دو دہائیاں قبل شوہنی نے مجھ سے پوچھا؛ 'ہم (ہندوستانی اور پاکستانی) ایک ہی ماں کی کوکھ سے پیدا ہوئے ہیں، تم لوگوں کی شکلیں عربیوں سے کیوں ملنے لگی ہیں؟'
شوہنی مکھرجی کا تعلق نئی دہلی سے تھا، وہ سکاٹ لینڈ کی یونیورسٹی آف گلاسگو سے بائیو کیمسٹری میں ڈگری کر رہی تھی۔ اسے کس بات نے مجھ سے یہ پوچھنے پر مجبور کیا؟ میں نے گمان کیا کہ وہ اس بارے میں سوچتی رہی ہو گی۔ شاید اس کے آس پاس کے لوگ، وہاں ہندوستان میں اس بارے میں باتیں کرتے ہوں گے۔ چند سال بعد میں نے ہندوستان کے اخبار دی ہندو میں ایک مضمون پڑھا۔ اس میں تقریباً وہی بات تھی جو شوہنی نے مجھ سے پوچھی تھی؛ 'پاکستانیوں نے اپنی ہندوستانی شناخت کیوں ترک کر دی ہے اور خود کو مشرق وسطیٰ کے قریب کیوں جھکا لیا ہے؟' اس مضمون میں درد اور تکلیف کا احساس بہت واضح تھا۔
بھارت کے زخم شاید ان کے دہشت گردی میں پاکستان کے ملوث ہونے کے دعوے، بھارت کے خلاف چار جنگیں لڑنے، کشمیر پر دعویٰ کرنے یا 1947 میں ان سے الگ ہونے کے گھاؤ سے کہیں زیادہ گہرے ہیں۔ کہتے ہیں گہرے گھاؤ وقت کے ساتھ ٹھیک ہو سکتے ہیں، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ یقیناً اس میں کچھ اور بھی تھا جو بہت گہرا تھا لیکن اسے واضح ہونے کے لیے کئی دہائیوں تک انتظار کرنا پڑا۔
پاکستان کا اپنی ہندوستانی شناخت کو ختم کرنا اب تک مورخین اور سیاسیات کے سکالرز کے درمیان بحث کا موضوع رہا ہے۔ Jinnah: His Successes, Failures and Role in History کے مصنف ڈاکٹر اشتیاق احمد کے ساتھ ہماری یوٹیوب پر شائع ڈاکس ٹاک کے جواب میں ہندوستانی سامعین کا عمومی ردعمل ایک نکتے پر مرکوز تھا؛ ہندوستان اور پاکستان کے تمام مسلمان ہندوؤں سے کنورٹ ہوئے ہیں اور یہ کہ انہوں نے اپنی اصلیت یعنی ہندوتوا اور ہندویت سے انکار کر دیا ہے۔ اس پہ کوئی شاید یہ کہنا چاہے کہ یہ عام ان پڑھ ہندوستانیوں کی باتیں ہیں۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے تو یہ ایک زیادہ خطرناک بات ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہندوستانیوں کو پاکستان کے بارے میں ایک ایسی تاریخ پڑھا دی گئی ہے جس نے ان میں ایک خطرناک قوم پرستی کو جنم دیا ہے۔ یہ معاملہ، مسئلہ کشمیر ، پاکستان پر دہشت گردی کی الزام تراشی یا دوسرے تنازعات سے زیادہ بڑا مسئلہ ہے جس نے دونوں ملحقہ ممالک کے درمیان تعلقات کو خراب کیا ہے۔ کیونکہ، اگر کشمیر جیسے بنیادی مسائل کو حل کر بھی لیا جائے، تب بھی مسلم تشخص کا پریشان کن سوال حل طلب ہی رہے گا۔
اس مسئلے کو کیا چیز حل کر سکتی ہے؟ یا اسے کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟ ہندوستان میں یہ مطالبہ بالکل واضح نظر آتا ہے کہ مسلم شناخت کو ترک کر کے ہندوتوا کو اپنا لیا جائے۔
23 اپریل 2023 کو یوٹیوب پر شائع ہونے والے اپنے شو 'دی وائر' میں کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے امریکہ میں قائم ایک تنظیم 'ہندوس فار ہیومن رائٹس' کے ایگزیکٹو ڈپٹی ڈائریکٹر نکھل منڈلاپارتھی نے 9 ہندوستانی ریاستوں کی یاترا کی تفصیلات بیان کیں۔ اس انڈین ٹور کا مقصد ہندوستان میں اسلامو فوبیا کی چھان بین کرنا اور اس کو سمجھنا تھا۔ منڈلاپارتھی کی کہانی اپنے ملک میں ہندو مسلم تعلقات کی ایک تاریک تصویر پیش کرتی ہے جسے سیکولر آئین کے ساتھ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے پہ فخر ہے۔
ڈاکٹر اشتیاق احمد سمیت پاکستان میں بہت سے لبرل سکالرز کا خیال ہے کہ ہندوستان کا موجودہ اسلامو فوبیا پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور ہندوؤں کے خلاف جذبات کا ردعمل ہے۔ جبکہ منڈلاپارتھی کے مطابق، جو مسلمان داڑھی منڈواتے ہیں، مغربی لباس پہنتے ہیں اور اردو چھوڑ کر ہندی بولتے ہیں، انہیں ہندوستانی معاشرے میں زیادہ قابل قبول سمجھا جاتا ہے۔ یہ ہم آج کے ترقی یافتہ ہندوستان کی بات کر رہے ہیں۔ یہ مسئلہ شاید مسلمانوں کے عقیدے سے زیادہ پیچیدہ ہے۔ یہ انفرادی، ذاتی شناخت کو ایک مسلمان کے طور پر ترک کرنے، اردو زبان کو ترک کرنے، ہندوستان کی مسلم تاریخ کو نظر انداز کرنے یا ایسی کسی بھی چیز کو ترک کرنے کا سوال ہے جس کا ہندوستان میں مسلم حکمرانی سے کبھی کوئی تعلق رہا ہے، بشمول مغلوں کا فنِ تعمیر۔
مثلاً گذشتہ سال مئی میں، بی جے پی نے آندھرا پردیش کے ضلع گنٹور میں جناح ٹاور کا نام تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس طرح کے واقعات کی فہرست لمبی ہے۔ مغل فن تعمیر، مغل تاریخ، یا مغلوں سے وابستہ کوئی بھی چیز اب کے ہندوستان میں ناقابل قبول ہے۔ 'مغل غاصب تھے، انہوں نے ہندوستان کو لوٹا، انہوں نے ہندوستان کو آلودہ کیا اور ہندوؤں کو زبردستی مسلمان کیا'۔۔ آج کے ہندوستان میں اس قسم کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ کشمیر، دہشت گردی، یا جنگیں بنیادی مسئلہ نہیں بلکہ اس بنیادی مسئلے کے محض اثرات ہیں۔
اس بات پہ کوئی یہ دلیل دے سکتا ہے کہ دو قومی نظریہ جس کی بنیاد پر پاکستان بنا، ان ہندوستانی جذبات کی بنیادی وجہ ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ دلیل بھی دی جا سکتی ہے کہ یہ جذبات تقسیم ہونے سے پہلے بھی موجود تھے اور جناح صاحب اور دیگر مسلم رہنما اسے محسوس کر سکتے تھے، اس کی بو سونگھ سکتے تھے اور اسی لیے دو قومی نظریہ ان پہلے سے موجود جذبات کے نتیجے میں وجود میں آیا تھا۔ آج کے ہندوستان میں مسلمانوں کیلئے جو جذبات پائے جاتے ہیں وہ محض سیاسی درستگی کے قالین تلے طویل عرصے سے چھپے رہے تھے۔ مودی کو بس اس قالین کو ہٹانا تھا۔ اس صورت میں، جب پاکستان کشمیر، دہشت گردی، تجارت اور امن جیسے بنیادی مسائل پر بھارت کے ساتھ بات چیت کرنے کی کوشش کرتا ہے، تو وہ صرف گرد جھاڑ رہا ہے۔ یہ زخم محض ہندوستان کی تقسیم سے نہیں لگے، یہ 'اُن کے' ملک میں مسلمانوں کی حکومت کی ایک طویل دردناک تاریخ کے خنجر سے نقش ہوئے ہیں۔
اب جبکہ دونوں ملک آزادی کی 76 ویں سالگرہ منا رہے ہیں تو آگے بڑھنے کا طریقہ ڈھونڈنا ہو گا۔ اس کے لیے دونوں طرف کے سنجیدہ ذہن رکھنے والوں کو بیٹھ کر سوچنا چاہئیے۔ جذباتی ہو کر سوچنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
دونوں ملکوں کو یوم آزادی مبارک۔