نقل و حمل میں جدت کا رجحان تیزی سے ترقی کر رہا ہے، لیکن شہری مراکز کو خاص طور پر عالمی جنوب میں موجودہ وقت سے لے کر آنے والی دہائیوں میں بہت سے چیلنجوں کا سامنا ہے۔ پاکستان کا سب سے زیادہ آبادی والا شہر کراچی اس جدوجہد کی مثال نظر آتا ہے۔ بڑھتی ہوئی آبادی، شہری کاری اور آلودگی جیسے عوامل کے ساتھ ساتھ متنوع طرز حکمرانی، صنفی تفاوت، استطاعت کے مسائل، اور ناقص انفراسٹرکچر یہ یاد دہانی کراتے ہیں کہ کراچی کی نقل و حمل کے منظرنامے پر فوری توجہ اور ذمہ دارانہ جدت کی ضرورت ہے۔ جو شہر کی عوام دوست منصوبہ بندی کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ یہ مضمون کراچی میں نقل و حمل کی موجودہ حالت کا جائزہ لیتا ہے، ترقی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کرتا ہے، اور' سب کے لیے' نقل و حمل کی ایک تجدید اور قابل رسائی کوشش پیدا کرنے کے لیے ممکنہ حل تلاش کرتا ہے۔ کیونکہ ہمیں یہ بھی سوچنا ہے کہ شہر کی ترقی کے لئے جو بھی اقدام اٹھایا جائے اس میں بلا تفریق ہر طبقے کے افراد کے مفاد کو مدنظر رکھا جائے اور یہی عوام دوست منصوبہ بندی کی جانب قدم ہو گا اور منصوبے پائیدار اور دیرپا ہوں گے۔
اگر آج کے شہر کو دیکھا جائے تو کراچی کا نقل و حمل کا بنیادی ڈھانچہ اور خدمات، بشمول عوامی ذرائع ، شہر کے ارتقا کے ساتھ رفتار برقرار رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ اور ہم نے دیکھا کہ پالیسی سازوں کے درمیان یہ عقیدہ کہ زیادہ وسیع شاہراہوں کی تعمیر سے شہری نقل و حمل کے مسائل حل ہو جائیں گے ناکافی ثابت ہوا ہے۔ کیونکہ کراچی جیسے گنجان آباد شہروں میں پائیدار نقل و حمل کے اصول سستے عوامی ذرائع نقل و حمل کی اہمیت پر زور دیتے ہیں جسے عرف عام میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام کہا جاتا ہے۔ تاہم ابھی شہر کراچی میں عوامی نقل و حمل کا ایک اچھی طرح سے کام کرنے والا نظام نہیں ہے۔ مجموعی طور پر کراچی میں نقل و حرکت کا مسئلہ سنگین ہے اور ہمارے شہر کے بکھرے طرز حکمرانی کے نظام کی عکاسی کرتا ہے اس وقت کراچی میں بسوں میں سفر کرنے والے مسافروں کی اکثریت پرانی اور کھٹارا بسوں میں سفر کرنے پر مجبور ہے۔ آپ گھنٹوں بھی انتظار کریں تب بھی بس میں بیٹھنے کی سیٹ ملنا ممکن نہیں۔ آج سے تیس سال قبل جن منی بسوں اور بسوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی تھی وہ اب صرف چند سو کے قریب رہ گئی ہیں اور اس میں حکومت کا کوئی حصہ نہیں۔ یہ سارا کاروبار نجی شعبہ چلا رہا ہے۔ جبکہ ایک وقت تھا کہ بڑے پیمانے پر حکومت کی جانب سے فراہم کردہ بسیں پورے شہر میں چلا کرتی تھیں اور لوگ آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرتے تھے۔ حکومتی بسیں اب دوبارہ نظر آنا شروع تو ہوئی ہیں مگر آسانی نہیں رہی۔
مزید براں، کراچی کی نقل و حمل کے چیلنجز بنیادی ڈھانچے کے خدشات سے جڑے نظر آتے ہیں۔ جبکہ صنفی نقل و حمل میں رکاوٹیں، ناکافی راستے، ٹوٹ پھوٹ کا شکار سڑکیں، ناقص حفاظتی اقدامات، عمر رسیدہ آبادی، اور سماجی و ثقافتی اقدار جیسے عوامل مسئلے کی پیچیدگی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ان چیلنجوں سے مؤثر طریقے سے نمٹنے کے لیے، ذمہ دارانہ بہتری اور اختراعات کو شہر کے زمینی حقائق اور عوام کے مطابق ہونا چاہئیے۔ عوامی نقل و حمل کی طرف تبدیلی کی حوصلہ افزائی کے لیے کراچی کو عوامی نقل و حمل کی مربوط منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں کامیاب شہری علاقوں نے خوشگوار، آسان، پرکشش، سستے، موثر اور قابل اعتماد عوامی نقل و حمل کے نظام کو اپنا لیا ہے اور یہ انضمام صرف جسمانی بنیادی ڈھانچے پر محیط نہیں ہے بلکہ اس میں عوام کی مرضی اور سوچ سمجھ کے ساتھ شہری منصوبہ بندی، حکمرانی کے نظام میں بہتری شامل ہے۔ کراچی جیسے شہر میں سستی اور پائیدار پبلک ٹرانسپورٹ کو ترجیح دے کر شہر کی نقل و حمل کے ساتھ رہائش کی ترجیحات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے مگر یہ بھی ضروری ہے جو بھی نظام بنایا جائے اس میں ماحولیاتی عوامل اور نتائج کو مد نظر رکھا جائے۔
کراچی کا پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم عالمی سطح پر بدترین نظام میں شمار ہوتا ہے۔ اگرچہ شہر نے بس ریپڈ ٹرانزٹ (BRT) اور دیگر ٹرانسپورٹ اقدامات متعارف کرانے کے لیے کچھ کوششیں کی ہیں، لیکن ان منصوبوں کا پیمانہ شہر کی ضروریات سے بہت کم ہے۔ تقریباً 25 سے 30 ملین کی آبادی کے ساتھ کراچی کی طلب کو پورا کرنے کے لیے بسوں کے بہت بڑے بیڑے کی ضرورت ہے۔ تاہم، بسوں کی کم ہوتی ہوئی تعداد اور موٹر سائیکلوں اور نجی کاروں کا بڑھتا ہوا غلبہ شہر کے نقل و حمل کے بحران کو بڑھا رہا ہے۔
ویسے تو شہر کراچی کے ساتھ اتنے مسائل جڑے ہیں کہ ہر ہر مسئلے پر توجہ دینے اور غور و فکر کرنے پر کئی سال لگ سکتے ہیں اور اب تو مسائل بھی تاریخوں، واقعات یا حادثات سے جڑے نظر آتے ہیں اور سماجی ذرائع ابلاغ میں بھی مخصوص مسائل کا ہی تذکرہ دکھائی دیتا ہے جیسا کہ 2020 میں کراچی کے ٹرانسپورٹ نظام کا بین الاقوامی سطح پر بھی چرچا ہوا جب عالمی جریدے بلومبرگ نے اپنی رپورٹ میں کراچی کو بدترین پبلک ٹرانسپورٹ رکھنے والا شہر قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ کوئی شہر سیاسی یتیم ہوتا ہے تو یہ حال ہوتا ہے اور ملک کو نصف ریونیو کما کر دینے والا شہر سیاسی طور پر یتیم ہو چکا ہے۔ برسوں پرانی بسیں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں پر رواں دواں رہتی ہیں۔ شہر کی 42 فیصد آبادی کو عشروں پرانی بسوں پر ہی انحصار کرنا پڑتا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ بھیڑ بکریوں کی طرح لوگ بسوں میں سفر کرتے ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ بسوں کی چھتوں کو بھی مسافروں کے بیٹھنے اور سواری کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ کراچی کو ایک ایسا شہر بیان کیا گیا جس کے مسائل حل کرنے کا کوئی ذمے دار ہی نہیں ہے۔ لوگ ٹریفک کے قوانین پر کوئی عمل کرنے کو تیار نہیں ہیں جس کی وجہ سے ٹریفک حادثات معمول کی بات ہیں۔
کراچی شہر میں ٹرانسپورٹ کی صورت حال ہمیشہ ایسی نہیں تھی۔ 1947 میں قیام پاکستان کے وقت کراچی کی آبادی ساڑھے چار لاکھ تھی جبکہ شہریوں کی سفری ضروریات کے لیے 20 سے 50 کے قریب بڑی بسیں، ٹرام وے کا نظام اور 32 ٹیکسیاں بھی موجود تھیں، اسی طرح تانگے بھی بڑی تعداد میں تھے جو اب خال خال ہی نظر آتے ہیں۔ بالخصوص کراچی کے پرانے شہری علاقوں اور بندر روڈ پر آج بھی سکولوں تک بچوں کو لانے اور واپس چھوڑنے کے لئے یہی تانگے استعمال ہوتے ہیں مگر جلد ہی یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا کیونکہ ہمارے ادارے شہر کے بی آر ٹی کے نظام کو ٹاور تک پھیلانے والے ہیں جس کے بعد ان علاقوں میں تانگوں کا سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ بہرحال کراچی کی کم آبادی کے لیے اس وقت میں یہ سہولیات ضرورت سے کچھ زیادہ ہی تھیں، یا یوں کہیں کہ کم آبادی کے ساتھ ساتھ تب شہر اس قدر پھیلا ہوا نہیں تھا جتنا آج ہے کہ ایک پورے دن میں بھی شہر کے ہر ہر علاقے اور آبادی میں جانا ممکن نہیں رہا۔
پھر قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آمد کا سلسلہ شروع ہوا اور شہر کی آبادی (1951 کی مردم شماری کے مطابق) 14 لاکھ کے قریب پہنچ گئی۔ لوگوں کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ہی رہائش کی ضروریات میں بھی اضافہ ہوا۔ قیام پاکستان کے بعد جب لوگوں نے ہندوستان سے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی تو اس وقت کی وفاقی حکومت نے نئی بستیوں تک جانے کے لیے ٹرانسپورٹ فراہم کی۔ 1950 میں شہر کو کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ (KIT) کے حوالے کر دیا گیا تھا جو شہر کی توسیع اور انتظام کی منصوبہ بندی کے لیے قائم کیا گیا تھا جس میں نقل و حمل کا انتظام بھی شامل تھا اور یہ سلسلہ سات سال تک جاری رہا حتیٰ کہ 1957تک کراچی امپروومنٹ ٹرسٹ کے اقدامات شہر کے نقل و حمل کے انتہائی ناکافی ثابت ہونے لگے تو دسمبر 1957 میں کراچی ٹرانسپورٹ سنڈیکیٹ (KTS) کو 280 بسوں کے بیڑے کے ساتھ قائم کیا گیا مگر کے ٹی ایس کو بھی 1958 میں ناکام قرار دے دیا گیا تھا اور اسی سال دسمبر میں اسے ختم کر دیا گیا تھا۔
1959 کے کراچی کی آباد کاری کے منصوبےکے تحت مختلف علاقوں میں نئی بستیاں بسانے کے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا گیا تو اس کے ساتھ ساتھ ٹرانسپورٹ کی ضروریات بھی بڑھتی چلی گئیں۔ منصوبے کے مطابق، دو سیٹلائٹ ٹاؤنز - شمال میں نیو کراچی اور جنوب مشرق میں لانڈھی کورنگی - اس وقت شہر کے مرکز سے تقریباً 20 کلومیٹر کے فاصلے پر بنائے گئے تھے جبکہ صنعتی علاقے ان منصوبوں کا ایک لازمی حصہ تھے اور تصور یہ تھا کہ ان دونوں قصبوں کے رہائشیوں کو صنعتی علاقوں میں ملازمتیں فراہم کی جائیں تاکہ انہیں شہر کا سفر نہ کرنا پڑے ساتھ ہی رہا ئشیوں کو صحت اور تعلیم کی سہولتیں بھی فراہم کی گئیں لیکن صنعتیں وقت پر شروع نہیں ہوئیں اور کام کرنے والی آبادی نے شہر کے کاروباری اضلاع، بندرگاہ اور ملحقہ صنعتی علاقوں میں خراب سڑکوں پر طویل فاصلہ طے کرنا شروع کر دیا۔ 1959 میں کراچی روڈ ٹرانسپورٹ کارپوریشن (KRTC) کا قیام عمل میں آیا اور 24 ڈبل ڈیکر سمیت 324 بسیں کراچی کی سڑکوں پر رواں ہو گئیں اوران بسوں کے لیے مناسب ڈپو اور ورکشاپس بھی مہیا کی گئیں تھیں۔ مگر 1966 میں یہ ادارہ نامعلو م وجوہات کی بنا پر ختم ہو گیا۔
1885 میں شروع ہونے والی کراچی کی معروف ٹرام سروس بھی 1974 میں بند ہوگئی تھی کیونکہ وہ بہت زیادہ حادثات کا باعث بن رہی تھی اور گاڑیوں کی ٹریفک میں خلل ڈال رہی تھی۔ جب ٹرام سروس کو بند کیا گیا تو اس کے متبادل کے طور پر زیر زمین میٹرو کی تجویز بھی آئی تھی مگر کبھی اس پر مزید بات نہیں ہوسکی۔ اس سے پہلے 1964 میں کراچی سرکلر ریلوے کا آغاز ہوچکا تھا، 80 کی دہائی کے وسط تک 24 ٹرینیں روزانہ چلتی تھیں۔ مگر بتدریج سرکلر ریلوے بھی زوال کا شکار ہوئی اور 1999 میں اسے بند کر دیا گیا۔ 1977 میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن یعنی کے ٹی سی کے تحت شہر میں 550 بسیں چلائی گئیں تھیں اور روزانہ 200,000 مسافروں کو سنبھالنے کے قابل ایک بس ٹرمینل بنایا گیا تھا مگر یہ شاندار سروس بھی بد عنوانی اور نااہلی کی نذر ہوگئی۔ 1971 میں، حکومت نے ایک ٹرانسپورٹ پالیسی متعارف کرائی، جسے 'دی فری ٹرانسپورٹ پالیسی' کہا جاتا تھا۔ یہ پالیسی کراچی کے اس وقت کے علاقے میں ترقی پذیر مختلف کچی آبادیوں (مضافاتی علاقوں) سے ٹرانسپورٹ کی بڑھتی ہوئی مانگ کی وجہ سے متعارف کرائی گئی تھی کیونکہ سرکاری ٹرانسپورٹ صرف شہر کی مرکزی راہداریوں پر چلتی تھی۔ اسی پالیسی نے کراچی میں منی بس متعارف کرائی جو کہ ہزاروں کی تعداد تک جاپہنچی تھیں مگر اب وہ بھی چند سو سے زیادہ نہیں۔
کراچی کی ٹرانسپورٹ کی مشکلات کا ایک مثالی حل ہونے کے باوجود، سائیکلنگ اور پیدل چلنے کو بڑی حد تک نظر انداز کیا جاتاہے۔ جب کہ دنیا بھر کے شہروں نے ان غیر کاربن خارج کرنے والے اختیارات کو اپنا لیا ہے، جبکہ دوسری جانب کراچی سائیکلنگ کے بنیادی ڈھانچے کو ترجیح دینے اور پیدل چلنے کو نقل و حمل کے قابل عمل طریقوں کے طور پر فروغ دینے میں ناکام رہا ہے۔ اور یہ نظر اندازی خاص طور پر شہر کے محنت کش طبقے کے لیے نقصان دہ ثابت ہوئی ہے، جو نجی گاڑیوں کے متحمل نہیں ہیں لیکن انہیں سستی عوامی اور موثر ٹرانسپورٹ کے اختیارات درکار ہیں۔
دنیا بھر کے مختلف شہروں نے اختراعی طریقوں کے ذریعے اپنے نقل و حمل کے مناظر کو کامیابی کے ساتھ تبدیل کیا ہے۔ قابل رسائی، قابل بھروسہ، اور سستی عوامی نقل و حمل کے نظام کو ترجیح دے کر ان شہروں نے ٹریفک کی بھیڑ کو کم کیا ہے، ہوا کے معیار کو بہتر بنایا ہے، اور زندگی کے مجموعی معیار کو بڑھایا ہے۔ کراچی اپنے منفرد سیاق و سباق کے مطابق بہترین طریقوں کو اپناتے ہوئے اور اسے درپیش مخصوص چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے ایسی کامیابی کی کہانیوں سے سبق لے تو شہر میں نقل و حمل کا نظام بہتر ہو سکتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کراچی کے نقل و حمل کے چیلنجز فوری توجہ اور کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ شہر کو ایک سستی اور پائیدار پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کی ترقی کو ترجیح دینی چاہیے جو اس کے تمام رہائشیوں کی ضروریات کو پورا کرے۔ پبلک ٹرانسپورٹ کی منصوبہ بندی، انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے، صنفی تفاوت کو دور کرنے، اور سائیکلنگ اور پیدل چلنے جیسے متبادل ذرائع نقل و حمل کو اپنانے سے کراچی ایک تبدیل شدہ نقل و حمل کے منظر نامے کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔
آج بھی سڑکوں کی بہتری کے ساتھ بسوں کے انتظام سے شہر میں بہتری ممکن ہے جبکہ سرکلر ریلوے کی ہی توسیع سے بسوں کے نظام میں مزید مضبوطی لائی جا سکتی ہے۔ اس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں کہ سرکلر ریلوے کی شاخیں اس انداز میں ہوں کہ تقریباً 90 فیصد شہر کا احاطہ کر سکیں اور یہ کراچی کو کافی سہولت دے گا اور جیسے جیسے آبادی بڑھتی جائے ویسے ہی اسی کوریڈور پر اس کو بڑھاتے جائیں۔ یا پھر آج کے شہر کے مطابق سرکلر ریلوے کو بنایا جائے مگر ہم دیکھ رہے ہیں کہ حکومت نے بسوں کے مقابل بی آرٹیز کو ترجیح دی اور بنیادی نظام کے بغیر بی آر ٹیز بنانا شروع کر دیں اور جتنی رقم میں یہ بی آر ٹیز بنا رہے ہیں اتنے میں کراچی کو تقریباً بیس ہزار بڑی بسیں دی جا سکتی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب حساب یہ ہے کہ اگر بی آر ٹیز ساری کی ساری بن بھی جاتی ہیں تو زیادہ سے زیادہ بیس فیصد آبادی اس سے استفادہ کرسکے گی جبکہ بیس ہزار بسیں بہت بڑے رقبے کو سہولت فراہم کرسکتی ہیں اور ان میں اضافہ آسان ہے۔ بس آپ جوڑتے جائیں، نئے روٹس قائم کرتے جائیں جبکہ اس کے مقابل بی آرٹیز کے لیے روٹس شامل کرنا اور اس کو بڑھانا ایک مشکل کام ہے جس میں تکنیکی پیچیدگیاں بھی ہیں اور لاگت بھی بہت زیادہ ہے۔
موجودہ وقت میں شہر میں پیپلز بس سروس کا جو نظام قائم کیا گیا ہے بسوں کی تعداد کے لحاظ سے یہ کافی سے بھی کم ہے (نقشہ دیکھیں) اور کوئی نہیں جانتا کہ ان کی مدت کتنی ہے جبکہ پائیدار اور دیرپا نظام کے لیے ضروری ہے کہ حکومت ایک ورکشاپ اور ایک ٹریننگ سکول قائم کرے۔ ورکشاپ میں ان بسوں کی مرمت اور دیکھ بھال کا کام کیا جا سکے جو کہ ابھی باہر سے معاوضے پر کرائی جا رہی ہے جبکہ ٹریننگ سکول میں کنڈکٹر، ڈرائیور، ٹرانسپورٹ منیجر، دیکھ بھال کرنے والے سب لوگ ٹریننگ حاصل کر سکتے ہیں۔ اس ورکشاپ اور ٹریننگ سکول کو آٹو موبائل انڈسٹری کے ساتھ جوڑ دیں تاکہ اس پورے معاملے میں مزید بہتری آ سکے اور ہم شہر کو بہتر سمت میں ترقی کرتا دیکھ سکیں۔