگریزوں سے آزاد دیکھنا چاہتا تھا لیکن اس نے سیاست بذریعہ بندوق شروع کی ہوئی تھی۔ وہ کراچی سینٹرل جیل سے فرار ہو کر بھارت جا پہنچا جہاں وہ مہاراشٹر اسمبلی میں ایم ایل اے بھی بنا۔ کراچی میں اس کی بندوقباز سیاست سے اختلاف کرنے پر اس نے اپنا پستول سوبھو گیانچندانی پر سیدھا کیا تھا۔

شیخ ایاز نے 1945 میں اپنی قانون کے تعلیم مکمل کی۔ یہ دن تھے جب میٹھا رام ہاسٹل نوجوانوں کی سرگرمیوں کا مرکز ہوا کرتا تھا اور یہیں پر سوبھو گیانچندانی (جنہوں نے 1936 میں بھممڑی میں ہونے والی انجمن ترقی پسند مصنفین کی تاسیسی کانفرنس میں بھی شرکت کی تھی تو 1986 میں کراچی میں اس کی گولڈن جوبلی کانفرنس میں بھی)، گوبند مالہی، کیرت بابانی، پوہو مل، جمال ابڑو، محمد ابراہیم جویو، نورالدین سرکی، ایاز قادری نے سندھی ادبی سنگت کی بنیاد رکھی تھی۔

لیکن تقسیم کے فسادات پھوٹ پڑے اور کئی سندھی ہندو ادیب اے۔ جے۔اُتم، گوبند پنجابی، بہاری لال چھابڑیا اور کئی بھارت نقل مکانی کر گئے۔ جب کہ حشو کیولرامانی، گوبند مالہی، اور کیرت بابانی تو قیام پاکستان کے بعد بھی سندھ میں رہے اور ترک وطن سے انکار کر دیا۔ ادبی و سیاسی سرگرمیوں میں بھی سرگرم رہے۔ اس وقت تک جب تک انکو جیلوں میں ڈال کر ان کو زبردستی ہندوستان ملک بدر نہ کیا گیا۔ سوبھو گیانچدانی کے سامنے بھی ایسے احکامات رکھے گئے لیکن انہوں نے ڈٹ کر انکار کر دیا اور ایک لمبے عرصے تک جیل قبول کی۔ سوبھو گیانچندانی کی طویل المدت نظربندیاں اب پاکستانی اعلیٰ عدالتی فیصلوں والی نظیروں یعنی پی ایل ڈیز Paksitan alegal adecisions  میں بھی موجود ہیں۔ 'سوبھو گیانچندانی بنام ریاست پاکستان'۔

شیخ ایاز اپنے ساتھی سندھی ادیبوں کے بھارت نقل وطنی اور جبری جلاوطنی پر کافی دل شکستہ ہوئے تھے۔ حشو کیولرامانی کو وہ اور ان کا دوست مونس کراچی ائیر پورٹ پر چھوڑ آئے تھے۔ حشو ایاز اور مونس کو اپنا فلیٹ دے کر گیا تھا کہ وہ جلد ہی لوٹ آئے گا۔ جس دن شیخ ایاز حشو کو چھوڑ کر آیا تھا اس دن برنس روڈ کے پارک میں وہ بہت دیر تک بیٹھا رہا تھا اور پھر اپنی شاعری پر رم چھڑک کر اس کو آگ لگا دی تھی۔

اب ایاز کے آگے ایک نئی کراچی اور اس میں نئے آ کر بسنے والے لوگ اور نئے ساتھی دوست اور کامریڈ بھی تھے۔ 1949 میں ایاز نے کراچی میں اپنے دوست جمال صدیقی، خالد اسحاق اور عبدالحئی قریشی کے ساتھ وکالت شروع کی۔ کراچی میں نئے آنے والے ادیبوں میں اب ظہور نظر، جمیل الدین عالی، قرت العین حیدر، ایوب کرمانی بھی تھے۔ اس سے قبل شیخ ایاز نے شکارپور ہی کی کراچی میں رہنے والی ایک لڑکی روشن مغل سے رومانوی تعلق جوڑا تھا جس کا ذکر ان کی شاعری میں بھی ہے۔ روشن مغل جوانی میں ہی کسی بیماری میں فوت ہو گئیں۔

کثیرالمطالعہ شیخ ایاز نے اب اپنی توجہ وکالت اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کے رسالو کے منظوم اردو ترجمے اور شاعری پر مرکوز کیے رکھی۔ 1952 میں وہ کراچی چھوڑ کر سکھر آ گئے۔ لیکن کراچی نے ان کو نہیں چھوڑا۔ ان کی سندھی چاہے اردو شاعری اور نثر میں کراچی باقاعدہ ایک موضوع، ایک استعارہ ہے۔

روشنیوں کے گیت گاتی اے کراچی
جھلملاتی تو کراچی
دل دکھاتی اے کراچی

شیخ ایاز کی مشہور نظم کراچی پر ہے۔

'سسمندر تو آ اور آ کر مجھے منہوڑہ سے اٹھا اور دور دور جا ساحل پر جا پھینک' ایک اور نظم میں وہ کہتے ہیں۔

لیکن کراچی کے عنوان سے ان کے ایک مجموعہ کلام ( وہ شاعری جو انہوں نے سینٹرل جیل سکھر میں قید دوران کی) 'کپر تھو کن کرے' میں گویا پورے ایک باب کے صورت ہے۔ 'کراچی جا کن' (گرداب کراچی)۔ نیز کراچی میں اپنی گزاری ہوئی زندگی پر انہوں نے سندھی میں ایک کتاب لکھی ہے 'کراچی جا ڈینھن کراچی جون راتیون (کراچی کے دن کراچی کی راتیں)۔

ان کی شروعاتی شاعری اردو زبان میں ہے اور شاہ عبداللطیف بھٹائی کے منظوم اردو ترجمے کے علاوہ ان کی طبع زاد اردو شاعری کا مجموعہ 'بوئے گل نالہ دل' ہے جس پر پاکستان رائٹرز گلڈ نے انہیں انعام بھی دیا۔

مری روح کی راگنی سن رہے ہو
شکستہ سی لئے ہے شکستہ سے نغمے
پرانی سی مئے ہے پرانے سے شیشے
جنہیں میں چرا لایا ہوں ساقیان ازل سے
بصد رنج ناصح بصد زعم زاہد
پلاتا رہا ہوں نئے مئے کشوں کو
جو روح ابد میں تراشے گئے تھے
وہ اصنام لایا ہوں لیکن
کہیں وہ جبینیں نہیں ہیں
کہیں امتیاز پرستش نہیں ہے

لیکن انہوں نے اب زیادہ تر اپنی توجہ سندھی میں شاعری پر دی۔ مطالعہ تو ان کا ہمہ وقت وسیع تھا لیکن اب وہ مزید مشاہدے کے لئے یہ فوجداری کیسوں کے صف اول کے وکیل اپنے مئوکلوں سے ان کے زندگی کے مشاہدات اور زبان اور ان کے زندگی کے تجربات پر بھی معلومات حاصل کرتے رہے۔ وہ شمالی سندھ میں کیس لڑنے دور دراز کے شہروں اور تحصیل ہیڈ کوارٹروں تک بھی جاتے تھے۔ ان امیں زیادہ تر قتل کے مقدمات ہوا کرتے تھے اور ایسے سفروں اور اس کے مشاہدات اور ملاقاتوں نے ان کی زبان کو اور وسعت دی۔ اوپر سے بھٹائی کی شاعری کا دنیا جہان بھر کی شاعری سے تقابلی مطالعہ، ان کی شاعری کے ترجمے شیخ ایاز کی شاعری کو اونچی اڑان اڑانے لگے۔

شیخ ایاز نے خود کو یکتہ روزگار شاعر سے زیادہ سندھی زبان میں شاہ عبدالطیف بھٹائی ثانی تسلیم کروا لیا۔ لیکن ان کی نثر بھی ان کی شاعری کی طرح بی مثال ہے۔ ان کی نثر کی سندھی زبان میں کتاب 'کاک ککوریا کا پڑی' جو ان کے اپنے دوست محمد ابراہیم جویو کو لکھے ہوئے خطوط کا مجموعہ ہے جس میں ان کے وہ خط بھی شامل ہیں جو انہوں نے سابقہ مشرقی پاکستان کے دورے کے بارے میں لکھے تھے جب وہ وہاں بحیثیت پاکستان رائٹرز گلڈ کے رکن کی حیثیت سے گئے تھے، کو پڑھ کر سندھی نثر نگاروں نے اچھی نثر لکھنا سیکھی تھی۔

شیخ ایاز اپنے خیالات، صحبت، سنگت و مطالعے میں بائیں بازو یا ترقی پسند خیالات و تحاریک کے قریب رہے اور ان کی شاعری سندھی چاہے اردو میں جابجا اس کی عکاس ہے۔ عجب نہیں کہ ان کی شاعری پر کفر و الحاد کے فتوے لگے۔ مذہبی ساسی جماعتوں خاص طور جماعت اسلامی سے وابستہ ادیبوں اور میڈیا نے ان کے خلاف زبردست مہم شروع کر دی۔

'ڈھولا، بغیر پیٹ بھر کر کھائے حسن کا کوئی شعور نہیں' یا پھر یہ کہ 'بڑا نام اللہ کا مگر جو کرو شمار تو اس سے بڑی بات ساجن ہے یہ باجرہ'، 'آتا ہے ہر روز ایاز مئخانے میں توبہ کو'، 'قدم قدم پہ ہجوم رنداں، نظر ںظر میں شراب خانے' انکی سندھی شاعری کی چند سطور ہیں۔

ایاز کے خلاف فتاویٰ اور ان کی شاعری پر کفر و الحاد کی شاعری جیسے الزامات پر سندھ کے دو انتہائی معتبر عالم و ادیب مولانا غلام محمد گرامی اور رسول بخش پلیجو قلم میں جولان لاتے میدان میں اترے اور شیخ ایاز کے دفاع میں انہوں نے دو طویل مقالے لکھے جو بعد میں کتابی صورت میں شائع ہو کر تنقیدی ادب میں شاہکار کی حیثیت رکھتے ہیں۔ غلام محمد گرامی کا سندھی میں 'مشرقی شاعری کے فنی اقدار و رجحانات' اور رسول بخش پلیجو کی 'اندھے الٹے وید'۔

انہی دنوں شیخ ایاز اور رشید بھٹی بھارت کے دورے پر گئے تھے جہاں ان کے پرانے دوستوں اور سندھی ادیبوں نے بڑی پذیرائی کی تھی۔ یہ تقسیم کے بعد اپنے ساتھیوان سے ان کی پہلی ملاقات تھی (یا بہت سوں سے آخری بھی)۔ شیخ ایاز سے ان کے دیرینہ ہمدم و کامریڈ حشو کیولرامانی بھی ملے تھے جنہوں نے شیخ ایاز سے کہا تھا: 'ایاز، سندھ مین کسی بھی مہاجر پر کبھی ہاتھ نہ اٹھانا کہ میں بھی ہند میں شرنارتھی ہوں'۔

تقسیم کے آشوب سے سندھ ابھی نکل ہی نہیں پایا تھا کہ 1950 کی دہائی کے پہلے تین چار برسوں میں سندھ کو ون یونٹ کے زندان میں جکڑ لیا گیا۔ سندھی شاعروں اور ادیبوں نے ون یونٹ کے خلاف سخت مزاحمت کی۔ یہ وہ دن تھے جب ڈاک کے لفافے پر ایڈریس کے ساتھ لفظ سندھ لکھنا قابل تعزیر ٹھہرایا گیا تھا۔ تب شیخ ایاز نے سندھی میں لکھا تھا 'سندھڑی تیرا نام لیا گو کالے سانپ پہ پائوں پڑا'۔ شیخ ایاز کی شاعری، تحریر و تقریر سندھی ادیبوں اور شاعروں کے اس مورچے کے نہ فقط بڑے ہتھیار تھے بلکہ سندھ دھرتی پر ون یونٹ اور سندھ کے حقوق کے لئے تحریک میں جٹے سندھی ادیبوں شعرا اور طلبہ کی تحریک کی کشش ثقل تھے۔

1960 کی دہائی میں ایاز کی شاعری ایک جریدے روح رہان میں شائع ہوا کرتی تھی جو حمید سندھی کی زیر ادارت چھپتا تھا۔ اس جریدے کی طرف سے ہر سال 'جشن روح رہان' منایا جاتا تھا جس میں سندھ بھر سے شعرا، ادبا اور فنکار شرکت کیا کرتے تھے۔ اور پھر سندھی طلبہ تحریک کی طرف سے سندھی شاموں کا انعقاد اور جی ایم سید کی طرف سے قائم بزم صوفیائے سندھ کے اجتماعات میں ایاز ایک توانا اور طاقتور آواز بن کر ابھرا تھا۔ ایک سال 'جشن روح رہان' میں ایاز کی آمد پر پابندی لگا دی گئی اور انہیں شہر بدر کیا گیا۔ تب سندھی ادیبوں اور نوجوانوں نے ایاز کو کاندھوں پر اٹھا لیا تھا۔ انہیں کوٹری ریلوے سٹیشن پر الوداع ایک جلوس کی صورت میں کرنے گئے تھے اور وہاں یہ نعرہ لگا تھا 'سندھ کی آواز شیخ ایاز

1960 کی دہائی میں ایوب خان کی آمریت کے آخری سالوں میں پھر جریدے 'روح رہان' پر پابندی لگا دی گئی۔

1965 کی پاکستان بھارت جنگ چھڑی تو پاکستان کے دائیں چاہے بائیں بازو کے شاعر 'ملی نغمے' لکھنے لگے تھے لیکن شیخ ایاز اور سوبھو گیانچندانی کو گرفتار کر کے سکھر جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ شیخ ایاز نے پاکستان بھارت جنگ کے منڈلاتے بادلوں کے دنوں اپنے ہمعصر اور ہمجولی سندھی شاعر نارائن شیام کے نام ایک نظم لکھی تھی:

یہ سنگرام
میرے سامنے ہے نارائن شیام
اس کے میرے قول بھی اک سے
بول بھی اک سے
وہ کوتا کا راج دھنی
اور میرے رنگ رتول بھی اک سے
اس پر بندوق کیسے تانوں
اس کو گولی کسے ماروں کیسے ماروں؟

بس کہ جیسے بقول ایاز اس نے کوبرا ناگ پر پائوں رکھ دیا۔ ہر طرف سے ایاز پر غداری، بھارت ایجنٹی، ملک دشمنی کے الزامات اور سنگباری شروع ہو گئی۔ ان کی اس نظم کے اردو ترجمے کے ساتھ تمام سندھ میں پوسٹر چسپاں کر دیے گئے۔ شیخ ایاز کو گرفتار کیا گیا۔ وہ جیل میں تھے اور پیچھے ان کے گھر اور دفتر پر پرانے سکھر میں پتھرائو کیا گیا۔ ان کے خلاف دیواروں پر نعرے لکھے گئے اور سکول میں آتے جاتے ان کے بچوں اور اہلیہ پر ' شیخ ایاز غدار کی اولاد' کے آوازے کسے جاتے۔ انہی دنوں ایاز نے اپنی یہ معرکتہ الآرا نظم لکھی جس کی کچھ سطریں تھیں:

سردی میں سنگینیں ہیں
اور وردی والے بوٹ آ کر
میرے گھر کی چوکھٹ پر ٹھہرے ہیں
اور وہ در پر ٹھک ٹھک کرتے

میں نے روز کہا تھا بابا
ایسے گیت تو کیوں لکھتا ہے
جو تجھ پر زنجیریں ڈالیں
تجھ کو دیس دروہی کہہ کرجھوٹے بزدل بل بک کرتے
اور وہ در پر ٹھک ٹھک کرتے

ایاز اور سوبھو گیانچندانی پاکستان بھارت جنگ کے خاتمے تک سکھر جیل میں نظربند رہے۔ شیخ ایاز نے اپنی اس قید کے دوران بلیک آئوٹ کی راتوں پر ایک نظم لکھی:

بمباری کے خوف سے ہر شب
وہ بجلی روز بجھاتے ہیں
جو بھی بیڑی کش لگائے
اس کو چوکیدار ہے ڈانٹے
پر کھولی پر جو چاند چڑھا ہے
اس کو کون بجھا سکتا ہے
اس کو کون بجھا سکتا ہے

شیخ ایاز جب جیل و نظربندیوں کے باوجود اپنی اسی شاعری لکھنے سے نہ رکا تو اسے ایوب خانی آمرانہ حکومت نے طرح طرح کی لالچیں دیں۔ شیخ ایاز نے ایک نظم لکھی:

میرا نرخ تم پوچھ رہے ہو
آمر!
کیا میرے گیت خرید سکتے ہو؟

اور پھر، ایاز کو دسمبر 1968 میں ڈیفنس آف پاکستان رولز میں گرفتار کر کے ساہیوال جیل میں لا کر نظربند کر دیا گیا۔ یہ وہ دن تھے جب اسی جیل میں ذوالفقار علی بھٹو اپنے ساتھیوں میر رسول بخش تالپور، ممتاز بھٹو، ڈاکٹر مبشر سمیت ڈی پی آر کے تحت نظربند تھے۔ ذوالفقار علی بھٹو اور شیخ ایاز کے درمیان ساہیوال جیل میں گارڈز کے ذریعے پیغامات کا تبادلہ رہا تھا اور بھٹو اور شیخ ایاز نے جیل کی لائبریری میں سے جو ان دنوں کتاب منگوا کر پڑھی تھی وہ ہٹلر کی آپ بیتی بھی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو اپنے ساتھیوں سمیت کچھ دنوں بعد رہا ہو گئے تھے۔ لیکن شیخ ایاز کئی ماہ ساہیوال جیل میں نظربند رہے۔ انہوں نے ساہیوال جیل میں اپنے ایام اسیری پر 'ساہیوال جیل کی ڈائری' کے نام سے کتاب بھی لکھی ہے۔ ان پر ڈیفینس آف پاکستان رولز کے تحت بغاوت کا مقدمہ داخل تھا جس کی بنیاد ان کی تب تین بندش شدہ کتابوں پر بنائی گئی تھی۔ اس سے قبل ڈی پی آر کے تحت بغاوت کا مقدمہ تب تک صرف خان عبدالغفار خان باچا خان کے خلاف قائم کیا گیا تھا۔

1971 میں وہ سکھر بار ایسوسی ایشن کے صدر اور شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ سندھ کے صوبائی صدر تھے۔ وہ ان دنوں سابقہ مشرقی پاکستان میں فوجی ایکشن کے خلاف قراداد لانا چاہتے تھے کہ اپنے دوست اور ساتھی ادیب وکیل رشید بھٹی کے ساتھ بدنام زمانہ قانون ڈیفینس آف پاکستان رولز میں گرفتار کر لیے گئے۔ تقریباً ایک سال سے زائد سکھر سینٹرل جیل میں قید کے دوران انہوں نے زبردست شاعری اور نثر لکھی جو 'کپر تھو کن کرے' کے نام سے کتابی صورت میں موجود ہے۔ 'کپر تھو کن کرے' ان کے دوران جیل لکھے ہوئے نوٹس اور شاعری پر مشتمل ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے حکومت میں آنے کے چند ماہ بعد شیخ ایاز اور رشید بھٹی کو جیل سے رہا کیا گیا۔ 1972 میں سندھی-اردو لسانی فسادات کے دوران سندھی اور اردو بولنے والے جن سندھی اور اردو زعما اور دانشوروں کو ذوالفقار علی بھٹو نے مل بیٹھ کر مسئلہ کے حل کو اسلام آباد بلایا تھا ان میں شیخ ایاز، قاضی فیض محمد اور کراچی یونیورسٹی کے اس وقت کے وائس چانسلر ڈاکٹر اشتیاق حسین قریشی بھی شامل تھے۔

1976 میں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے شیخ ایاز کو لاڑکانہ بلا کر ان کو سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر بننے کی پیشکش کی جسے شیخ ایاز نے قبول کر لیا۔ شیخ ایاز نے بھٹو کی طرف سے سندھ یونیورسٹی کی وائس چانسلری قبول کرنے کی تاویل مجھ سے کچھ یوں بیان کی تھی، "جب بھٹو نے مجھے وائس چانسلر شپ آفر کی میں اس لئے انکار نہیں کر سکا کہ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میرے انکار پر بھٹو مجھے جیل نہ بھجوا دے۔ دوسرا یہ کہ بھٹو چاہتا تھا ہر سندھی بچہ انٹر میڈیٹ تک پہنچے تو دنیا کے ادب کے سارے کلاسکس اسے پڑھے ہونے چاہئیں۔ اسی لئے وہ سندھ یونیورسٹی میں اک وسیع ٹرانسلیشن بیورو قائم کروانا چاہتا تھا۔ میں چاہتا تھا کہ سندھ یونیورسٹی کو میں اگر ٹیگور کی شانتی نکیتن کے خطوط پر چلا سکوں تو یہ میرے ایک خواب کی تعبیر ہوگی"۔

بھٹو کا دور حکومت ختم ہوا، ضیاالحق کا مارشل لا ملک پر مسلط ہوا۔ شیخ ایاز کو چار سال کے اندر سندھ یونیورسٹی کی وائس چانسلر شپ سے فارغ کر دیا گیا کہ ان کا بھٹو حکومت کی دنوں میں کیا ہوا کانٹریکٹ 1980 تک تھا جس کی توسیع نہیں کی گئی۔ شیخ ایاز کو ضیاالحق اور اس کی آمریت بھلا کہاں برداشت کر سکتے تھے؟ شیخ ایاز کے قریب رہنے والے ڈاکٹر قاسم بگھیو کا کہنا ہے کہ سچ تو یہ ہے کہ شیخ ایاز بھٹو حکومت کے خاتمے اور مارشل لا میں استعفا دے کر جانا ہی چاہتے تھے لیکن ان کے کچھ دوستوں نے اس پر منع کیا کہ ایسا کرنے پر فوجی حکومت انہیں گرفتار بھی کر سکتی ہے۔ وہ کافی ڈر گئے۔ لہٰذا انہوں نے اپنے کانٹریکٹ کی معیاد پوری ہونے کا انتظار کیا۔

انہوں نے بھٹو کی پھانسی کے بعد لکھا تھا: "آ لیندے کی موت کے بعد میں اپنی موت کی ریہرسل کر رہا ہوں"۔

نیز انہوں نے ضیا آمر کے بارے میں لکھا:

وہی فاشی چال
میں تو آندرے مالرو
پر تو نہیں ڈیگال

شیخ ایاز نے ضیا الحق کی فوجی آمرانہ حکومت کے ابتدائی سالوں میں سکھر واپس جا کر بظاہر خاموش رہ کر اپنی تمام تر توجہ شاعری اور نثر لکھنے پر لگائے رکھی اور 1980 کے وسط میں ایک بڑی خاموشی کے بعد ان کی شاعری اور خاص طور پر نثری نظموں کی شاعری کی یکے بعد دیگرے کتابیں شائع ہوئیں۔ ایک طویل خاموشی کے بعد ان کی پہلی منظر عام پر واپسی 'وائیسز میوزک گروپ' کی طرف سے کراچی مین آڈیو کسیٹ کا اجرا تھا جس کی تقریب پاکستان آرٹس کائونسل میں ہوئی تھی۔ یہاں انہوں نے اپنی تازہ شاعری کے علاوہ اپنی اردو کی وہ مشہور نظم بھی پڑھی تھی:

میرے دیدہ ورو میرے دانشورو
پائوں زخمی سہی ڈگمگائے چلو

حیدرآباد میں دسمبر 1987 میں آئے جب سندھی ادبی سنگت نے حیدرآباد پریس کلب میں ان کے ساتھ ایک شام منائی تھی، اسی شام نمائندہ نوجوان سندھی شاعر حسن درس نے بھی شیخ ایاز کے سامنے اپنی نظم 'ننگے سرمد کے حضور' پڑھی تھی۔ شیخ ایاز کی شاعری میں وہی ولولہ اور بے خوفی، وہی لازوال حسن تھا۔ جب اس شام وہ اپنی نظم پڑھ رہے تھے:

کالے کتے
گورے کتے
کتے وردی والے کتے

1990 کی دہائی کے شروع میں حسن درس سمیت ان دنوں کے نوجوان سندھی شاعروں کی شاعری کے انتخاب پر مشتمل جن میں راقم الحروف کی کچھ شاعری بھی شامل ہے پر مشتمل ایک کتاب 'ڈیئا ڈیئا لاٹ' کے عنوان سے چھپی جس کا شیخ ایاز نے ایک طویل مقدمہ لکھا ہے۔

شیخ ایاز نے آخر وکالت اور سکھر دونوں کو خیرباد کہہ دیا۔ 1980 کی دہائی کے آخر میں جب سندھ میں لسانی فسادات زوروں پر تھے تو وہ کراچی منتقل ہو گئے۔ ایملی ڈکنسن کی طرح انہوں نے بھی کہا کہ وکالت میں پیسہ تو ہے پر شاعری نہیں۔ کراچی کلفٹن پل کے پار انہوں نے پرنس کامپلیکس کلفٹن پر ایک فلیٹ کو اپنا گھر بنایا۔ اب وہ کل وقت تحریر و تخلیق کے کام میں جت گئے۔

شیخ ایاز برصغیر کے ان چند شاعروں میں سے ہیں جن کی شاعری میں انسان و وطن یا سندھ دوستی کے ساتھ ساتھ بین الاقوامیت پسندی بھی بڑے نمایاں انداز میں ہے۔ اگر ان کی شاعری کی زمین سندھ کی دھرتی ہے تو آسمان بین الاقوامی پسندیت و انسان دوستی ہے۔

انہوں نے انسانیت اور عالگیریت پسندی کے کینوس میں کس کس نہ موضوعات کو اپنی شاہکار شاعری کا حصہ بنایا!

نازیوں کے ہاتھوں چھپتی یہودی لڑکی اور فاشزم کے خلاف شیخ ایاز کی شاعری کا ایک باب 'این فرینک' کے بارے میں ہے۔ وہ ایک اور جگہ اپنی شاعری میں زان پال سارتر کو مخاطب ہو کر کہتے ہیں 'اگر سارتر، تو سندھی اولاد بن کر پیدا ہوتا تو پھر اپنی وجودیت پسندی کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرتا'۔ ویتنام کی جنگ اور ویتکانگ پر بھی ان کی شاعری کا ایک باب یا سر ہے۔ مائو کے بدلتے چین پر بھی شاعری ہے تو روس پر بھی لرمانتوف سے لے کر مایاکووسکی اور سولزے نیتسن تک۔ لیون ٹراٹسکی بھی۔ انہوں نے روس کے منحرف ادیبوں پر لکھا۔ فاشزم کے خلاف بھی ان کی شاعری ہے تو جنگ کے خلاف بھی۔ برصغیر کی آزادی اور آزادی کی تحریک پر بھی شاعری ہے۔ بھگت سنگھ کو پھانسی پر شیخ ایاز نے پورا اوپیرا لکھا ہے۔ پرتگالیوں کے انگولا پر سے قبضے کے خاتمے پر بھی شاعری ہے کہ
"پرتگال میں رہنے والو، جوئے خون میں بہنے والو، صدیاں بیتیں تم نے ٹھٹھہ میں آگ لگائی تھی اور میرے لب پہ دہائی تھی"۔ تانتیا ٹوپی پر بھی شاعری ہے تو نانا فرنویس پر بھی تو منگل پانڈے پر بھی۔ سرمد بھی، فیض بھی تو ناظم حکمت بھی ہیں:

شاید سب جبروت
میں سکھر کے ویرانے میں
فیض بھٹکے بیروت

اس نے چے گویرا کی موت پر بھی لکھا: "ہے جس نے بھی آزاد گزارا، اس کے آگے موت کو کوئی معنی نہیں"۔

ان کی شاعری میں تو دارا شکوہ بھی ہے تو سرمد بھی، غالب بھی ہے تو بلھے شاہ بھی، امرتا پریتم بھی تو جی ایم سید پر ابیات بھی ہیں۔

'بلھے بھیا تجھ کو مجھ کو عشق نچایا تھیا تھیا'۔ اس کی نثر کی ایک سطر ہے 'میری نظر میں غالب کا گناہ اس کی شراب نوشی نہیں بادشاہ کی قصیدہ خوانی ہے'۔ لیکن پھر اپنی پچھلی سندھی شاعری میں وہ غالب کو خراج پیش کرتے نظر آتے ہیں:

میند کی دیوار نیلی روپ سندر چاند کا
کب تلک مجھ میں رہے اے قفس تری اسیری'

وہ سندھی اردو کی لڑائی کے خلاف بھی شاعر ہے تو سندھ کے حقوق کا بھی۔

کل رات بھٹائی گلیوں میی یوں خون میں لت پت دیکھا تھا
اک خنجر اس کے سینہ میں پیوست ہوا
وہ آن گرا
اور میں نے اس کے زخم کو جب سہلایا
تو کیا دیکھا
وہ خسرو تھا

انہوں نے کہا تھا میں نہ فقط سندھ کے ماضی و حال کا بلکہ مستقبل کے مستقبل کا بھی شاعر ہوں۔

ان کی طبع زاد اردو شاعری کے دو مجموعوں 'بوئے گل نالہ دل' اور 'نیل کنٹھ اور نیم کے پتے' کے علاوہ ان کی سندھی شاعری کا اردو ترجمہ فہمیدہ ریاض نے 'حلقہ میری زنجیر کا' کے نام سے، اور احمد سلیم نے پنجابی میں 'جو بیجل نے آکھیا' کے عنوان سے کیا ہے۔ اس نے 1980 کے بعد باقی تمام زندگی آور وقت شاعری کو دیے اور کوئی بیس سے زیادہ کتابیں نظم اور نثر میں لکھیں۔

لیکن ان کی سندھی شاعری لاثانی، آفاقی اور عالمگیر ہے کہ شیخ یاز ایک سندھی وطن پرست، انسان دوست بین لاقوامیت پسند شاعر و فنکار ہے۔ شاہ عبدالطیف کی شاعری کی طرح ان کی شاعری کے لئے بھی یہ فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ انہوں نے سندھی زبان کو ساہوکار کیا یا سندھی زبان نے ان کی شاعری کو۔

یہ کبھی میں نے ہی لکھا تھا کہ شیخ ایاز کا سندھی زبان میں شاعری کے حوالے سے سندھ اور پاکستان میں وہی مقام ہے جو بنگالی میں رویندر ناتھ ٹھاکر کا، چلی میں پابلو نرودا کہا، سپین میں لورکا ترکی میں ناظم حکمت کا ہے۔

انہوں نے تین جلدوں میں اپنی سوانح عمری بھی لکھی جس کا اردو میں ترجمہ 'راہ میں منزل نہ ہوگی' نام سے عبدالحمید جعفری نے کیا۔ انہوں نے دعائیہ نظمیں بھی لکھی ہیں جہاں ان کی شاعری کا انداز حمدیہ ہے۔ جس پر ان کے پرانے دوستوں اور مداحوں نے ان کو مذہبی ہو جانے کے طعنے دیے جب کہ ان کو ماضی میں الحاد پرستی کا فتویٰ لگانے والوں نے خراج تحسین پیش کیا۔ انہوں نے الوداعی گیت بھی لکھے جن میں کہا کہ میں اپنا ساز بجائے جا رہا ہوں اے سندھ تجھ کو الوداع، اے ہند تجھ کو الوداع۔

وہ اپنے دوست اور ادیب و شاعر سابق سینیٹر یوسف شاہین کے اخبار روزنامہ 'برسات' کے چیف ایڈیٹر بنے اور ہر روز اداریے لکھا کرتے تھے۔ ان کے تحریر کردہ اداریے بھی ایک طرح کے ادبی شاہکار ہیں۔

وہ اپنی شاعری اور نثر لکھنے میں دن رات مصروف رہے۔ حالت بیماری میں بھی۔ انہوں نے لکھا کہ 'میں نے موت کو اپنے گھر میں داخل نہیں ہونے دیا یہ کہہ کر کہ اب مصروف ہوں۔ مجھے بہت کچھ لکھنا ہے۔ پھر کبھی فراغت میں وارد ہونا'۔ انہوں نے اپنی لائبریری میں رکھے ہوئے لینن کے چھوٹے مجسمے کو ہٹا کر اس کی جگہ بلے کا مجسمہ رکھ دیا۔ اور اپنے گھر کے دروازے کے باہر ایک تختی لگادی جس پر دونوں ہاتھ ایک دوسرے سے جڑے دکھائے ہوئے تھے۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ یہ اس صبح کو خوش آمدید کرنے کے لئے ہے جو ابھی بر صغیر میں آنی ہے۔ وہ صبح کو اٹھ کر گُرو رجنیش اوشو کی آڈیو و کیسٹ سنا کرتے جس کے لئے انہوں نے لکھا:

'رمضان کا مہینہ ہے جھٹ پٹے کے ان لمحوں میں رجنیش کی آڈیو کیسٹ نہیں چلا سکتا کہ میرے پڑوسی ہندی کے الفاظ سن کر چونک نہ جائیں اور یہ نہ کہیں کہ تم اس بابرکت مہینے میں ایک کافر کو سن رہے ہو۔ حالانکہ اس جیسے مومن شاذ نادر ہی پیدا ہوئے ہیں'۔ شیخ ایاز 28 دسمبر 1997 کو اس جہان رنگ و بو یا وہ سیارہ جسے دھرتی کہتے ہیں سے ہمیشہ کو چلے گئے لیکن ان کی شاعری ہمیشہ کے لئے رہے گی کہ انہوں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ 'یہاں گیت موت کو جیت گیا یہ تنبورے کی تاریں تھی کہ بھٹائی کا تن'۔ انہیں شاہ عبداللطیف بھٹائی کے بھٹ شاہ پر ان کے روضے کے قریب دفن کیا گیا۔

کچھ سال قبل کراچی میں ملک اور ملک سے باہر کے پاکستانی نزاد آرٹسٹوں نے اپنے فن پاروں کی نمائش 'آؤ کہ شیخ ایاز سے معافی مانگیں' کے عنوان سے کی تھی جن میں خدا بخش ابڑو اور نیویارک سے خلیل چشتی بھی شامل تھے۔

ماہ دسمبر کے آخری ہفتے میں امر سندھو اور اس کی کیفے خانہ بدوش کی ساتھیوں کی طرف سے منعقد کرایا جانے والا ہفتہ بھر کا ' شیخ ایاز میلو' ایک معرکتہ الآرا حیثیت حاصل کر چکا ہے جس میں ملک بھر سے ادیب، شاعر، دانشور، فنکار اور شیخ ایاز اور اس کی شاعری سے لگائو رکھنے والے شیخ ایاز کو خراج محبت و عقیدت پیش کرتے ہیں۔ بالکل شیخ ایاز کے اپنے الفاظ میں:

جانتا ہوں کہ وہ وقت بھی آئے گا
جب میری شاعری کو اچانک کبھی
چاند آکاش گنگا میں نہلائے گا
جانتا ہوں کہ وہ وقت بھی آئے گا
جب زباں کا تعصب نہ ہو گا کہیں
میری خوشبو سے ہر اک مہک جائے گا

( شیخ ایاز)

تو پس عزیزو، چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی