سندھ کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی‎

سندھ کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی‎
سندھ کی سیاست میں کبھی جناح پور کے نقشے ہوتے ہیں، کبھی سندھو دیش کی دھوم ہوتی ہے۔ کبھی مہاجر لفظ ایک گالی ہوتا ہے کبھی ایم کیو ایم جیسے نفیس لوگ چراغ رخ زیبا لیکر بھی نہیں ملتے۔ سندھ کی سیاست اکثر اتنی غیر متوقع اور دلچسپ ہو جاتی ہے کہ لگتا ہے کہ لہو گرم رکھنے کے لیے بہانے تراشے جا رہے ہیں۔

ابھی پچھلے دنوں وفاقی وزیر قانون جناب ڈاکٹر فروغ نسیم نے آئین کے آرٹیکل ایک سو انچاس کو لیکر ایک بیان داغا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ہنگامہ برپا کر دیا۔

آرٹیکل ایک سو انچاس وفاق کو یہ اختیار دیتا ہے کہ وہ کسی بھی صوبے یا علاقے کو تجاویز دے سکے۔ یہ براہ راست تو اختیارات وفاق کو منتقل نہیں کرتا البتہ بلواسطہ وفاق کو مضبوط ضرور کرتا ہے۔ بات نے نکل کر دور تلک تو جانا تھا، ہوا بھی یہی۔ سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین جناب بلاول نے ان اقدامات کو اتنا سنگین قرار دیا کہ بنگلہ دیش کے بعد سندھو دیش بننے تک کے خطرات ظاہر کر دیے۔ اس معاملے پر سینئر صحافی جناب مرتضٰی سولنگی کا انٹرویو ریکارڈ کرنے کا موقع ملا۔ انہوں نے جو اعتراضات، سوالات اور شبہات اٹھائے وہ کچھ یوں تھے۔

https://www.youtube.com/watch?v=HlXz-l-lA_k

اول تو یہ "شق ان آئینی شقوں میں سے ہے جو نہایت مبہم ہیں۔ مثال کے طور پر، اگر کوئی صوبہ یا علاقہ اس شق کے لاگو ہو جانے کے بعد وفاق کے احکامات یا تجاویز کو نہ مانے تو اس کی سزا کیا ہو گی یا ہو سکتی ہے۔ اس بارے میں آئین میں کوئی وضاحت موجود نہیں۔

دوسری بات یہ کہ کراچی میں کبھی پانی کا مسئلہ سر اٹھاتا ہے، کبھی کچرے کے پہاڑ نمودار ہوجاتے ہیں لیکن یہ تمام مسائل سطحی ہیں۔

اصل مسئلہ سندھ میں موجود دو اکائیوں یعنی پرانے سندھیوں اور سندھی مہاجرین کا ایک دوسرے پر عدم اعتماد بلکہ ایک دوسرے سے شاکی ہونا ہے۔ ان پرانے اور نئے سندھیوں کے اختلافات کوٹہ سسٹم سے شروع ہوتے ہیں اور پھر غیر سندھی کے وزیر اعلی نہ ہونے سے ہوتے ہوئے کہیں سے کہیں نکل جاتے ہیں مگر اس بات کو بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ کوٹہ سسٹم سب سے پہلے قائد اعظم کی موجودگی میں متعارف ہوا تھا اور کوئی ایسا قانون موجود نہیں جس کے تحت کوئی غیر سندھی وزیر اعلی نہ بن سکے۔ البتہ بیگم رعنا لیاقت علی کے گورنر سندھ بننے کے بعد سے یہ روایت پڑ چکی ہے کہ گورنر مہاجر اور وزیر اعلی سندھی شخص بنتا ہے اور جو سندھ کا موجودہ دیہی اور شہری کوٹہ سسٹم ہے، وہ جنرل یحیٰی کا دیا ہوا ہے۔

1973 کے آئین نے اسے آئینی تحفظ فراہم ضرور کیا تھا مگر یہ بھٹو کا دیا ہوا نہیں تھا اور اہم بات یہ ہے کہ کوٹہ سسٹم پوری دنیا میں مختلف شکلوں میں آج بھی موجود ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=rEirZnnRU0g

تیسری اہم بات یہ ہے تقسیم ہند کے وقت جو لوگ پنجاب میں آئے وہ زیادہ تر مشرقی پنجاب کے تھے۔ لہٰذا پنجاب کو ثقافتی یا لسانی تنوع کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ ہاں لیکن جنوبی پنجاب میں سرائیکی آبادی زیادہ ہجرت کر کے آئی جس سے جنوبی پنجاب میں تبدیلیاں رونما ہوئیں مگر سندھ کی کہانی اس سب سے مختلف ہے۔ سندھ میں ایک بالکل مختلف ثقافت اور تہذیب کے مہاجر آئے۔ جس کے باعث سندھ لسانی اور ثقافتی اعتبار سے بڑی تبدیلیوں سے گزرا۔ اس تبدیلی نے سندھ میں کئی بار فسادات کو بھی جنم دیا۔ جیسے 1972 کا سندھی زبان کا بل۔ جس کے پیش ہونے بعد سندھ میں فسادات پھوٹ پڑے تھے اور رئیس امروہی نے مشہور زمانہ شعر کہا، اردو کا جنازہ ہے زرا دھوم سے نکلے اس کے علاوہ 1998 میں مہاجر سندھیوں کے ہاتھوں پرانے اور پرانے سندھیوں کے ہاتھوں مہاجر سندھیوں کا کراچی اور حیدرآباد میں قتل عام شامل ہیں ۔

https://www.youtube.com/watch?v=uG2Wn-eKMvA

سندھ میں مہاجر اور سندھیوں کے درمیان مختلف وقتوں میں مختلف شکلوں میں اختلافات سامنے آتے رہتے ہیں۔ اعتماد کا خسارہ جو ان دونوں سندھیوں  میں موجود ہے وہ اکثر ان باتوں کو بھی مسئلے میں بدل دیتا ہے جو مسئلہ نہ ہوں۔ یہ آئین کی شق اور دیگر باتیں محض بہانہ اور استعارہ ہیں۔ جب تک دونوں کمیونٹیز بیٹھ کر بات چیت سے مسائل حل نہیں کرتیں۔ ایسی باتیں ہوتی رہی ہیں اور آگے بھی ہوتی رہیں گی۔ سولنگی صاحب نے آخر میں ایک شعر سنایا جو میں سمجھتا ہوں کہ تمام مسائل کا واحد حل بھی ہے اور ہنگامی بنیادوں پر ضروری بھی ہے۔

دلوں کی الجھنیں بڑھتی رہیں گی
اگر کچھ مشورے باہم نہ ہونگے

 

کنور نعیم ایک صحافی ہیں۔ ان سے ٹوئٹر پر Kanwar_naeem او فیس بک پر KanwarnaeemPodcasts پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔