Get Alerts

گوریلا؛ بلوچستان کو پاکستان میں انقلاب کا گڑھ بنا دو (پہلا حصہ)

محض پانچ روز قبل میں انگلینڈ کی ایک یونیورسٹی میں تھا اور اب اچانک کیمپ میں 30 یا 40 قبائلیوں کے درمیان بیٹھا تھا جو ہتھیاروں سے لیس تھے اور میری سمجھ میں بالکل نہ آنے والی زبان بول رہے تھے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا میں جنگی دیوتاؤں کے بیچ آ گیا تھا، یا جیسے فلمی دنیا میں موجود ہوں۔

گوریلا؛ بلوچستان کو پاکستان میں انقلاب کا گڑھ بنا دو (پہلا حصہ)

(زیر مطالعہ مضمون معروف برطانوی ناول نگار وی۔ ایس۔ نائپال کی کتاب 'Beyond Belief' کے ایک باب 'Guerilla' کا ترجمہ ہے جو زبیر دہانی نے کیا ہے۔ اس باب کا موضوع بحث بلوچستان کی 1970 کی دہائی کی صورت حال ہے۔ اس باب کا مرکزی کردار شہباز ہے۔ شہباز ایک فرضی نام ہے۔ یہ فرضی نام احمد رشید کا ہے جو ایک معروف صحافی ہیں اور 'طالبان' و 'جہادی' نامی شہرت یافتہ کتابوں کے مصنف ہیں۔)

دوسری عالمی جنگ کے اختتام پر 1945 میں جب شہباز کے والد برطانوی انڈین آرمی سے سبکدوش ہوئے تو اُنہوں نے برطانیہ جا کر بسنے پر غور کیا کیونکہ جنگ سے پہلے کچھ بھارتی شہزادے بھی انڈیا کے ایک کالونی ہونے کے باوجود اسی طرح برطانیہ جا کر بس گئے تھے۔ ایسے لوگوں کو دولت اور شہرت کے باعث کافی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے شہباز کے والد کے ذہن میں یہ بات سمائی ہوئی تھی کہ انڈیا اور پاکستان کو ملنے والی آزادی کے بعد کسی مسلمان آبادکار کو وہاں اتنی ہی عزت کی نظر سے دیکھا جائے گا۔ اسی طرح برصغیر کے دوسرے مسلمانوں کا بھی یہی خیال تھا۔ ان کے ذہن، ملنے والی اس آزادی پر کئی وجوہات کی بنا پر شکوک وشہبات سے خالی نہیں تھے۔ اس لیے وہاں جا کر آباد ہونے کا سوچنے لگے تھے، یعنی ایک ایسی جگہ جہاں قانون کی بالادستی ہو۔

اگرچہ شہباز آزادی کے ایک سال بعد پیدا ہوا تھا، پھر بھی بدقسمتی سے اُن کا بچپن نو آبادیاتی اور نسلی تناؤ کے ماحول میں گزرا تھا۔ اس نے برطانیہ میں پرائمری کے بعد پبلک سکول میں جا کر تعلیم حاصل کی، اسے پبلک سکول میں زیادہ مشکلات درپیش آئیں۔ وہ تنہا ایشیائی، تنہا مسلمان، اور تنہا ایسا شخص تھا جو نہ سُوّر کا گوشت کھاتا اور نہ چرچ جاتا تھا۔ اس کی مشکلات اُس وقت زیادہ بڑھیں جب اُن کے والد معاشی طور پر دیوالیہ ہو گئے۔ تین ماہ تک شہباز کی فیس ادا نہ ہو سکی تھی۔ حالات سے ایسا لگتا تھا کہ انہیں سکول سے نکال دیا جائے گا۔ خیر ایسا تو نہ ہوا لیکن اس کے بعد شہباز اپنے دوستوں سے دور رہنے لگا تھا۔

شہباز کے والد وہاں رہنے سے بیزار ہو گئے اور انہوں نے واپس پاکستان آ کر رہائش اختیار کرنے کیلئے تیاریاں شروع کر دیں۔ واپس پاکستان آ کر اُنہوں نے پنجاب میں اپنا کاروبار شروع کیا۔ 12 یا 13 برس کی عمر میں شہباز اپنے والد کے پاس سکول کی چھٹیاں گزارنے اور والد کا کاروبار دیکھنے کی غرض سے پاکستان چلا آیا۔ اس علاقے میں کچھ جاگیردار بھی تھے جن سے ملنے کے لیے وہ ان کے پاس گیا۔ یہ بہت بڑے جاگیردار تھے۔ پورے کے پورے گاؤں ان کی ملکیت تھے۔ ان جاگیرداروں میں سے بعض کے بچے بھی برطانیہ میں تعلیم حاصل کر چکے تھے، اور ان کی دیکھ بھال شہباز کے والد کیا کرتے تھے۔ شہباز نے دیکھا کہ جاگیرداروں کے یہ صاحبزادے وہاں اپنی زمینوں پر آکسفورڈ یا کیمبرج کے گریجویٹس کی طرح بالکل عمل نہیں کرتے تھے۔ اپنے کارندوں اور کسانوں سے ان کا سلوک غلاموں سے بھی بدتر تھا۔ سلامی اور اطاعت کے لیے بیچارے کسان جاگیرداروں کے پیروں کو چوم رہے تھے۔ یہ سلامی کم اور اطاعت پن زیادہ لگ رہا تھا، اور جاگیردار ان کو اُٹھنے کی بھی اجازت نہیں دیتے تھے۔ شہباز برطانیہ سے بالکل نیا نیا آیا تھا۔ یہ سب دیکھ کر اس کی حالت روہانسی ہو گئی۔

پبلک سکول کے آخری تین سال ان کے لئے کافی پُرمسرت تھے۔ وہ بالکل آزاد تھا۔ ہاف ٹرم اور چھٹیوں میں وہ اپنے دوستوں کے پاس یا کرائے کے مکانوں میں رہا۔ ایک بار وہ پرنسپل کے ساتھ آکسفورڈ میں رہا جہاں پرنسپل کی بیٹی سے اسے افلاطونی محبت ہو گئی۔ ان دنوں زندگی بڑی شاندار اور اچھی گزر رہی تھی۔ اب وہ اپنے آپ کو پاکستانی یا مسلمان سمجھنے کے بجائے وہیں کا محسوس کر رہا تھا۔ اگرچہ پاکستانی زندگی کے متعلق اس کی واقفیت کم تھی، مگر اُس نے غریبوں، گداگروں، معذوروں اور نچلے طبقے کے لوگوں سے متعلق شعر نویسی شروع کر دی۔

پبلک سکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ ڈگری حاصل کرنے کے لیے لاہور چلا گیا۔ وہاں اُس نے مقامی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا۔ وہ جرنیلوں کی حکومت کے خلاف تھا۔ وہ ایک لیفٹسٹ تھا۔ لیکن ان کی حقیقی سیاست واپس برطانیہ لوٹنے کے بعد شروع ہوئی۔ وہ ایک معروف یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ڈگری حاصل کرنے گیا۔ وہاں سیاست کی گرماگرمی تھی۔ یہ 1968 کے دن تھے جو ویت نام موومنٹ کا زمانہ تھا؛ اور، 27 سال بعد بھی ان کی یادیں تازہ تھیں کہ 'وہ پُرجوش و جذباتی' زمانہ تھا، اور ہر ایک کی زبان پر یہی تھا کہ 'نظام' بوسیدہ ہو چکا ہے، اس کا تبدیل ہونا لازمی ہے۔ وہ بھی یہی کہتا تھا؛ اور سیکسی لاطینی امریکی لڑکیاں بھی یہی کہتی تھیں۔ ہر طرف 'بوس و کنار' کرنے کو ملتا۔ یونیورسٹی لائف ایک طرح سے 'عیش و عشرت' کا میلا تھا۔

یونیورسٹی میں اُس کے بہت سے پاکستانی قریبی دوست تھے جن میں سے بعض شہباز کی طرح انگریزی ادب پڑھ رہے تھے۔ یہ آسان کورسز میں سے ایک تھا، تقریباً سب سے آسان۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بہت زیادہ سیاسی اور محدود کورس تھا۔ جبکہ طول و طویل مطالعوں کے بجائے اس میں مارکس ازم اور انقلاب کی حوصلہ افزائی ہو رہی تھی۔ شہباز اور اس کے پاکستانی دوستوں نے اپنے مارکسسٹ سٹڈی گروپ میں معیاری اور مختصر انقلابی کتابیں اور فانٹزفینن اور چے گویرا کو پڑھا۔ اور جب انہوں نے چند خاص منظور شدہ روسی مصنفین کا مطالعہ کیا، تو ان کا کبھی اتفاق نہیں ہوا کہ وہ تورگینوف کے ناولوں میں سے Fathers and Sons (1862) اور Virgin Soil (1877) کو پڑھتے، جن سے ناصرف پاکستان جیسے ملکوں کے جاگیردارانہ حالات کو سمجھنے میں مدد ملتی بلکہ انقلابی مشکلات کو آسان کرنے کے متعلق بھی لکھا گیا تھا۔

لیکن اس میں انقلابی مشکلات آسان کرنے کے متعلق سوالات تھے۔ انگلینڈ کی دوسری یونیورسٹیوں میں ایسے ہی بہت سے سٹڈی گروپ تھے۔ وہ ہر دو ہفتوں میں ایک دوسرے سے لندن یا کیمبرج میں ملاقاتیں کرتے تھے۔ لندن میں ان کے انڈین لفٹسٹوں سے تعلقات استوار ہو گئے۔ لندن میں ارلزکورٹ لفٹسٹوں کا علاقہ ہوا کرتا تھا، جہاں ریسٹورانٹ اور بار میں انقلابی دُھنیں چلتی تھیں۔ وہاں پر دنیا کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے لفٹسٹ ایک دوسرے سے ملتے رہتے اور اس بین الاقوامی ماحول میں تبادلہ خیال اور دعوتیں ہوتی رہتی تھیں۔ یہ بہت 'شاندار اور خوشگوار' ماحول تھا۔

شہباز کی ایک کزن لندن کے ایک بڑے سٹڈی گروپ میں شامل تھی۔ وہ کیوبا جا چکی تھی جہاں اس نے چھ ہفتوں تک کھیتوں میں گنے کی کٹائی کا کام کیا تھا۔ شہباز اس سے کچھ کچھ محبت کرنے لگا تھا۔ وہ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ کیوبا میں اس کی طبعی خدمات اور رُتبے کو دیکھ کر شہباز کی اشتراکی سوچ اور بھی پُختہ ہو گئی تھی۔ اب وہ انقلابی کاموں کے لیے بے چین ہو گیا تھا۔ لیکن وہ خوبصورت کزن یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد منحرف ہونے لگی۔ وہ ناصرف پنجاب جا کر کسانوں سے اپنے گنے کے کھیتوں پر مشقت لینے لگی بلکہ بے حد شوق سے ایک مولوی سے مل کر بنیاد پرستی کی جانب مائل ہوتی چلی گئی۔ اپنے پچھلے نظریات کو مکمل ترک کرنے کے لیے اس نے ایک اپاہج سے شادی کر لی۔ اب جب کبھی لاہور میں خاص موقعوں پر وہ ایک دوسرے سے ایک ہی کمرے میں ملتے تو وہ شہباز کو پہچانتی بھی نہیں تھی۔

لیکن شہباز کو ایک اور لڑکی مل گئی تھی۔ ایک پاکستانی جو اس کے ساتھ یونیورسٹی میں پڑھتی تھی۔ آخرکار ان دونوں کو ایک دوسرے سے محبت ہو گئی۔ شہباز نے کہا؛ 'ہم واپس ساتھ جا کر اپنے ملک میں انقلاب لانا چاہتے ہیں'۔ یہ بہت حیرت انگیز بات تھی۔ اسی خیال میں یونیورسٹی کا باقی وقت شہباز کے لیے بہت اچھا گزرا۔ لیکن آخر میں، جب وہ وقت آیا کہ سامان وغیرہ باندھ کر واپس اپنے ملک جا کر گوریلا لڑائی شروع کی جائے، اس لڑکی نے کہا؛ 'میں تمہارا ساتھ نہیں دے سکتی'۔

'سیاست کے لیے وہ اپنی فیملی نہیں چھوڑ پائی تھی'، شہباز نے بتایا۔ اس کی محبت میں شہباز 10 طویل گوریلا سالوں میں بلوچستان اور افغانستان کے صحراؤں اور پہاڑوں میں کافی سرگرم رہا۔ ارلزکورٹ، کیمبرج اور ان کی اپنی یونیورسٹی کی شاندار راتوں میں جہاں ہر طرح کی گفت و شنید اور پارٹیاں ہوتی تھیں، انہیں یاد کر کے ایسے علاقوں میں جانا اس کو ایک طرح کی حماقت ہی لگی تھی۔ جنسی لذّت سے محرومی کے 10 طویل سال، بلوچستان میں عورتوں جیسی شے سے دور رہ کر بلوچوں کے لیے لڑائی تو لڑی جا سکتی ہے مگر خانہ بدوشوں کے بیچ رہ کر جنسی ملاپ کرنا خودکشی کے مترادف ہوتا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے آدمی کو عورتوں کے خیمے میں جا کر بنا اس کے شوہر کو جگائے کسی عورت کو جگانا، اُس کو خاندان اور رشتہ داروں سے نکال کر باہر لے جانا، اس سے جنسی ملاپ کرنے کے بعد دوبارہ اس کو چوری چھپے ہاتھ آئے بغیر پھر واپس لے جانا۔ اس طرح کا جنسی ملاپ کرنا یعنی 'گوریلا جنگ کی حالت میں رہ کر ایک طرح کی ناممکن گوریلا لڑائی لڑنے کے برابر ہوتا ہے'۔ شہباز اپنی جنسی لذت سے محرومی کے 10 طویل سالوں میں قناعت کر کے ان چیزوں کا دور ہی سے مشاہدہ کرتا رہا۔

ان کے مارکسسٹ طلبہ گروپ میں وہ جن باتوں پر بحث کرتے تھے ان میں سے ایک حل طلب پہلو پاکستان میں 'قومیتی سوال' کے بارے میں تھا۔ پنجاب قابض صوبہ تھا، دوسرے صوبے کے لوگ اپنے آپ کو کمتر محسوس کرتے تھے۔ اقبال جنہوں نے پاکستان کا تصور پیش کیا تھا، سمجھتے تھے کہ نئی ریاست میں لوگوں کی شناخت اور مقصد کے لیے اسلام ہی کافی ہو گا، اور ذات پات اور برادری، قبائلی مسائل خودبخود ختم ہو جائیں گے۔ اقبال غلط ثابت ہوا۔ علاقائی نا برابری کی کشمکش جاری رہی، خاص کر مشرقی پاکستان میں، جس سے بنگلہ دیش وجود میں آ گیا۔

اب شہباز کے مارکسسٹ گروپ کا خیال تھا کہ جہاں اسلام ناکام ہو گیا ہے وہاں مارکس ازم اور انقلاب ان مسائل کو بہتر طور سے حل کر پائیں گے۔ شہباز نے اپنا خیال اس طرح سے پیش کیا؛ 'انقلاب کی ضرورت نچلی سطح سے ہے، تمام قومیتوں میں سے۔ اس عمل کے دوران تمام قومیتیں آپس میں جُڑ جائیں گی'۔

شہباز نہیں جانتا تھا کہ یہ خیال کتنا مشکل اور پیچیدہ ہے۔ یہ مارکسسٹ لٹریچر سے لیا گیا تھا، اس کے گروپ کو اس بات پر آمادگی میں ڈیڑھ سال لگے تھے۔ اور اس نے یہ بھی فیصلہ کیا تھا کہ انقلاب کی شروعات کہاں سے کی جائے۔ اس کی شروعات مشرق کے سب سے بڑے اور صحرائی و پہاڑی علاقے بلوچستان سے کی جائے۔ وہاں کی آبادی بہت کم اور پسماندہ تھی۔ زیادہ تر لوگ خانہ بدوش تھے۔ آزادی کے بعد سے تین بار بغاوت کی کوشش کی جا چکی تھی اور اس کے باوجود لوگ اس کے منفی اثرات سے محفوظ تھے۔ یہ ایک ایسا علاقہ تھا کہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی گوریلا لڑائی کے لیے بہت سازگار اور موزوں تھا، ریاست اور لوگوں کے درمیان تضادات بالکل واضح اور صاف دکھائی دیتے تھے۔

گروپ کی سرپرستی ایک ساؤتھ افریقی انڈین کر رہا تھا۔ اس کا خاندان کراچی منتقل ہو گیا تھا اور وہاں پر ان کی ایک دکان تھی۔ اس گروپ سے اس کی ملاقات تب ہوئی جب وہ ایک وزٹ پر لندن گیا تھا۔ وہ 19 یا 20 سال کا نوجوان تھا، لیکن وہ کہتا تھا کہ اپنی پوری زندگی میں وہ ایک مارکسسٹ رہا ہے۔ اُس نے بہت سے انقلابی اور گوریلا واقعات اور کہانیوں کو پڑھ رکھا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اور ان کا خاندان افریقی نیشنل کانگریس میں رہے ہیں۔ وہ خود جنوبی افریقہ میں انڈر گراؤنڈ رہا تھا۔ وہ اپنی جوانی کے دنوں میں انتہائی سرگرم رہا اور پاکستان میں بلوچستان میں انڈر گراؤنڈ رہا۔ اس کی شخصیت نے پاکستانی مارکسِسٹوں کو اپنی جانب مائل کیا جبکہ ساؤتھ افریقی کوئی اعلیٰ تعلیمی پس منظر نہیں رکھتا تھا۔ لیکن جب اس نے اپنے امیرانہ پس منظر کو گالیاں دیں تو وہ ان سب کو بہت پسند آیا۔

شہباز کو وہ جوشیلا اور 'کرشماتی' (شہباز کا خاص لفظ) لگا تھا۔ دِکھنے میں وہ اچھا، کوتاہ قد اور چیرنے والی نگاہیں رکھنے والا شخص تھا۔ لوگوں کے ذاتی مسئلوں کے متعلق اس کے پاس وقت نہیں ہوتا تھا، مقصد ہی اس کے لیے سب کچھ تھا۔ یہ ایک اور رشتہ تھا جو کہ شہباز کے لیے بُری طرح سے ختم ہو گیا۔ یہ ساؤتھ افریقی جو شہباز کو متاثر کیے ہوئے تھا، اب نفسیاتی مریضوں جیسا بن گیا تھا۔ 25 سال بعد جب اس کے لیے گوریلا جنگیں ختم ہوئیں اور وہ واپس افریقہ میں تھا تو اُس نے اپنے بیٹے کے قتل کی کوشش کے بعد خودکشی کر لی تھی۔ یہ مستقبل کے واقعات میں سے ایک تھا۔

1969 میں ایک دن لندن میں ساؤتھ افریقی، شہباز کے یونیورسٹی کے مارکسسٹوں پر بری طرح سے بھڑک اُٹھا۔ یہ اس کا جوش میں لانے کا ایک انداز تھا۔ پھر اس نے کہا؛ 'تم لوگ باتیں کرنا چھوڑو اور عمل کرنا شروع کرو۔ واقعی اگر تم لوگ سنجیدہ ہو تو سب کچھ چھوڑ کر بلوچستان کو پاکستان میں انقلاب کا گڑھ بنا دو'۔

وہ ایک ایسے انقلاب کا طلب گار تھا جو قومیتوں کے درمیان سے نکلا ہو، جس کا اہم مقصد وہاں کی تمام قومیتوں کو آپس میں جوڑنا تھا۔ ساؤتھ افریقی بہت حوصلہ مند تھا۔ اس کا ایک ہی مقصد تھا؛ انقلاب۔ اس نے کہا کہ میں لِن پیاؤ، جو کہ چینی انقلاب کے بانی ماؤ کے دستِ راست تھے، کے بتائے ہوئے راستے پر چل رہا ہوں۔ لِن پیاؤ کہتے ہیں؛ 'دیہی علاقوں سے ہی شہروں پر چھایا جا سکتا ہے؛ وہیں سے ہی شہروں کے خلاف گوریلا لڑائی شروع کی جا سکتی ہے، جہاں پر ریاست کا غلبہ ہوتا ہے'۔

ساؤتھ افریقی کی منزل مقصود سے وہ سب پُر تعظیم خوف رکھتے تھے۔ ارجنٹینا، کیوبا، اور بولیویا کا چے گویرا، فرانسیسی ویسٹ انڈیز کا فرانزفینن، افریقی کانگریس، اور اب لِن پیاؤ۔ شہباز کے سٹڈی گروپ کو لگ رہا تھا کہ دیر سے سہی مگر آخر وہ انقلاب کی جانب گامزن ہو ہی گئے۔ ان تمام عظیم اور تجربہ کار انقلابی قوتوں نے ان سے مل کر اور الگ رہ کر غیر مفتوحہ لڑائی کے لیے کام شروع کیا۔ وہ سب بلوچستان اور وہاں پر گوریلا لڑائی کے خواب دیکھنے لگے۔

اگلے ہی سال شہباز گریجویٹ ہو گیا۔ اس کے بعد اپنے والدین کو اس نے بتایا کہ وہ یوگوسلاویہ کے ایک فلمی سکول میں جا رہا ہے۔ وہ خفیہ طور سے واپس کراچی آیا۔ وہاں پر ایک رات گزارنے کے بعد ریل گاڑی اور بس کے ذریعے وہ بلوچستان کے ایک چھوٹے قصبے میں پہنچ گیا۔ وہاں اس کو ایک قبائلی بلوچ لینے آیا اور اس کو پہاڑوں پر ایک ٹریننگ کیمپ میں لے گیا۔ وہ ساؤتھ افریقی وہیں پر تھا۔ لندن گروپ کے کچھ اور لوگ بھی وہاں پر موجود تھے۔

بلوچستان کا یہ علاقہ ایران کی طرح ریتیلی زمین، کُھلی چٹانوں، سخت گرمی اور قلیل مقدار میں پانی اور سبزیوں پر مشتمل خطہ تھا۔ یہیں شہباز کو 10 سال گزارنے تھے۔ شروع کے 3 سالوں میں شہباز اور دوسرے لوگوں کو زبان سیکھنی تھی اور معاشرتی فلاح و بہبود کے کام شروع کرنے تھے۔

لیکن میں نے محسوس کیا کہ داستان بہت تیزی کے ساتھ اختتام کو پہنچ گئی۔ جب میں نے غور کیا تو مجھے محسوس ہوا کہ بہت سی چیزیں چھوٹ گئی ہیں۔ میں نے شہباز کو فون کیا، اور پھر میں ان کے پاس گیا۔ میری دوبارہ آمد سے اس کو کوئی پریشانی نہیں ہوئی تھی۔ میں بلوچستان میں گزرے شروع کے دنوں کے متعلق مزید سننا چاہتا تھا۔ خاص کر پہلے دن کے متعلق میں مزید سننا چاہتا تھا۔

شہباز نے بتایا، 'میں کراچی سے ٹرین پر بیٹھا۔ دوسری جانب پلیٹ فارم پر دو قبائلی آدمی مجھے لینے آئے۔ وہ قبائلی کم اور شہری زیادہ نظر آ رہے تھے۔ ہم نے 10 میل بس میں سفر کیا۔ بس سے اُتر کر دو دن تک پیدل چلتے رہے۔ میری زندگی کا یہ پہلا موقع تھا کہ میں پہاڑوں پر پیدل چل رہا تھا۔ یہ بہت سخت اور پتھریلی زمین تھی۔ میں شلوار قمیص اور جوتیاں پہنے ہوئے تھا اور سر پر پگڑی بندھی ہوئی تھی جس کا میں بالکل عادی نہیں تھا۔ میرے ہاتھوں میں ایک بیگ تھا جو میں کبھی لے کر نہیں چلتا تھا۔ راستے میں ہم نے سوکھی روٹیاں پکا کر کھائیں، اور میں نے زندگی میں پہلی دفعہ کُھلے آسمان تلے سو کر رات گزاری تھی۔ یہ گرمیوں کے دن تھے۔ ہم ننگے زمین پر لیٹ گئے، خستگی سے حالت بُری تھی۔ میرے جسم پر چھالے پڑ گئے تھے۔ میں بہت درد میں تھا، میرا پورا جسم درد سے چُور چُور ہو گیا تھا۔ جب میں کیمپ پہنچا تو خستگی سے نڈھال ہو چکا تھا۔

پانچ دن پہلے میں انگلینڈ میں یونیورسٹی میں تھا اور اب اچانک کیمپ میں 30 یا 40 قبائلیوں کے درمیان بیٹھا تھا، جو ہتھیاروں سے لیس تھے، اور میری سمجھ میں بالکل نہ آنے والی زبان بول رہے تھے۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ میں جنگی دیوتاؤں کے بیچ آ گیا تھا۔ اور ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے میں فلمی دنیا میں بیٹھا ہوا ہوں۔ پہلی رات کو مجھے ایک بندوق دے کر سنتری کی ڈیوٹی پر کھڑا کیا گیا۔ میرے آنے کا استقبال انہوں نے ایک بکری ذبح کر کے میری دعوت سے کیا۔ اس رات ہم نے کافی گوشت اور چربی کھائی۔ گوشت بہت ہی زیادہ قوی تھا جس سے میرا پیٹ خراب ہو گیا تھا۔ لیٹرین کے لیے جھاڑیوں میں جانا پڑتا تھا۔ ابتدا میں میرے لیے یہ بھی مشکل اور پریشانی کا باعث بنا تھا'۔

تورگنیف کا مطالعہ اسے بلوچستان میں ایسے حالات کے لیے تو آمادہ نہ کرتا، لیکن ایک انقلابی کی طرح ایسے جنگجوؤں سے ملنے پر تخیلی طور پر ضرور آمادہ کر سکتا تھا۔

جہاں شہباز پہنچا تھا وہ صرف ایک ٹریننگ کیمپ ہی تھا۔ اب تک کوئی جنگ نہیں ہو رہی تھی، ٹریننگ کے 3 سال بعد ہی یہ شروع ہونی تھی۔ اس خطہ کا لیڈر، شہباز کا فیلڈ کمانڈر ایک بلوچ قبائلی سربراہ تھا۔ بلوچوں میں قبیلے ہوتے تھے۔ قبیلوں کے سردار، مختلف قبیلوں اور مختلف سرداروں کے ایک دوسرے کا حریف ہونے کے باعث شہباز اور دوسرے باہر کے لوگوں کو صورت حال کا جائزہ لینے میں کافی مشکلات درپیش آتی تھیں۔ اس کیمپ میں پانچ افراد باہر سے آئے ہوئے تھے۔ تین اور افراد مالیات اور خور و نوش کی اشیا کے بندوبست کیلئے شہروں میں مقیم تھے۔

شہباز اور دیگر شروع کے تین سالوں میں تیاری کے مراحل میں تھے، (تیاری کے دوران انہیں مختلف تکنیکی مراحل کی تربیت دی جاتی تھی۔ ان مراحل سے گزر کر ہی وہ گوریلا کہلائے جا سکتے تھے، فیلڈ میں وارد نئے گوریلوں کو بلوچستان کی وسعت سے آگاہ کیا جاتا تھا)۔ تربیت کے تین سال میں وہ پُختہ کار ہو گئے تھے۔ انہوں نے زبان سیکھ کر قبائلیوں کیلئے سماجی خدمات کے کام شروع کر دیے تھے۔ یہ قبائلی خانہ بدوش تھے۔ قبائلیوں کی ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقلی شہباز کے لیے ایک تکلیف دہ زندگی تھی۔ کھانے کے لیے سوکھی روٹی اور سونے کے لیے زمین پر چادر بچھا کر لیٹنا پڑتا تھا۔ گرمیوں کے دنوں میں وہ آسمان تلے مچھر دانی باندھ کر سوتے تھے اور سردیوں میں خیموں کو پتھروں سے باندھ کر سو جاتے تھے۔ باہر سے آنے والے لوگ سلیپنگ بیگ میں سوتے تھے۔ شہباز کے پاس ایک ریڈیو، ایک ٹائپ رائٹر، اور متعدد کتابیں تھیں۔ وہ اور دیگر اپنی کتابیں خیموں میں رکھتے تھے۔ ایک جکہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے وقت وہ صرف دو کتابیں اپنے پاس رکھ سکتے تھے۔

زندگی اگرچہ سخت تھی لیکن شہباز اور اس کے دوستوں نے تمام مراحل خوش اسلوبی سے گزار لیے تھے۔ وہ خانہ بدوشوں کے ہمراہ رہ رہے تھے۔ انگلینڈ میں رہ کر جب وہ انقلاب کی بات کرتے تھے تو وہ مزدوروں اور کسانوں کی بات کرتے تھے جبکہ یہ بلوچ یقینی طور پر مزدور تھے اور نا ہی پنجاب کے ان ہاریوں جیسے تھے جن سے شہباز واقف تھا۔ یہ خانہ بدوش تھے جو ماڈرن دنیا کی حدود سے ہنوز آزاد تھے (یعنی وہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے ظلم سے بالکل نا آشنا تھے)۔ اس لیے شہباز نے ان کو پہلی بار جنگی دیوتا تصور کیا تھا۔ لیکن اپنے نظریہ کے مطابق اس نے ویسا ہی سوچا تھا جیسے ماؤ نے کہا تھا کہ کسان ایک کورا کاغذ ہوتا ہے اس پر جو چاہے تحریر کیا جا سکتا ہے۔ وہ یہی سمجھ رہا تھا کہ ان خانہ بدوشوں کے ذہنوں میں اپنا نظریہ تھونپا جائے؛ لیکن ایک ذہین اور دیانتدار فرد ہونے کے باعث، اس نے یہ بھی سوچا کہ ایک انقلابی ہو کر ایسا کرنا غلط بلکہ ظلم ہو گا کہ ان کو جس طرح مرضی چاہے بنا لو۔ وہ جانتا تھا کہ ایک انقلابی کو اس طرح کا کوئی تاثر قبول نہیں کرنا چاہیے۔

20 سال بعد وہ معافی مانگ رہا تھا۔ اس نے کہا؛ 'اس وقت بالکل ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آپ ایک قوم کی زندگی کو تبدیل کرنے میں تقریباً کامیاب ہو چکے ہیں'۔

جاری ہے۔۔۔

وی ایس نائپال معروف ادیب ہیں جنہیں 2001 میں ادب کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔