ڈھلتی عمر کے مردوں میں پراسٹیٹ کے مسائل کیوں پیدا ہوتے ہیں؟

پراسٹیٹ کا سائز بڑھتے بڑھتے ایک وقت آتا ہے کہ پیشاب آنا بند ہو جاتا ہے۔ کچھ مریضوں میں پیشاب پوری طرح بند نہیں ہوتا لیکن مسلسل دباؤ سے گردوں کو ناقابل تلافی نقصان ہونے لگتا ہے۔ بعض کو بار بار انفیکشن ہو جاتا ہے۔ ان تینوں اقسام کے مریضوں کو آپریشن درکار ہوتا ہے۔

ڈھلتی عمر کے مردوں میں پراسٹیٹ کے مسائل کیوں پیدا ہوتے ہیں؟

ہم نے سندھ انسٹیٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن میں شعبہ پراسٹیٹ کے ٹیم لیڈر ایسوسی ایٹ پروفیسر عبدالخالق سے اس موضوع پر کچھ سوالات پوچھے۔

سوال: کیا سبب ہے کہ جوانی کا سورج نصف النہار پر ہوتا ہے کہ مردوں کو پیشاب کی تکلیفیں لاحق ہو جاتی ہیں؟

عبدالخالق: جنسی اور جسمانی طور پر بہت فعال اصحاب کی اکثریت جونہی اپنی زندگی کی 50 بہاریں پوری کرتی ہے ان میں پیشاب کے معمولات میں کچھ نئی علامات نمودار ہو جاتی ہیں۔ انہیں بار بار پیشاب آنے لگتا ہے، خاص طور پر راتیں تو شب فرقت کی طرح بے آرام اور بے چین گزرتی ہیں۔ اچانک بڑے زور کی حاجت ہوتی ہے اور بیت الخلا پہنچنے سے پہلے ہی پیشاب خطا ہو جاتا ہے۔ کبھی معلوم ہوتا ہے کہ پیشاب اب نکلا کہ تب نکلا لیکن ٹائلٹ سیٹ پر بیٹھے بیٹھے تادیر انتظار کر کے بھی کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ کبھی قطرہ قطرہ پیشاب کشید ہوتا ہے اور کبھی چھڑکاؤ روکے نہیں رکتا۔ میر درد نے کیا خوب کہا تھا؛

شمع کی مانند ہم اس بزم میں

چشمِ نم آئے تھے دامن تر چلے

مشہور نغمہ نگار قتیل شفائی کی یہ غزل تو گویا ان مریضوں کی مایوسی اور اداسی کی الم نگاری ہے؛

ہمیں تو آج کی شب پَو پھٹے تک جاگنا ہو گا

یہی قسمت ہماری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

ہمیں بھی نیند آ جائے گی ہم بھی سو ہی جائیں گے

ابھی کچھ بے قراری ہے، ستارو تم تو سو جاؤ

ان میں سے کچھ علامات تو شوگر یعنی ذیابیطس کی بھی ہو سکتی ہیں۔ لیکن اکثر و بیشتر مثانے کی کمزوری کا سبب اس غدود کا بڑھ جانا ہوتا ہے جسے پراسٹیٹ کہتے ہیں۔ اگر غدود کی یہ بڑھوتری کینسر نہیں تو اسے بی پی ایچ یا بینائن پراسٹیٹک ہائپر پلازیا کا نام دیتے ہیں جو ایک بہت ہی عام عارضہ ہے۔

پراسٹیٹ کیا ہوتا ہے اور انسانی جسم میں اس کا کیا کام ہے؟

گردے ایک چھلنی کی طرح خون کو چھان کر پیشاب بناتے ہیں۔ یہ پیشاب یوریٹر نامی دو نالیوں سے ہوتا ہوا مثانے میں جمع ہو جاتا ہے جہاں سے ایک نالی (یوریتھرا) اسے باہر کی طرف لے جاتی ہے۔ عام بالغ شخص کے مثانے میں ایک سے دو پیالے پیشاب رکھنے کی گنجائش ہوتی ہے۔ جب کافی پیشاب جمع ہو جاتا ہے تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ اب باتھ روم کا چکر لگا لینا چاہیے۔ پراسٹیٹ غدود مثانے کے نچلے حصے میں یوریتھرا کے گرد قیام پذیر ہوتا ہے۔ مردانہ تولیدی نظام میں پراسٹیٹ خاص اہمیت کا حامل ہے۔ یہ ایک لیس دار رطوبت پیدا کرتا ہے جو خُصیوں سے چلے آنے والے نطفوں کے ساتھ مل کر مادہ منویہ بناتا ہے۔ ہماری نسل بڑھنے میں اس غدود کا کردار مسلمہ ہے۔ بلوغت کی عمر تک یہ 30 گرام وزن کے سنگھاڑے کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ لیکن پھر عمر کے ساتھ ساتھ اس کا وزن اور حجم بڑھتا جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ یہ غیر قانونی تجاوزات کی طرح پیشاب کی نالی کو جکڑ کر مسدود کرنے لگتا ہے۔

آخر پراسٹیٹ کے بڑھنے کی وجہ کیا ہوتی ہے؟ کیا غذا کا کوئی عمل دخل ہے؟

یہ سارا معاملہ جنسی ہارمون ٹیسٹوسٹیرون اور ایسٹروجن میں توازن کا ہوتا ہے جو 45، 50 سال کی عمر میں کسی طرح تبدیل ہو جاتا ہے جس سے پراسٹیٹ قد و قامت میں بڑھ جاتا ہے۔ گو کسی ایک عامل کو مورد الزام نہیں ٹھہرا سکتے لیکن شواہد ہیں کہ حیوانی چربی یا دودھ سے بھرپور غذا، آرام دہ اور غیر فعال طرز زندگی اور مغربی بودوباش سے پراسٹیٹ کو بڑھنے میں مدد ملتی ہے۔

علامات ظاہر ہونے پر مریض کو کون سے ٹیسٹ کروانے چاہئیں؟

50 سال اور اس سے اوپر کے تمام مرد حضرات کے لئے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ اپنے ذاتی معالج یا کسی مستند یورولوجسٹ سے پراسٹیٹ کی صحت کا معائنہ کروا لیں۔ طے ہو جانا چاہیے کہ ان علامات کی وجہ اگر پراسٹیٹ ہے تو کہیں وہ کینسر زدہ تو نہیں۔ دوسرے پیشاب کی دھار کا تجزیہ کرنا ضروری ہے اور خون میں خاص ٹیسٹ پی ایس اے کو جانچنا بہت لازمی ہے۔

پراسٹیٹ کا کینسر کتنا عام ہے اور اس کی تصدیق کیونکر کی جاتی ہے؟

یہ بالکل ضروری نہیں کہ پیشاب کی مشکلات میں مبتلا ہر شخص کینسر کا شکار ہو۔ پراسٹیٹ کینسر کی وجوہات غیر واضح ہیں اور ان میں جینیاتی وراثت کا عنصر غالب ہے۔ آبادی میں پراسٹیٹ کینسر کی شناخت کی حکمت عملی دو اقسام کی ہیں۔ مغربی ممالک میں 50 سے اوپر کے ہر مرد کا پی ایس اے سالانہ چیک کیا جاتا ہے۔ دوسرا ہمارا یعنی ایس آئی یو ٹی کا پروٹوکول ہے جس کے تحت پیشاب کی علامات کے ساتھ آنے والے ہر مریض کا پی ایس اے ٹیسٹ کرتے ہیں۔ پی ایس اے کا نتیجہ آنے اور پراسٹیٹ کے طبعی معائنہ کے بعد ضروری امیجنگ کی جاتی ہے۔ اس غدود کی بائیوپسی کر کے ماہرین خوردبینی جائزہ لیتے ہیں۔ اگر بائیوپسی میں کینسر کی تشخیص ہو تو وقت ضائع کئے بغیر ہڈیوں کی سکیننگ کر کے دیکھا جاتا ہے کہ کینسر صرف پراسٹیٹ تک محدود ہے یا آگے ہڈیوں میں سرایت کر چکا ہے۔

مریضوں کو کیا احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہئیں؟

تمام افراد کو متوازن، فعال اور بامقصد زندگی گزارنی چاہیے۔ پیشاب بار بار آئے یا صبر کرنا دشوار ہو جائے، ساتھ میں ہڈیوں میں درد اور وزن کم ہونے جیسی شکایات ہوں تو فی الفور اپنے طبیب کو مطلع کرنا چاہیے۔

کیا ادویات سے بڑھے ہوئے پراسٹیٹ کو افاقہ ہو جاتا ہے؟

پراسٹیٹ بڑھنے کے ابتدائی مراحل میں ایسی دوائیں دی جاتی ہیں جن سے مثانہ کے اکڑاؤ میں کمی آتی ہے اور یہ شل ہو جاتا ہے جس سے مریض بہت بہتر محسوس کرتے ہیں لیکن پراسٹیٹ کے سائز پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔

کن حالات میں آپریشن ضروری ہوتا ہے؟

پراسٹیٹ کا سائز بڑھتے بڑھتے ایک وقت آتا ہے کہ پیشاب بند ہو جاتا ہے۔ ایسے مریضوں کو پیشاب کی نلکی (کیتھیٹر) لگانی پڑتی ہے۔ کچھ مریضوں میں پیشاب پوری طرح بند نہیں ہوتا لیکن مسلسل دباؤ سے گردوں کو ناقابل تلافی نقصان ہونے لگتا ہے۔ بعض کو بار بار پیشاب کی نالی میں انفیکشن ہو جاتا ہے۔ ان تینوں اقسام کے مریضوں کو آپریشن درکار ہوتا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق تقریباً 40 فیصد مریضوں کے لئے آپریشن ناگزیر ہو جاتا ہے۔

ایس آئی یو ٹی میں پراسٹیٹ کے مریضوں کے لئے کیا سہولیات موجود ہیں؟

ایس آئی یو ٹی پاکستان میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا مرکز علاج ہے۔ ہمارے یہاں باقاعدگی سے پراسٹیٹ کلینک منعقد ہوتے ہیں جہاں پراسٹیٹ کے ماہرین ہر ہفتے 450 سے 500 مریضوں کو دیکھتے ہیں۔ ان میں سے 20 فیصد نئے مریض ہوتے ہیں۔

ان مریضوں کے تمام ٹیسٹ جن میں خون کے ٹیسٹ اور جدید ترین تکنیک سے پیشاب کے بہاؤ کا مطالعہ کیا جاتا ہے، ان کی امیجنگ جس میں سی ٹی سکین، ایم آر آئی، ریڈیو نیوکلائیڈ، پی ایس ایم اے، پیٹ سکین سب شامل ہیں کئے جاتے ہیں، پراسٹیٹ کی مختلف الاقسام بائیوپسی کی جاتی ہیں اور مریضوں کی کینسر اور غیر کینسر یعنی بینائن مرض میں درجہ بندی کر لی جاتی ہے۔ کینسر کے مریضوں کو آپریشن اور آنکالوجی سمیت ہر سہولت فراہم کی جاتی ہے جبکہ غیر کینسر بیماری میں اگر پراسٹیٹ کا سائز 90 گرام سے کم ہو تو ہم پیشاب کے راستے سے سرجری ٹی یو آر پی کرتے ہیں جو دنیا میں گولڈ سٹینڈرڈ ہے۔ ہم ہر ماہ اس قسم کے 50 سے 60 آپریشن کرتے ہیں۔ اس سے بڑے سائز کے پراسٹیٹ کو روبوٹ کی مدد سے سادہ قطع پراسٹیٹ یا ناف کے نیچے چیرہ دے کر اوپن قطع پراسٹیٹ کرتے ہیں۔

مریض کی آمد اور آپریشن کے بعد اسپتال سے ڈسچارج ہونے تک کا بل کتنا بنتا ہے؟ ٹی یو آر پی اور روبوٹک سرجری کی فیس میں کتنا فرق ہے؟

(ہنستے ہوئے) جناب ایس آئی یو ٹی میں نہ کوئی کیش کاؤنٹر ہے نہ ہی کوئی بلنگ ڈیپارٹمنٹ جہاں مریضوں سے حساب کتاب کیا جائے۔

پھر تو آپ دیگر نامی گرامی خیراتی اسپتالوں کی طرح علاج کرنے سے پہلے مریض سے ان کے یوٹیلیٹی بل منگوا کر دیکھتے ہوں گے اور اپنا عملہ بھیج کر ہمسایوں اور رشتہ داروں سے مریض کی مالی حالت کی تفتیش ضرور کراتے ہوں گے؟

ایس آئی یو ٹی کا نظام اس فلسفہ پر قائم کیا گیا ہے کہ صحت کی سہولیات تک رسائی ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ ہم انسانوں میں کسی بھی قسم کے امتیاز یا تفریق کے قائل نہیں لہٰذا ہمارے یہاں فرد کی مالی یا سماجی حیثیت کی چھان بین کا کوئی تصور نہیں۔