شہباز گل کے ڈرائیور کی بیوی نے پولیس کو دھمکی دی اور خاتون پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا، آئی جی اسلام آباد کی بریفنگ

شہباز گل کے ڈرائیور کی بیوی نے پولیس کو دھمکی دی اور خاتون پولیس اہلکاروں پر تشدد کیا، آئی جی اسلام آباد کی بریفنگ
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کو آئی جی پولیس ناصر خان نے بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ شہباز گل کے ڈرائیور کی بیوی سائرہ ظفر کا معاملہ اس وقت عدالت میں ہے اور اس پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا لیکن ان کی گرفتاری پولیس کو دھمکیاں دینے اور پولیس اہلکاروں پر تشدد کرنے پر عمل میں لائی گئی۔ انھوں کہا سائرہ کے بھائیوں کی گرفتاری پولیس والوں سے مذاحمت پر کی گئی۔

انسپکٹر جنرل پولیس نے بریفنگ میں کہا کہ قانون اداروں کے وقار پر حملہ آور ہونے کے خلاف کاروائی کی اجازت دیتا ہے لیکن ہم نے سائرہ ظفر کی ضمانت کی مخالفت نہیں کی۔ معاملہ اس وقت سیشن کورٹ میں ہے، جو ہونا ہے جواب عدالت میں دینا ہے۔

چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ پولیس ایف آئی آر کے مطابق سائرہ نے مزاحمت کی ہے، ایک پولیس اہلکار کی شرٹ پھاڑی گئی جبکہ ایک لیڈی پولیس اہلکار کا اے ٹی ایم اور پرس چھینا گیا، پولیس کے مطابق تمام قانونی تقاضے پورے کیے ہیں۔ چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ شہباز گل نے دوران تفتیش کہا ہے انکا فون ڈرائیور کے پاس ہے۔

شہباز گل کے ڈرائیور کی اہلیہ سائرہ ظفر نے کمیٹی کو پولیس چھاپے پر بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 11 تاریخ کو رات پولیس نے گھر کی دیوار پھلانگی، پولیس دروازہ توڑ کر گھر داخل ہوئی اور بھائیوں پر تشدد کیا، والدین نے پوچھا آپ قانونی طریقے سے کیوں نہیں آئے؟ انھوں نے مزید کہا کہ پہلے میرے خاوند اظہار کا پوچھا پھر کہا اسکی اہلیہ کو ساتھ لیکر جائینگے۔

انھوں نے مزید کہا کہ مجھے آنکھوں پر پٹی باندھ کر مرد پولیس اہلکار نے بازو سے پکڑ کر گاڑی میں بٹھایا، صرف ایک خاتون اہلکار ساتھ تھی وہ بھی تھانے میں سوال جواب کرتی رہی اور مجھے کہا گیا اگر خاوند کا پتہ نہ بتایا تو 10 ماہ کی بیٹی کا منہ دوبارہ نہیں دیکھ سکو گی اور مجھے ڈرایا دھمکایا گیا آنکھوں پر پٹی باندھ کر تھانوں میں لے جایا گیا۔

مشاہد حسین سید نے کہا کہ پولیس چھاپہ سے چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا گیا، آئی جی صاحب نے لمبی فہرست تھما دی ہے ،یہ شریف لوگ ہیں پولیس والے کی شرٹ کیسے پھاڑی ہوگی؟ ہم ان سے اظہار یکجہتی کرتے ہیں۔

انسانی حقوق کمیشن کی چیئرپرسن رابعہ جویری آغا نے کمیٹی کو بتایا کہ رات کو چھاپہ مارنا درست عمل نہیں ہے، ہماری جیلوں میں 80 فیصد خواتین بچوں کے ساتھ جیل میں ہیں، یہ بہت بڑا انسانی حقوق کا معاملہ ہے اور ہمیں اس حوالے سے قانون سازی کرنا ہوگی۔

کمیٹی نے اپنے سفارشات میں کہا کہ یہ سیاسی مقاصد کے طور پر ٹارگٹ کا کیس اور ہے اور مستقبل میں ایسے واقعات سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل اپنا ہوگا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔