عدلیہ کےحکومت بارے اچانک ریمارکس؟ کیا نظام لپیٹنے کا فیصلہ کرلیا گیا ؟

عدلیہ کےحکومت بارے اچانک ریمارکس؟ کیا نظام لپیٹنے کا فیصلہ کرلیا گیا ؟


موجودہ سیٹ اپ سیاسی بساط پر " اپنے" طور پر چلی جانے والی تازہ ترین چالوں میں سے ابھی ایک چال ہی کا " منہ توڑ " جواب دے پایا تھا کہ ملکی عدلیہ،بالخصُوص عدلیہ کے موجودہ سربراہ کے پہلے سوؤ موٹو نوٹس کیس کی سماعت نے آغاز ہی میں اقتدار کے ایوانوں میں بھونچال پیدا کر دیا جس کے رد عمل میں ریاست کے ایک اہم ادارے کے مبینہ تجاوز کے خلاف سیاسی قوتوں میں اتفاق رائے پیدا ہوتا نظر آرہا ہے۔


اسی اثنا میں ایک دوسری مگر سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ، مسلم لیگ (ن) کی طرف سے حکمران جماعت پی ٹی آئی میں دراڑ ڈالنے کی اس وقت کوشش کی گئی جب 3 روز قبل " نوُن " لیگ پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ نے صوبے میں پی ٹی آئی کے ایک اہم ناراض رہنماء علیم خان سے ملاقات کی اور پی ٹی آئی کے 2 ایم این ایز کی اپنے پارٹی صدر اور اپوزیشن لیڈر شہبازشریف سے خُفیہ ملاقات کروائی البتہ علیم خان کے حوالے سے کی جانے والی attempt کا تو سیٹ اپ کی طرف سے اگلے 48 گھنٹوں میں اس وقت فوری جواب دے دیا گیا جب عبدُالعلیم خان کو " راتوں رات " پھر سے صوبائی وزیر بنا دیا گیا جو کہ پی ٹی آئی کے چند باوسائل رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں اور " کپتان " کے دوسرا اہم ATM رہنے کی شہرت بھی رکھتے ہیں۔


اس سارے تناظر میں سب سے اہم اقدام عدلیہ کے موجودہ سربراہ کی طرف سے اپنا پہلا سوؤ موٹو نوٹس ، اور وہ بھی کرونا وائرس سے پیدا شدہ میڈیکل ایمرجنسی کے معاملے پر لیا جانا ہے ۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے 5 رکنی فل بنچ میں اس کیس کی فوری سماعت اور پھر آغاز ہی میں عزت مآب چیف جسٹس آف پاکستان کے اہم ریمارکس کی صورت میں حکومت پر اس کی کارکردگی کے حوالے سے تابڑ توڑ حملوں کو سنجیدہ سیاسی حلقوں میں معنی خیز قرار دیا جارہا ہے۔ جن کے فوری اثرات کے طور پر علماء اور تاجروں سمیت معاشرے کے 2 اہم طبقوں کی طرف سے ملک میں جاری " بند و بست " سے بغاوت کا اعلان سامنے آگیا ہے۔


مُعزز چیف جسٹس نے یہاں تک کہہ دیا کہ انہیں اگرچہ وزیر اعظم کی دیانت داری پر کوئی شبہ نہیں لیکن 49 رکنی بھاری کابینہ رکھنے سے لگتا ہے وزیراعظم ہر معاملے سے خود لاتعلق ہیں۔ اور یہ کہ کابینہ میں اچھے لوگ بھی ہیں مگر کچھ گندے انڈے بھی ہیں ، سنجیدہ حلقوں کی نظر میں وفاقی حکومت کے ساتھ ساتھ سندھ حکومت کو بھی عدلیہ کی طرف سے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا جانا دراصل سسٹم ، بالخصوص سیاسی کلاس پر عدم اعتماد کا کھلا اظہار ھے جس پر اقتدار کے ایوانوں میں تو بھونچال آنا ہی تھا ، اس پر سندھ میں برسر اقتدار اپوزیشن جماعت ، پیپلزپارٹی نے بھی لیگل fertinity ہی سے تعلق رکھنے والے اپنے ایک قدآور رہنماء بیرسٹر اعتزاز احسن کی زبان سے شدید ردعمل کا اظہار کر دیا ہے .


سنجیدہ حلقوں کے نزدیک ریاست کے ایک اہم ستون ، عدلیہ کی طرف سے ان " تابڑ توڑ " ریمارکس اور نہایت اہم آبزرویشن سے عوامی سطح پر یہ تاثر قائم ہوا ہے کہ موجودہ بند و بست ، بالخصُوص سیاستدان اس بدترین قومی بحران کی صورتحال میں ڈلیور نہیں کر پارہے ، خاص کر فاضل بنچ کے ان  ریمارکس کو معنی خیز اور اہم قرار دیا جارہا ہے جن میں کہا گیا " یہی صورتحال رہی تو وقت آئے گا جب لوگوں کے جتھے ان پر حملہ کر دیں گے " ۔


ان ریمارکس کے بعد اگلے ہی 24 گھنٹے کے اندر جہاں ایک طرفمولانا تقی عثمانی اور مفتی منیب الرحمن جیسے ملک کے 2 بڑے مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے جید علماء کرام نے حکومتی پالیسی کی پابندی نہ کرنے کا اعلان کردیا تو وہیں بیک وقت 3 صوبوں کے تاجروں نے علم بغاوت بلند کرتے ہوئے کہہ دیا ہم تو دکانیں کھولنے لگے ہیں کوئی روکنے آئے گا تو گرفتاریاں دیں گے۔  مبصرین اسے دوسری طرف مروجہ پارلیمانی نظام میں ریاست کے ایک اھم ستون انتظامیہ یعنی حکومت کے دائرہ کار میں مداخلت یا دوسرے لفظوں میں ٹرائیکا کے ایک رکن کی طرف سے تجاوز سے تعبیر کرتے ہوئے اس حوالے سے بھی دیکھا جارہا ہے کہ عدلیہ کے یہ محسوسات کہیں یہ موجودہ حکومت بارے دیگر اہم ریاستی اداروں کے تحفظات کی عکاسی یا ترجمانی تو نہیں کر رہے۔ اور یہ کہ کہیں یہ عدلیہ کے ذریعے موجودہ سیاسی جمہوری نظام کو اسی طرح لپیٹ دینے کی راہ ہموار کرنے کی شروعات تو نہیں ہیں جس طرح گزشتہ وزیر اعظم کو گھر بھیج دیا گیا تھا .