سیاست میں اداروں کا عمل دخل کیسے روکا جا سکتا ہے؟

سیاست میں اداروں کا عمل دخل کیسے روکا جا سکتا ہے؟
سیاست میں اداروں کی دخل اندازی ختم کرنے کا واحد حل یہ ہے کہ پارلیمان کو مضبوط کیا جائے۔ پارلیمان میں ہونے والے فیصلوں کی بنیاد آئین و قانون اور انصاف کے اصولوں پر ہو۔ پارلیمان کے ممبران اپنے آپ کو حقیقی عوامی خدمت گار سمجھیں اور اپنے منصب کو سمجھتے ہوئے اسے عوامی امنگوں سے ہم آہنگ کریں۔ پارلیمان کی طاقت کو شہریوں کے اندر مساوات قائم کرنے اور قومی خزانے سے مستفید ہونے والوں میں امتیازی سلوک کو ختم کرنے سے ممکن ہے۔

پارلیمان کو عظیم بنانا پڑے گا۔ پارلیمان کے ممبران کے اندر یہ احساس پیدا کرنا پڑے گا کہ وہ عوامی نمائندے ہونے کے ناطے اصل سرچشمہ طاقت عوام کو ان کا حقیقی مقام دلوا کر ہی اپنے فرائض منصبی ادا کر سکتے ہیں۔ ان کے ووٹ کے تقدس کی لاج رکھتے ہوئے اسے خالصتاً جمہوریت کی بنیادوں پر قائم نظام کے سپرد کرنا ہوگا جس میں صرف عوام کی رائے کو فوقیت دی جا رہی ہو اور ان کو ایسا ماحول مہیا کیا جائے جس میں اس نمائندگی کی دوڑ میں شامل ہونے کی شرائط تعلیم، تجربہ، کردار، اخلاص اور دل میں قوم و ملک کی اہمیت اوراس کی املاک سے ملکیت کا احساس ہو نا کہ تعلقات، مال و دولت اور ظاہری جاہ و جلال۔ جب عوام کی صحیح خدمت کر کے ان کا اعتماد حاصل ہو جائے گا تو پھر سرچشمہ طاقت عوام اپنی پارلیمان کے پیچھے کھڑے ہوں گے اور اپنی ریاست اور اس کی املاک کی حفاظت اور اہمیت کا احساس ان کو مجبور کرے گا کہ آئینی عہدوں پر بیٹھے ہوؤں کا احتساب اپنا قومی فرض سمجھیں۔

پارلیمان کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ مفاداتی سیاست سے دستبردار ہو کر اصولی سیاست کو فروغ دیا جائے۔ سیاست کوئی کاروبار نہیں، خدمت کا شعبہ ہے اور خدمت کے لئے جذبہ، شوق اور مقصد سامنے ہونا چاہئیے۔ سیاست کوئی پھولوں کی سیج بھی نہیں۔ پاکستان میں اصولی سیاست اور حکومت کے لئے طاقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تب سول بالادستی آتی ہے جس کے لئے ڈر کو اندر سے نکالنا ہو گا۔ جس دن اصولی سیاست اور جمہوریت اس ملک میں شروع ہو گی تو زبردستی خدمت کے لئے حکومت میں آنے والے بھاگیں گے اور عوام کو حکومت کے لئے پکڑ پکڑ کر اچھے کردار کے لوگ لانے پڑیں گے۔

عوام کا شعور وہ ماحول پیدا کر دے جس سے ریاستی وسائل کو استعمال کر کے من مانی کرنے اور مفادات کے حصول کی سوچ رکھنے والوں کی ٹانگیں کانپنا شروع کر دیا کریں گی۔ پھر اداروں کی سربراہی کو ایک ذمہ داری سمجھا جائے گا۔

جمہوریت کو مضبوط بنانا ہو گا جس کی بنیاد سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت کو رائج کر کے رکھنی ہو گی تا کہ سیاسی جماعتیں وہ ادارہ بن سکیں جو میرٹ کی بنیاد پر کارکنان کی تربیت کر کے صحیح قیادت دینے کے قابل بن سکیں جس میں سیاسی جماعتوں کو خاندانوں کی اماج گاہ نہیں بلکہ عوامی سرمایہ سمجھا جاتا ہو۔

تمام سیاسی جماعتوں کو باہمی اختلافات کو بھلا کر معیشت سے متعلق اکٹھے بیٹھ کر سوچنا ہو گا۔ اخراجات کو کم کر کے عام شہری کی زندگی کو پارلیمان اور سرکاری دفاتر کے اندر رائج کرنا ہو گا تا کہ عوام کا اعتماد حاصل ہو جس سے برکت بھی ہو گی اور اللہ کی مدد بھی آئے گی۔

کسی ذیلی ادارے پر انگلی اٹھانے سے پہلے اپنی صفوں سے گندے انڈے اٹھا کر باہر پھینکنا ہوں گے۔ جو سیاست دان غیر آئینی حربوں میں استعمال ہوتے ہیں ان کو قرار واقعی سزا دے کر جمہوریت پر سیاسی شب خون مارنے کے جرم کی پاداش میں ایک عبرت ناک مثال بنانا ہو گا تا کہ سب پر یہ عیاں ہو جائے کہ عوام کی خدمت کا جذبہ ہے تو پھر اس کے لئے آئینی راستہ چننا ہوگا نا کہ ریاست کے وسائل کے غیر آئینی استعمال کے بل بوتے والا راستہ۔

سیاست دانوں کے لئے ان کی بنیادی خصوصیات کو طے کرنا ہو گا کہ کون کون سی صلاحیتوں کا مالک سیاست دان بن سکتا ہے اور اس کے لئے پارلیمان کے اندر مثالیں قائم کرنا ہوں گی۔ پارلیمان اور کیبنٹ کو ایک مثالی ادارہ بنانا ہو گا۔ حکومتی فیصلے صرف اور صرف پارلیمان میں ہونے کو یقینی بنانا ہو گا۔ کابینہ کو سنجیدہ سیاست و حکومت کی روایات ڈالنے کے لئے عملی نمونے پیش کرنا ہوں گے۔ کسی بھی حکومتی وزیر، مشیر یا نمائندے کو اہم امور پر پہلے کابینہ میں معاملے کو زیر بحث لا کر اس پر متفقہ مؤقف کو جاننا ہو گا اور پھر اس پر حکومت کا پالیسی بیان پریس کانفرنس یا عوام کے سامنے لانا ہو گا۔ بولنے سے پہلے پارلیمان کے ممبر کے طور پر اپنے اور اپنے ادارے کے تقدس کو ذہن میں رکھنا ہو گا۔ سیاست دانوں کی کردار کشی کی روایات کو ختم کرنا ہو گا۔ جب سیاست دان ہی سیاست دان کی عزت نہیں کرے گا تو پھر کسی اور سے کیسے توقع کی جا سکتی ہے؟

فیصلوں کے لئے خودمختار تھنک ٹینک بنانا ہو گا جو ملک کی تقدیر کے فیصلے کرے اور سفارشات کی صورت میں اپنی ذہنی پیداوار کابینہ کے سامنے رکھے تا کہ دانشمندانہ فیصلے سامنے آئیں اور حکومت ان پر بحث کے بعد مناسب سمجھے توعمل درآمد کو یقینی بنائے۔ اداروں کو پتا ہونا چاہئیے کہ جمہوری حکومتیں اجتماعی سوچ کے تحت فیصلے کرتی ہیں تا کہ ان کو یہ باور کروایا جا سکے کہ آئین سے ہٹ کر کوئی فیصلہ پارلیمانی نظام میں ممکن ہی نہیں۔ چہ جائے کہ 'ووٹ کو عزت دو' کے نعرے لگتے رہیں اور جب وقت شہادت آئے تو ہتھیار ڈال کر سب کچھ لٹا دیا جائے۔

ہر ریاستی ادارہ ایک ذیلی ادارہ ہوتا ہے اور آئین میں اس کے آئین میں اس کے اختیارات اور ذمہ داریاں واضح بیان کی گئی ہیں۔ ان پر عمل درآمد کروانے کی حکومت ذمہ دارہے اور اداروں پر ہونے والے حملوں کی صورت میں ان کا تحفظ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ ادارے ہی ریاست کے ہاتھ، پاؤں اور طاقت ہوتے ہیں۔ ان کی عزت و تکریم کو یقینی بنانا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ تب ہی حکومت صحیح معنوں میں اپنے فرائض سرانجام دینے کے قابل بنتی ہے۔ اگر ادارے آپس میں لڑ رہے ہوں تو پھر ریاستیں ایک قدم آگے رکھتی ہیں تو دو قدم پیچھے جا رہی ہوتی ہیں جو کچھ آج کل ہمارے ساتھ ہو رہا ہے۔

احتساب کا خودمختار نظام متعارف کروا کر ایماندار ہاتھوں کو سونپنے کی ضرورت ہے اور اسی طرح کانسٹی ٹیوشنل کورٹ بھی قائم کی جائے اور ان کے ممبران اور سربراہان بھی ججز کی طرز پر مستقل ہوں نا کہ سیاسی لوگوں کے فیصلوں کے مرہون منت، جس طرح سے ابھی نیب کے سربراہ کا تقرر ہوتا ہے۔

اداروں کی مضبوطی کے لئے تعمیری سوچوں کو پروان چڑھانے کے لئے پالیسیاں بنائی جاتی ہیں تا کہ آمرانہ اور مفاداتی سوچ جہاں پروان چڑھتی ہے وہاں اصلاحات کے ذریعے سے تبدیلیاں لا کر ان سوچوں کا سدباب کیا جائے اور وہاں پر تعمیری سوچ کے ذریعے سے ریاستی ترقی میں اپنے اپنے کردار کا جذبہ اور شوق پیدا کیا جا سکے۔ قومی اخلاقی تربیت کی بھی اشد ضرورت ہے تا کہ اداروں کو اچھے لوگ میسر آئیں۔

آزادی اظہار رائے کو مفادات سے بری کر کے آزادانہ آئینی حدود و قیود کے اندر رہ کران کو اپنی آواز بلند کرنے میں آزادی دینا ہو گی تا کہ تعمیری تنقید سے بہتری کی راہیں نکل سکیں۔ ماضی میں ہونے والی قومی بے وقوفیوں کو دہرانے سے باز آنا ہو گا اور اصولی اقدامات سے ضائع کئے ہوئے وقت کا ازالہ کرنا ہو گا۔ میڈیا کو بھی کاروباری لوگوں سے آزاد کروا کر پیشہ ورانہ اچھے کردار کے لوگوں کے سپرد کرنا ہو گا۔

فوج کی سیاست میں مداخلت اپنی ایک داستان رکھتی ہے اور اس کو ختم کرنے کا ایک فطری عمل شروع ہو چکا ہے جس میں آج ہر کوئی ایک دوسرے کو بے نقاب کر رہا ہے اور اس طرح غیر فطری تعلقات اور گٹھ جوڑ امید ہے حوصلہ شکنیوں کی نذر ہو کر اپنے اصل کی طرف لوٹنا شروع ہو جائیں گے۔ جس طرح سے پچھلے سالوں میں مفادات کے دل نشینوں اور سہولت کاریاں مہیا کرنے والوں کے ساتھ ان کے اپنے ہی کرداروں نے سلوک کیا ہے اس سے ان کو کافی حد تک سبق اور دوسروں کے لئے نصیحت کا مواد میسر آیا ہو گا۔

پوری قوم کو میثاق جمہوریت میں فریق بنانے کی ضرورت ہے۔ عوام کے اندراس ملک، اداروں اور ملکی املاک کی اہمیت اور ملکیت کے احساس کو اجاگر کرتے ہوئے ان کو سیاست کے مرکزی دھارے میں لانا ہوگا۔ ہماری نوجوان نسل جو سوشل میڈیا کی ہم نوا ہے، کو بھی حقیقی سیاسی تاریخ سے روشناس کروانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ان کی ترجیحات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو بھی اس پر فریق بننے کے لئے آمادہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کی بکھری ہوئی سوچیں سمیٹ کر جمہوریت پر مرکوز کرنا ہوں گی۔

ہماری ریاست میں طاقت کو توازن پر لانا انتہائی ضروری ہے۔ اس کے بغیر سیاست دان جتنے بھی میثاق جمہوریت کرتے رہیں اس کے مکمل فوائد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ اس کے لئے ہمیں اداروں کو بھی اس میثاق کا فریق بنانے کی ضرورت ہے تا کہ سب سیاسی جماعتیں اور ادارے، خاص طور پر عدلیہ اور فوج اپنی ساکھ بحال کرنے کے لئے عملی طور پرآئین کی پاسداری کا عہد کریں کہ ہم نے اپنے ملک میں آئین کی حکمرانی کو فروغ دے کر معاشی تباہی سے باہر نکلنا ہے۔ اس کے بغیر اب کوئی حل نہیں رہا کیونکہ جب تک ہمارے ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا اس وقت تک عالمی برادری میں سے کوئی دوست بھی ہمیں اس معاشی گرداب سے نکالنے میں ہماری مدد نہیں کر سکتا۔

اداروں کو بھی اس نازک نکتے کو سمجھنا ہو گا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے سے، جانے یا ان جانے میں، ہماری سوچوں، نفسیات اور تہذیب و تمدن میں جو آگ لگا دی گئی ہے اسے سب کو مل کر بجھانا ہو گا۔ ہمیں سمجھنا ہو گا کہ ہم دنیا کے جس کونے میں بھی چلے جائیں یا مادی وسائل تک کتنی ہی دسترس حاصل کر لیں ہماری اصل امن گاہ یہ دھرتی ہی ہے جسے ایک نظریے کی بنیاد پر حاصل کیا گیا تھا۔ یہ ہماری پہچان ہے اور ہم چاہیں بھی تو اس پہچان کو بدل نہیں سکتے۔ اگر ہماری پہچان اور ہماری امن گاہ شر کا شکار ہو گئی تو ہمیں کہیں بھی پناہ نہیں ملے گی۔ اپنا گھر اجاڑ کر پناہ تلاش کرنے والوں پر کوئی اعتماد نہیں کرتا۔

ماضی کی غلطیوں کو دہرانے کا راستہ بند کرنے کے لئے سب کو مل کر ٹروتھ اینڈ ری کونسیلی ایشن کمیشن اور اسی طرح نیشنل ڈیموکریٹک کمیشن بھی بنانا چاہئیے تا کہ ہر کوئی اپنی اپنی غلیطوں کو تسلیم کرتے ہوئے مستقبل میں ان کے سدباب کا لائحہ عمل بنانے میں اپنا کردار ادا کر سکے۔