کیپٹن صفدر کے ساتھ شادی سے نواز شریف کی سیاسی وارث تک؛ کیا مریم نواز بینظیر ثانی ہیں؟

عام انتخابات 2024 میں لاہور سے قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتنے کے بعد مریم نواز شریف پارٹی کی جانب سے وزیر اعلیٰ پنجاب کی امیدوار نامزد ہو چکی ہیں۔ ان کی سیاست میں انٹری کیسے ہوئی اور ان کی زندگی کن تنازعات سے دوچار رہی، زیر نظر رپورٹ یہی کہانی سناتی ہے۔

کیپٹن صفدر کے ساتھ شادی سے نواز شریف کی سیاسی وارث تک؛ کیا مریم نواز بینظیر ثانی ہیں؟

مریم نواز پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی ہیں۔ وہ 28 اکتوبر 1973 کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم لاہور کے Convent of Jesus & Mary سکول سے حاصل کی۔ مریم نواز کو بچپن سے ڈاکٹر بننے کا شوق تھا اس لئے ایف ایس سی کے بعد انہوں نے راولپنڈی کے آرمی میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔ تاہم، سخت ڈسپلن والے ماحول میں تعلیم جاری نہ رکھ سکیں اور انہیں کالج چھوڑنا پڑا۔ اس کے بعد انہوں نے لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا مگر یہاں سے بھی ایم بی بی ایس کی تعلیم مکمل کرنے سے پہلے ہی انہوں نے کالج چھوڑ دیا۔ کچھ سالوں کے بعد انہوں نے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے پنجاب یونیورسٹی سے پہلے گریجویشن کیا اور بعد میں ایم اے انگریزی ادب کا امتحان پاس کر لیا۔ ان کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے سیاسیات کے مضمون میں پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی حاصل کر رکھی ہے۔
25 دسمبر 1992 کو مریم نواز نے نواز شریف کے اس وقت کے اے ڈی سی کیپٹن صفدر اعوان کے ساتھ شادی کر لی تھی۔ مریم نواز کی دو بیٹیاں مہرالنساء صفدر اور ماہ نور صفدر جب کہ ایک بیٹا جنید صفدر ہے۔ مریم نواز کی بڑی بیٹی مہرالنساء صفدر کی شادی لاہور کے ایک بڑے سرمایہ دار گھرانے میں ہوئی اور اس میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی شرکت کی تھی۔ ان کے خاوند کیپٹن صفدر نے فوج سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی اور سیاست میں آ گئے۔ کیپٹن (ر) صفدر مانسہرہ سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں۔

مریم نواز دو دہائیوں تک شریف فیملی کے تحت چلنے والے رفاہی اداروں کی سربراہ رہی ہیں۔

سیاسی سفر

2011 میں نوجوانوں میں عمران خان کی بڑھتی مقبولیت دیکھ کر مسلم لیگ (ن) کو بھی خیال آیا کہ نوجوانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے انہیں کسی نئے چہرے کو سامنے لانا چاہیے۔ اسی حکمت عملی کے تحت مریم نواز کو سیاسی اکھاڑے میں اتارا گیا۔ سال 2012 میں انہوں نے سکولوں اور کالجوں کے دورے شروع کر دیے اور پارٹی کا پیغام نوجوان طبقے تک پہنچانے میں سرگرم ہو گئیں۔ مسلم لیگ (ن) کی سیاست اور شریف خاندان کے معاملات پر گہری نظر رکھنے والے صحافی سلمان غنی بتاتے ہیں؛ 'مریم کو مسلم لیگ (ن) کا نوجوان چہرہ دکھانے کے لئے سامنے لایا گیا تھا تاکہ عمران خان کی نوجوانوں میں مقبولیت کا توڑ کیا جا سکے۔'
2013 کے عام انتخابات میں پارٹی نے انہیں ضلع لاہور کی انتخابی مہم کا انچارج بنا دیا۔ وزارت عظمیٰ کا قلم دان سنبھالنے کے بعد نواز شریف نے انہیں وزیر اعظم یوتھ پروگرام کی سربراہی سونپی اور مریم اہم تقریبات میں والد کے ہمراہ نظر آنے لگیں۔

نوجوان طبقے تک پہنچنے کے لئے مریم نواز شریف نے سوشل میڈیا کو بھرپور طریقے سے استعمال کیا اور ٹوئٹر پر سرگرم ہو گئیں۔ 2013 کے انتخابات سے پہلے ہی لاکھوں لوگ انہیں فالو کر رہے تھے۔ مریم نواز ٹوئٹر پر اپنی دھواں دھار ٹوئٹس کی وجہ سے خاصی شہرت رکھتی ہیں۔ اس وقت مریم نواز کے ٹوئٹر پر 78 لاکھ فالؤرز ہیں۔ فیس بک اور انسٹاگرام پر بھی لاکھوں لوگ انہیں فالو کرتے ہیں۔

2013 کے عام انتخابات میں کامیابی کے بعد مریم نواز وزیر اعظم ہاؤس منتقل ہو گئیں اور وہاں سے 'سٹریٹیجک میڈیا کمیونیکیشن سیل' چلانا شروع کر دیا۔ عارف نظامی بتاتے ہیں کہ اس سارے عرصے میں اپوزیشن کے خلاف کیا مؤقف اپنانا ہے، یہ فیصلہ اطلاعات کے مطابق مریم کا میڈیا سیل ہی کیا کرتا تھا۔ اطلاعات و نشریات کی موجودہ مرکزی وزیر مریم اورنگزیب بھی مبینہ طور پر مریم نواز ہی کی نامزد کردہ ہیں۔

چیلنجز

پانامہ لیکس کا ہنگامہ

اپریل 2016 میں پانامہ دستاویزات منظرعام پر آئیں تو وزیر اعظم نواز شریف کے علاوہ مریم نواز، حسن نواز اور حسین نواز کے نام بھی ان لوگوں میں شامل تھے جن کے نام پر آف شور کمپنیاں قائم تھیں۔ ان دستاویزات کی بنیاد پر شریف فیملی کے خلاف ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ اور ناجائز ذرائع سے دولت کمانے کے الزامات کے تحت مقدمات درج کیے گئے۔ پاکستان کی سپریم کورٹ نے 20 اپریل 2017 کو وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا۔ نواز شریف کو پارٹی کی سربراہی سے بھی ہٹا دیا گیا۔ عدالت نے نواز شریف کو 11 سال قید اور 80 لاکھ برطانوی پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنائی۔ مریم نواز کو بھی جرم میں معاونت کے الزام میں قید اور 5 سال کی نااہلی کی سزا سنائی گئی۔ اس دور میں ان کی جانب سے پیش کی گئی ایک مبینہ طور پر جعلی دستاویز بھی پیش کی گئی جس میں Calibri فانٹ استعمال کیا گیا تھا جو کہ اس وقت تک آفیشلی لانچ ہی نہیں ہوا تھا۔ سیاسی مخالفین نے ان کی خوب بھد اڑائی اور انہیں 'کیلبری رانی' کا استہزائیہ لقب دیا۔ تاہم، 2022 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں اس کیس میں بری کر دیا۔

سزائیں، قید اور بریت

نواز شریف کی نااہلی کے بعد مریم نواز اپنی جماعت کے لئے مزاحمت کا استعارہ بن کے ابھریں اور ان کے اسی بے باک انداز کے باعث انہیں بھی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔ 6 جولائی 2018 کو جعلی دستاویزات پیش کرنے اور والد کو جرم میں معاونت فراہم کرنے کے الزام میں اسلام آباد کی احتساب عدالت نے مریم نواز کو بھی 7 سال قید اور 20 لاکھ پاؤنڈ جرمانے کی سزا سنا دی۔ انہیں 10 سال تک الیکشن میں حصہ لینے سے بھی منع کر دیا گیا۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں کیپٹن (ر) صفدر کو بھی ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔ احتساب عدالت کے اس فیصلے کے بعد مریم نواز کو گرفتار کر لیا گیا اور دو مہینے جیل میں گزارنے کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کرتے ہوئے انہیں جیل سے رہائی دے دی۔
اس عرصے کے دوران ملک میں نئے انتخابات ہوئے۔ مریم نواز نے پہلے دن سے 2018 کے عام انتخابات کو قبول کرنے سے انکار کیا اور انہیں دھاندلی زدہ قرار دیا۔ 8 اگست 2019 کو چودھری شوگر ملز میں کرپشن کے الزام میں نیب نے ایک مرتبہ پھر انہیں گرفتار کر لیا۔

سال 2021 کے آخر میں پاکستان آرمی میں ڈی جی آئی ایس آئی کی تعیناتی کے معاملے پر جب وزیر اعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے مابین اختلاف پیدا ہوا تو ملک میں ہواؤں کا رخ تبدیل ہونا شروع ہو گیا۔ بدلے ہوئے منظرنامے میں عدالتوں نے ماضی کے کچھ فیصلوں پر نظرثانی کی اور اسی تناظر میں ستمبر 2022 میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے مریم نواز اور ان کے شوہر کیپٹن صفدر کی سزائیں ختم کر کے انہیں اس مقدمے سے بری کر دیا۔

بے نظیر بھٹو سے مماثلت

سیاسی و صحافتی حلقوں میں مریم نواز کا موازنہ سابق وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ دونوں رہنماؤں میں کئی قدریں مشترک ہیں۔ بھٹو صاحب اور نواز شریف دونوں اسٹیبلشمنٹ کی اعانت سے اقتدار میں آئے اور سیاست میں آنے کے بعد دونوں نے سول بالادستی کا نعرہ لگایا۔ ایک وزیر اعظم کو سزا کے طور پر پھانسی پہ چڑھا دیا گیا اور دوسرے کے خلاف مقدمات قائم کر کے پہلے جلا وطن، پھر سیاست سے بے دخل کر دیا۔ بے نظیر بھٹو بھی اسٹیبشلمنٹ پر تنقید کرنے کے ضمن میں ایک توانا آواز تھیں اور مریم نواز نے بھی پانامہ کیس کے بعد تند و تیز تقریروں میں اسٹیبلشمنٹ کو خوب آڑے ہاتھوں لیا۔
دونوں میں ایک اور مماثلت بھی موجود ہے۔ والد کے بعد نوجوان بے نظیر بھٹو اپنے والد کے پرانے ساتھیوں اور تجربہ کار سیاسی رہنماؤں میں گھر چکی تھیں۔ اسی طرح جب نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا تو مریم نواز دل گرفتہ کارکنان کو تسلی دینے کے لئے میدان میں اتریں۔ بینظیر کے 'انکلز' کو بھی وہ ناپسند تھیں، مریم کو بھی سب سے بڑا چیلنج اپنی پارٹی کے انکلز سے ہی ہے۔

تاہم، بینظیر بھٹو کی بیرون ملک تعلیم، ان کی قائدانہ صلاحیتیں، سیاست کے داؤ پیچ کی سمجھ اور سب سے بڑھ کر عوامی رابطے میں مریم نواز ان کی ثانی نظر نہیں آتیں۔ بینظیر بھٹو کتب بینی کی بے حد شوقین تھیں جب کہ مریم نواز کا اس حوالے سے ہاتھ تنگ ہی دکھائی دیتا ہے۔ بینظیر نے اپنی اعلیٰ قیادت سے پیپلز پارٹی کو ضیاالحق کے بدترین دور کے بعد دوبارہ سے زندہ کیا۔ مریم نواز میں یہ صلاحیت موجود ہے یا نہیں، آنے والے چند ماہ شاید ثابت کر دیں گے۔

خاندانی رقابت کا سامنا

مریم نواز کو پارٹی میں محض 'بڑوں' ہی کی موجودگی کا چیلنج درپیش نہیں بلکہ انہیں خاندانی رقابت کا بھی سامنا ہے۔ (ن) لیگ کی سیاست واضح طور پر دو مختلف دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ ایک جانب وہ لوگ ہیں جو نواز شریف اور مریم نواز کے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کے حامی ہیں اور جارحانہ انداز میں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر سوال اٹھانے کے حق میں ہیں۔ جبکہ دوسری جانب وہ دھڑا ہے جو اسیٹیبلشمنٹ کے ساتھ مصالحتی رویہ اپنانے کا قائل ہے۔ اس دھڑے کی قیادت شہباز شریف کے ہاتھوں میں ہے اور اس نے ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ سے بیک ڈور روابط قائم رکھے ہیں۔

حمزہ شہباز شریف اپنے والد کے نقش قدم پر چلنے کے لئے پرجوش ہیں اور پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر ان کی نظریں ہیں۔ اگرچہ سیاسی میدان میں انہیں مریم نواز سے زیادہ مواقع دیے جا چکے ہیں مگر مبصرین بتاتے ہیں کہ (ن) لیگ کے حامیوں پر جو کرشماتی اثر مریم نواز محض چند ہی سالوں میں ڈالنے میں کامیاب رہی ہیں، حمزہ شہباز ویسا چمتکار دہائیوں میں نہیں دکھا سکے۔ مریم نواز کے حامی سمجھتے ہیں کہ پارٹی ان کے چچا کے ہاتھوں میں یرغمال ہے اور مریم نواز کو فرنٹ فٹ پر آ کر پارٹی کو اپنے قبضے میں لے لینا چاہئیے۔

موروثی سیاست کا طعنہ

اگرچہ پاکستان تحریک انصاف مریم نواز کو ہدف تنقید بنانے کے لئے ان کی سیاست کو موروثی سیاست قرار دیتی آئی ہے تاہم یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ مریم نواز کی ذات میں وہ کرشمہ موجود ہے جو کسی بھی بڑے رہنما میں ہونا چاہیے ورنہ اگر صرف کسی کی بیٹی یا بیٹا ہونے کا فائدہ ہر کسی کو بلا کم و کاست پہنچتا تو پھر حمزہ شہباز مریم نواز سے کئی سال پہلے ہی مسلم لیگ (ن) کا نوجوان چہرہ بن چکے ہوتے۔

تنازعات

کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ

انٹرمیڈیٹ کے بعد مریم نواز نے جب لاہور کے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج میں داخلہ لیا تو اس طرح کی خبریں آئیں کہ مریم نواز میرٹ پر پوری نہیں اترتی تھیں اور انہوں نے اپنے والد کے اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے میڈیکل کالج میں داخلہ لیا ہے۔ اس اعتراض کے باعث مریم نواز کو ایم بی بی ایس کی تعلیم ادھوری چھوڑ کر کالج سے نکلنا پڑا۔
کیپٹن صفدر سے تعلقات اور شادی
24 اکتوبر 1990 کے عام انتخابات کے بعد نواز شریف جب پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنے تو کیپٹن صفدر اعوان ان کے اے ڈی سی تھے۔ ایک سال تک کیپٹن صفدر نے شریف خاندان کے قریب رہ کر یہ ذمہ داری نبھائی اور کہا جاتا ہے کہ اسی دوران مریم نواز اور ان کے بیچ میں تعلق قائم ہو گیا۔ مریم نواز کو کالج چھوڑنے اور وہاں سے واپس لانے کی ذمہ داری کیپٹن صفدر کی تھی۔ اسی دوران دونوں میں قربتیں پیدا ہو گئیں اور مریم نواز نے دسمبر 1992 میں محض 19 سال کی عمر میں خاندان کی مرضی کے خلاف کیپٹن صفدر کے ساتھ شادی کر لی۔

سیاسی مخالفین تب سے کہتے آ رہے ہیں کہ مریم نواز نے گھر سے بھاگ کر شادی کی تھی اور اس طرح کے الزام بھی لگاتے ہیں کہ مریم نواز شادی سے پہلے ہی حاملہ ہو چکی تھیں۔ یہ وہی دقیا نوسی سوچ ہے جس کا سامنا بینظیر بھٹو، محترمہ فاطمہ جناح، ریحام خان، بشریٰ بی بی سمیت پاکستانی سیاست میں سبھی خواتین کو کرنا پڑتا ہے۔
وزیر اعظم یوتھ پروگرام کی سربراہی سے برطرفی

22 نومبر 2013 کو انہیں وزیر اعظم یوتھ پروگرام کی چیئرپرسن بنا دیا گیا مگر لاہور ہائی کورٹ میں اس تقرری کے خلاف پاکستان تحریک انصاف نے درخواست دائر کر دی۔ الزام لگایا گیا کہ مریم نواز کی اس عہدے پر تقرری اقربا پروری کے نتیجے میں عمل میں آئی ہے وگرنہ مریم نواز اس عہدے کے لئے ہرگز اہل نہیں۔ ان پر سرکاری فنڈز کے ناجائز استعمال کا بھی الزام لگایا گیا۔ پی ٹی آئی نے یہ مؤقف بھی اپنایا کہ مریم نواز نے اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے 100 ارب روپے کی کرپشن کی ہے۔

نومبر 2014 میں لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے فیصلہ سنایا کہ انتظامیہ جلد از جلد مریم نواز سے استعفا طلب کرے۔ فیصلے کے اگلے ہی روز مریم نواز نے طلب کرنے سے پہلے ہی اپنا استعفا پیش کر دیا۔

ڈگریاں ہائی کورٹ میں چیلنج

اسی کیس کی سماعت کے دوران مریم نواز کی اہلیت ثابت کرنے کے لئے ڈپٹی اٹارنی جنرل عامر رحمان نے مریم نواز کی ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں عدالت میں پیش کیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے مریم نواز کے وکیل سے مطالبہ کیا کہ ان ڈگریوں کی صداقت ثابت کی جائے۔ مریم نواز کے وکیل ان کی پی ایچ ڈی کی ڈگری کے اصلی ہونے کے حق میں شواہد پیش کرنے میں ناکام رہے جس کے بعد سے مریم نواز کی ایم اے اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں مشکوک حیثیت اختیار کر چکی ہیں۔

ڈان لیکس کی ماسٹر مائنڈ

نواز شریف جب تیسری مرتبہ وزیر اعظم تھے تو وزیر اعظم ہاؤس میں مریم نواز کی سربراہی میں ایک میڈیا سیل بنایا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سیل خفیہ طور پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف خبریں جاری کیا کرتا تھا۔ 6 اکتوبر 2016 کو انگریزی اخبار ڈان میں صحافی سرل المیڈا نے وزیر اعظم ہاؤس میں ہونے والے ایک اہم اجلاس کے متعلق خبر دی کہ غیر ریاستی عناصر، کالعدم تنظیموں یا دہشت گرد عناصر سے نمٹنے کے معاملے پر فوج اور سول حکومت میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس معاملے کو ڈان لیکس کا نام دیا گیا اور کہا جاتا ہے کہ نواز شریف کی حکومت اور فوج کے مابین یہیں سے دراڑ پیدا ہوئی جو بعد میں پانامہ لیکس، نواز شریف کی نااہلی، پارٹی صدارت سے چھٹی اور عمران خان کی لانچنگ تک پہنچی۔

مذکورہ خبر کی اشاعت کی پاداش میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید اور خارجہ امور کے معاون خصوصی طارق فاطمی کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا تھا۔ اس وقت کی اپوزیشن پیپلر پارٹی نے کہا تھا کہ حکومت نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بارگین کر کے پرویز رشید کی قربانی دی ہے اور مریم نواز کو اس سارے معاملے سے صاف نکال لیا ہے حالانکہ ڈان لیکس تنازعہ کی ماسٹر مائنڈ مریم نواز ہیں۔

آمدنی اور اثاثوں سے متعلق متضاد بیانات

پانامہ لیکس کی تحقیقات کے دوران مریم نواز نے جے آئی ٹی کے سامنے یہ مؤقف اپنایا کہ ان کی کوئی ذاتی جائیداد نہیں ہے اور وہ اپنے والد کے زیر کفالت رہی ہیں۔ بعد میں انہوں نے یہ بتایا کہ شادی کے کچھ عرصے کے بعد ہی وہ اپنے شوہر کی کفالت میں چلی گئی تھیں۔ تاہم 2018 کے عام انتخابات میں لاہور میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 127 سے حصہ لینے کے لئے جب انہوں نے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تو اس میں انہوں نے لکھا کہ 84 کروڑ 59 لاکھ 53 ہزار 5 سو 59 روپے کے اثاثوں کی مالکہ ہیں۔ انہوں نے یہ بھی ظاہر کیا کہ وہ چودھری شوگر ملز، محمد بخش ٹیکسٹائل ملز، حمزہ سپننگ ملز، حدیبیہ پیپر ملز، حدیبیہ انجینئرنگ کمپنی، سوئفٹ انرجیز پرائیویٹ لمیٹیڈ اور فیملی فلور ملز کی شیئر ہولڈر ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی ڈیکلیئر کیا کہ ان کے نام کئی ایکڑ اراضی ہے۔
یہ تمام تنازعات اپنی جگہ مگر اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مریم نواز مسلم لیگ نواز کی سیاسی جانشین ہیں اور نواز شریف کے علاوہ اگر کارکنان کسی شخصیت کے ساتھ جڑے ہیں تو مریم نواز ہی ہیں۔ مریم نواز کو حال ہی میں مسلم لیگ (ن) کی سینیئر نائب صدر اور چیف آرگنائزر بنایا گیا ہے۔ اس ترقی سے اگرچہ کچھ امید پیدا ہوئی تھی کہ اب پارٹی کے بیش تر معاملات آئینی و قانونی طور پر مریم نواز کی سرپرستی میں دے دیے گئے ہیں لیکن سیاسی ماہرین بتاتے ہیں کہ اس ترقی سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ فرق تب پڑے گا جب مریم نواز کو پارٹی کی صدارت دی جائے گی اور وہ اپنے وژن کے مطابق پارٹی کی تنظیم نو کریں گی۔ مریم نواز کو جب تک پارٹی میں فری ہینڈ نہیں ملے گا، مسلم لیگ (ن) کی سیاست اسی طرح مصالحت اور مزاحمت کے دو دھڑوں کے بیچ جھولتی رہے گی۔

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں اور عالمی ادب، سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ وہ نیا دور کے ساتھ بطور تحقیق کار اور لکھاری منسلک ہیں۔