دیت اس مال کو کہتے ہیں جو جنایت کرنے والا مظلوم کو یا اس کے وارث کو جنایت کے سبب ادا کرتا ہے (عام زبان میں اسے خون کا صلہ یا قیمت کہا جا سکتا ہے) قدیم معاشروں میں جب خون کا بدلہ ممکن نہیں ہوتا تھا تو قاتل سے مقتول کے ورثا کو تاوان کی شکل میں کچھ مال نقد یا مال جنس دلا دیا جاتا تھا۔ البتہ بنی اسرائیل (یہود) میں خون بہا کا دستور نہیں تھا، لیکن جیسے اور بہت سے معاملات میں اسلام، یہودیت کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے اس لئے ظاہری اعتبار سے دیت یا قصاص کی روایت اسلام نے جائز قرار دی ہے۔
دیت کے وجود کی دلیل کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اجماع اُمت ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
سورة النساء آیت نمبر 92: وَمَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطَـًٔا فَتَحريرُ رَقَبَةٍ مُؤمِنَةٍ وَدِيَةٌ مُسَلَّمَةٌ إِلىٰ أَهلِهِ
"جوشخص کسی مسلمان کو بلا قصد مارڈالے،اس پر ایک مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور مقتول کے عزیزوں کو خون بہا پہنچانا ہے۔۔۔"
حدیث شریف میں ہے:
"وَمَن قُتِلَ لَهُ قتيلٌ فَهُوَ بِخَيْرِ النَّظَرَيْنِ: إِمَّا أَنْ يُقْتَلَ، وَإِمَّا أنَّ يُفْدَى"
"جس کا کوئی آدمی قتل کردیا گیا اسے دو صورتوں میں سے کوئی ایک صورت اختیار کرنے کاحق ہے کہ وہ دیت قبول کرلے یا قاتل سے انتقام لے۔"
حضرت عباس نے قرآن حکیم کی آیت ’’یا ایھا الذین آمنو کتب علیکم القصاص فی القتلیٰ الخ ‘‘(سورۃ بقرہ آیت 188) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ عفو یہ ہے کہ قتل عمد میں بھی خون بہا قبول کر لیا جائے۔ اتباع بالمعروف سے مراد یہ ہے کہ دستور کے مطابق طلب کرے اور نہایت اچھے طریقے سے ادا کرے۔ (صحیح بخاری.کتاب الدریات)
قطع و قتل کی چار صورتوں میں دیت واجب ہوتی ہے۔
1۔ قتل خطا
2۔ شبہ عمد
3۔ قتل بالسبب
4۔ قائم مقام خطا
ان سب صورتوں میں دیت عصبات پر واجب ہوتی ہے۔ اسلام کے مطابق دیت کی مقدار درج ذیل ہے، ایک سو اونٹ، ایک ہزار دینار، دس ہزار درہم اور دیگر مختلف روایات موجود ہیں۔ قاتل کو اختیار ہے کہ ان تینوں میں سے جو چاہے ادا کرے۔ اونٹ سب ایک عمر کے واجب نہیں ہوں گے بلکہ مختلف العمر لازم آئیں گے۔ جس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔
قتل خطاً کی صورت میں پانچ قسم کے اونٹ دیے جائیں گے۔ بیس بنت مخاض یعنی اونٹ کا وہ مادہ بچہ جو دوسرے سال میں داخل ہوچکا ہو اور بیس ابن مخاض یعنی اونٹ کے وہ نر بچے جو دوسرے سال میں داخل ہوچکے ہوں اور بیس بنت لبون یعنی اونٹ کا وہ مادہ بچہ جو تیسرے سال میں داخل ہوچکا ہو اور بیس حقے یعنی اونٹ کے وہ بچے جو عمر کے چوتھے سال میں داخل ہوچکے ہوں اور بیس جذعہ یعنی وہ اونٹنی جو پانچویں سال میں داخل ہوچکی ہے۔
شبہ عمد میں، پچیس بنت مخاض اور پچیس بنت لبون اور پچیس حقے اور پچیس جذعے صرف یہ چار قسمیں دی جائیں گی۔
اسلامی قانون میں مسلم، ذمی، مستامن سب کی دیت ایک برابر ہے، مگر مسلمان خاتون اور غیر مسلم کی دیت، مسلمان مرد کی دیت کے نصف ہے۔
جہاں ہم نے دیگر معاملات میں اسلام کے مختلف بیانیہ نکالے ہیں، جیسا کہ ہمارا جہادی بیانیہ امریکہ کا محتاج ہے، 1979ء میں اس بیانیہ کو روس کے خلاف استعمال کیا گیا اور 2001ء میں نیا بیانیہ آیا جو امریکہ کی حمایت میں استعمال کیا گیا، اول الذکر میں ایک مسلک کو فروغ دیا گیا بعدالذکر میں دوسرے فرقہ کو تقویت بخشی گئی۔ یہی ہماری اشرافیہ کی پالیسی اور ترجیحات تھیں، نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے، ملک میں مرنے والے بھی مسلمان تھے، مارنے والے بھی مسلمان۔ اسی بنیاد پر ہم نے دیت کا بھی بیانیہ تشکیل دیا ہے، جس میں دیت اشرافیہ اور دیت غرباء شامل ہیں۔
دیت اشرافیہ یہ ہے کہ آپ اپنی طاقت، دولت اور رعب کے نشے میں کسی کو بھی قتل کر سکتے ہیں اور بعد میں قصاص دے کر آرام سے اپنی سزا میں تبدیلی کروا سکتے ہیں، ایسی صورت میں ریاست بھی مظلوم کی جگہ ظالم کی حمایت کرتی نظر آئے گی۔
حالیہ برسوں میں سب سے پہلے اس بیانیہ کو ریمنڈ ڈیوس کے کیس میں استعمال کیا گیا، 3 لوگوں (فہیم، فیضان، عبادالحق) کے قاتل کو دیت اور قصاص کے قانون کی مدد سے نہایت باعزت طریقہ سے نا صرف رہا کیا بلکہ استغاثہ کا بس چلتا تو اسے گارڈ آف اونر کے ساتھ رخصت کرتے۔
دوسری مرتبہ شاہ زیب قتل کیس میں نشہ میں دھت شاہ رخ جتوئی اور سراج تالپور نے اس قانون کو اپنے حق میں استعمال کیا، جب شاہ زیب اور اسکے اہل خانہ کو آسٹریلیا کی شہریت اور مال و متاع دیکر معافی نامہ پر راضی کیا گیا۔ شاہ زیب کے والد نے ٹی وی پر آکر کہا کہ جانے والا چلا گیا میرے میں اتنی ہمت نہیں کے ان طاقتور لوگوں کا مقابلہ کر سکوں لہذا بطور مدعی میں راضی نامہ دیتا ہوں۔ وہ تو ثاقب نثار صاحب نے اس کیس کا ازخود نوٹس لے لیا تو شاہ رخ اور سراج تالپور آزاد نا ہو سکے ورنہ اس وقت انھوں نے پاکستان کی پرافزا ہوا میں سانس لے رہے ہونا تھا وہ بھی فتح کا نشان بنا کر۔
اس ضمن میں تیسری مثال عدلیہ نے خود پیش کی جس میں طیبہ نامی ایک بچی جس پر جج راجہ خرم علی اور انکی اہلیہ ماہین پر لڑکی کا ہاتھ جلانے کا الزام تھا۔ انھوں نے مقدمہ کے بعد ڈرا دھمکا کر اس کے والدین سے راضی نامہ لے لیا کہ بچی کی طرف سے غلط مقدمہ درج کیا گیا ہے، جج صاحب اور انکی اہلیہ بے قصور ہیں۔
مجید خان اچکزئی صاحب نے دن دہاڑے عطاء اللہ نامی سپاہی کو زرغون روڈ پر اپنی گاڑی سے کچل دیا، سب سے پہلے انھوں نے اپنے ڈرائیور کو حاضر کیا بعد میں اب دیت و قصاص کی لاٹھی سے مدعی کو انھوں نے ہانک لیا ہے اور باعزت بری ہو گئے ہیں۔
اس کے علاوہ سانحہ ساہیوال ہمارے سامنے موجود ہے، جس کا وزیراعظم نے قطر کا دورہ مکمل کرنے پر نوٹس لینا تھا، مگر انھیں معلوم تھا کہ جیسے میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں اضافہ پر نوٹس لیتا ہوں اور گراں فروشی شروع ہو جاتی ہے اس لئے انھوں نے نوٹس نا لینے کا درست انتخاب کیا۔ کم از کم اس صورت میں ماورائے قانون قتل کی تعداد میں اضافہ ہو جانا تھا۔
حالیہ دنوں میں دیت کی مثال کشمالہ طارق کے بیٹے کی صورت میں آئی ہے اور ریاست نے ان کے حق میں سربسجود ہو کر ثابت کر دیا ہے، غریب کو اب ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح اپنی حفاظت کا انتظام خود ہی کر لینا چاہیے۔ جس طرح کسی زمانے میں اہل اردو نے کراچی میں ذاتی طور پر اسلحہ رکھنا شروع کر دیا تھا جب انکو دیوار کے ساتھ اتنا لگا دیا تھا کہ وہ سانس بھی نہیں لے پا رہے تھے۔ اس کے بعد کی صورتحال بھی ہم نے دیکھی ہے کہ پھر ریاست کو اپنی رٹ بحال کرنے کے لئے پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بڑا آپریشن کرنا پڑ گیا جبکہ یہ ریاست دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت و طاقت ہے۔
اس سلسلہ میں اشرافیہ کو بھی غرباء کی مدد کرنی چاہیے، جس طرح انھوں نے ہماری بنیادی ضروریات جن میں اشیائے خورد و نوش، تعلیم، صحت اور دیگر سہولیات کے کاروبار تشکیل دیے ہیں حفاظتی سہولیات کا کاروبار بھی تشکیل دے دیں۔ تاکہ ہم اس وہم سے نکل سکیں کہ دو نہیں ایک پاکستان جیسے خواب صرف ہم سے ووٹ حاصل کرنے کے لئے دکھائے جاتے ہیں۔