سپریم کورٹ نے ایک طویل عرصہ سے قانونی مراحل طے کرتے وراثتی جائداد کے ایک کیس کا فیصلہ سنایا ہے کہنے کو یہ کیس جائداد سے متعلق ایک کیس ہو سکتا تھا جو روائتی طور پر عدالتی تاخیر اور محکمہ پٹوار کی بے رحمی کی مثالوں میں ایک اور اضافہ ہوتا ۔ لیکن یہ کیس کچھ منفرد زاویئے رکھتا ہے جن میں سے ایک تو یہ کہ اس کیس کو شروع کرنے والی سائلہ کی موت کو بھی دو دہائیاں گزر چکی ہیں۔
ڈان اخبار کے مطابق راولپنڈی کی رہائشی خاتون منیر سلطان نے 1998 میں راولپنڈی کی عدالت میں اپنے وراثتی حق کے حوالے سے ایک درخواست دائر کی جس میں کہا گیا تھا کہ اس کے والد کی جانب سے ملنے والی جائداد پر اسکی سوتیلی والدہ اور بھائی یہ کہہ کر قاض ہو چکے ہیں کہ یہ جائیداد انکے والد نے انکو زندگی میں ہی تحفہ کردی تھی۔ انہوں نے استدعا کی کہ اسلامی قانون کے مطابق ایسا کرنا غیر شرعی و غیر قانونی ہے اور انہیں ان کا حق دلوایا جائے۔
اس کیس میں لاہور ہائیکورٹ نے بھی انکے حق میں 2007 میں فیصلہ دے دیا تھا جسے دوسرے فریق نے سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔ یہ کیس چلتا رہا اور اب اسکا فیصلہ سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کیا جس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بھی شامل تھے۔ اس حوالے سے یہ اہم ہے کہ اس دوران سائلہ منیر سلطان وفات پاگئیں۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس کیس کے فیصلے میں محکمہ لینڈ ریکارڈ کے بارے میں اہم آبزرویشنز لکھیں۔ انہوں نے کہا کہ محکمہ لینڈ ریکارڈ حکومت کو ریوینیو اکھٹا کرکے دینے والا محکمہ ہوتا ہے۔ اسکے ہاتھوں عوام کا بد ترین استحصال ہوتا ہے۔ ایسی لکھائی کی جاتی ہے جو پڑھے جانے کے قابل نہیں ہوتی۔ ڈیٹا اینٹری کے وقت کاغذ پر کالم انتہائی تنگ ہوتے ہیں جس سے معلومات گڈ مڈ ہو جاتی ہیں۔ کاغذ کی کوالٹی بہت ہی ناقص ہے۔ ریکارڈ اکثر آگ، پانی اور ہنگاموں کی نظر ہوجاتا ہے۔
اس تمام تر آبزرویشن کے بعد فیصلے میں لکھا گیا کہ محکمہ پٹوار اس صورتحال کو بے رحم کرپشن اور استحصال کے لیئے استعمال کرتا ہے۔ جس سے شہری ایسی قانونی جنگ میں پھنستے ہیں جو کئی کئی دہائیوں حتیٰ کہ زندگیوں پر محیط ہوتے ہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ اگر محکمہ پٹوار اپنا کام ٹھیک سے کرتا ہوتا تو یہ معاملات خوامخواہ عدالتوں پر بوجھ نہ بڑھاتے۔
عدالت نے مشاہدہ دیا کہ اس صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیئے کسی حکومت نے کچھ نہیں کیا۔
عدات نے لکھا کہ بطور نظام اکیسویں صدی میں بھی اس محکمے کی جانب سے جدید ٹیکنالوجی جیسے کہ تھمپ امپریشن سمیت دیگر ٹیکنالوجی ہے اس کے استعمال کو باقاعدہ رد کیا جاتا ہے۔