محسن نقوی موجودہ سیٹ اپ کے لئے ناگزیر کیسے بنے؟

عمران خان جب زمان پارک میں میلہ لگا کے بیٹھ گئے اور روز وی لاگ کرنے لگے تو ان کی رہائش گاہ کے باہر جمع کیے گئے کارکنان کے خلاف پولیس نے آپریشن بھی نگران حکومت کے دور ہی میں کیا۔ عمران خان جو اس وقت تک ناقابل تسخیر محسوس ہو رہے تھے، عدالتی حکم پر ان کی گرفتاری بھی محسن نقوی ہی کی راجدھانی سے ممکن ہو پائی۔

محسن نقوی موجودہ سیٹ اپ کے لئے ناگزیر کیسے بنے؟

زرداری کا بچہ، عاصم منیر کا لاڈلہ، پی ٹی آئی کا مخالف؛ محسن نقوی میں کوئی تو بات ہے جو آج حکومت میں وہ اہم ترین عہدے پر فائز ہیں۔ رانا ثناء اللہ بھی کہتے ہیں کہ محسن نقوی چاہتے تو وزیر اعظم بھی بن سکتے تھے، یہ تو ان کی مہربانی ہے کہ انہوں نے وزیر داخلہ بننے پہ اکتفا کیا۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ بھی جب موجودہ سیٹ اپ میں جذب نہیں کیے جا سکے تو محسن نقوی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سے وفاقی وزیر داخلہ کیسے بن گئے؟ ان میں ایسے کون سے سرخاب کے پَر لگے ہیں؟ آخر محسن نقوی موجودہ سیٹ اپ کے لیے اتنے ناگزیر کیسے بن گئے؟

یہ سمجھنے کے لئے ہمیں ماضی میں جھانکنا پڑے گا۔

محسن نقوی صحافی ہیں۔ پاکستانی میڈیا میں انہوں نے اس وقت ایک نیا ٹرینڈ متعارف کروایا جب میٹروپولیٹن سطح کے مسائل کی کوریج کے لیے لاہور سے ٹی وی چینل 'سٹی 42' لانچ کیا گیا۔ تب تک صحافتی حلقوں میں اگرچہ وہ نمایاں نام تھے مگر گھر گھر ان کا نام اس وقت پہنچا جب پی ڈی ایم حکومت کے زعما نے انہیں پنجاب کا نگران وزیر اعلیٰ بنایا۔

محسن نقوی اتنے بااثر کیوں ہیں؟ اس کی ایک وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ موجودہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات ہیں اور موجودہ فوجی قیادت کے وہ لاڈلے ہیں۔

دوسری دلیل یہ کہ محسن نقوی صدر پاکستان آصف علی زرداری کے بھی چہیتے ہیں۔ آصف زرداری کو ایک ملاقات میں محسن نقوی کو 'اپنا بچہ' کہتے بھی سنا جا چکا ہے۔

محسن نقوی کی ایک قابلیت یہ بھی سمجھتی جاتی ہے کہ پچھلے دو سالوں میں سیاسی منظرنامے پر موجود بڑی جماعتوں اور نمایاں شخصیات کے مابین راہ و رسم بہتر بنانے میں انہوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ مثال کے طور پر آصف زرداری اور چوہدری شجاعت حسین کی ملاقات کروا کر انہیں پی ٹی آئی کے خلاف اتحاد بنانے پر قائل کرنے میں وہ پیش پیش تھے۔ محسن نقوی ہی کی کوششوں سے نواز شریف بھی چوہدری شجاعت سے ملنے ان کی رہائش گاہ پہنچے تھے۔

عام انتخابات کے بعد جب ن لیگ اور پیپلز پارٹی مل کر حکومت تشکیل دینے سے احتراز برت رہی تھیں تو محسن نقوی ہی نے لاہور میں اپنی رہائش گاہ پر آصف زرداری کی ن لیگ کی ٹاپ لیڈرشپ سے ملاقات ارینج کروائی جس میں دونوں جماعتیں مل کر حکومت بنانے پر متفق ہو گئی تھیں۔

یہ سب کچھ اپنی جگہ تاہم ان کی اصل دھاک 9 مئی 2023 کے بعد بننے والی مجموعی سیاسی فضا کے باعث قائم ہوئی۔ 9 مئی جب ہوا تو محسن نقوی نگران وزیر اعلیٰ تھے۔ اس کے بعد فوج نے تحریک انصاف سے متعلق جو لائن لی محسن نقوی آنکھیں بند کر کے اس لائن پر چلتے چلے گئے۔ بڑے پیمانے پر پی ٹی آئی کارکنوں کی پکڑ دھکڑ ہوئی، ان کے خلاف مقدمے بنے، پی ٹی آئی کے جلسے جلوسوں اور کارنر میٹنگز پر پابندی لگی اور یہ سب کچھ اس وجہ سے ممکن ہوا کہ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کے ذہن میں اس سے متعلق ذرہ برابر بھی کنفیوژن نہیں تھی۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

عمران خان جب زمان پارک میں میلہ لگا کے بیٹھ گئے اور روز وی لاگ کرنے لگے تو ان کی رہائش گاہ کے باہر جمع کیے گئے کارکنان کے خلاف پولیس نے آپریشن بھی نگران حکومت کے دور ہی میں کیا۔ عمران خان جو اس وقت تک ناقابل تسخیر محسوس ہو رہے تھے، عدالتی حکم پر ان کی گرفتاری بھی محسن نقوی ہی کی راجدھانی سے ممکن ہو پائی۔

عام انتخابات سے قبل اسٹیبلشمنٹ کی بھرپور کوشش تھی کہ تحریک انصاف کو مینج کر لیا جائے مگر مینجمنٹ کی یہ حکمت عملی انتخابات میں وہ رزلٹ نہ دے سکی جو اسٹیبلشمنٹ کو مطلوب تھا۔ انتخابات مجبوری میں کروانے پڑے کیونکہ عالمی برادری اور آئی ایم ایف کا دباؤ تھا، وگرنہ انتخابات کے لیے فوری طور پر اسٹیبلشمنٹ تیار تھی اور نا ہی ن لیگ۔ دونوں کو محسوس ہو رہا تھا کہ عمران خان کے قبضے میں دی گئی عوامی جگہ خالی کروانے اور اس پر پھر سے تسلط جمانے میں انہیں مزید وقت لگے گا۔ اگرچہ انتخابات کے انعقاد سے متعلق خوب ابہام پیدا کروایا گیا، پارلیمنٹ سے انتخابات ملتوی کروانے کے حق میں اوپر نیچے قراردادیں بھی منظور کروائی گئیں، مولانا بھی سکیورٹی خدشات کا راگ الاپتے رہے مگر سپریم کورٹ بیچ میں آ گئی اور چار و ناچار انتخابات کروانے ہی پڑے۔

انتخابی نتائج جوں ہی آنا شروع ہوئے تو اسٹیبلشمنٹ اور ن لیگ دونوں کے اندیشے سچ ثابت ہونے لگے۔ اسی بنا پر تو دونوں کہہ رہے تھے کہ کچھ وقت مزید درکار ہو گا مگر تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

سہیل وڑائچ کے بقول جب اسٹیبلشمنٹ انتخابی نتائج کے کیچڑ میں پھنسنے لگی تو راتوں رات جادو کی چھڑی گھما کر آئی ایس آئی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے فوج کو اس کیچڑ سے نکال لیا اور نتائج قدرے قابل قبول بنا لیے گئے۔ اگرچہ اس 'ریسکیو کارروائی' کے فوراً بعد نتائج پر سوال اٹھنے شروع ہو گئے تاہم اگر رات کے پچھلے پہر بھی 'وہ' ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہ جاتے تو یہ انتخابی کیچڑ ان کے لیے گہری دلدل بھی بن سکتا تھا۔

انتخابات سے موافق نتائج برآمد نہ کروائے جا سکے تو آگے کا سوچا گیا۔ تحریک انصاف کسی ایک صوبے کا مسئلہ تو تھی نہیں۔ پنجاب اگرچہ مرکزی میدان جنگ تھا مگر انتخابی نتائج خیبر پختونخوا کو بھی پی ٹی آئی کی محفوظ ترین پناہ گاہ ثابت کر چکے تھے۔ کراچی میں بھی انصافی چنگاریاں موجود تھیں تو سوچا گیا کہ بجائے اس کے کہ ہر جگہ الگ الگ بندہ لگایا جائے، مرکز میں ایک ہی بندہ لگا لیا جائے جو قابل اعتبار ہو اور یہاں بیٹھ کے تمام صوبوں کا امن و امان اپنے ہاتھ میں رکھے۔ یوں نئے منظرنامے میں وزارت داخلہ اور بھی اہم سٹریٹجک پوزیشن بن کر ابھری اور حالت جنگ میں اہم ترین پوزیشنز ہمیشہ قابل اعتبار ہاتھوں ہی میں سونپی جاتی ہیں۔

سوچیں، رانا ثناء اللہ اگر انتخاب جیت جاتے تو وزارت داخلہ کے لیے ان سے زیادہ موزوں شخص ن لیگ کے پاس اور کوئی نہیں تھا۔ اسی موزونیت کو بھانپتے ہوئے اور مستقبل میں کسی متوقع پھڈے سے بچنے کے لیے رانا ثناء کا انتخابی پتا صاف کروا دیا گیا اور وزارت داخلہ کا سٹیج 'اپنے' بندے کے لیے سیٹ کر دیا گیا۔

اس میں کوئی ابہام نہیں کہ محسن نقوی 'ان' کا بندہ ہے اور پچھلے دو سالوں میں اس نے ثابت کیا ہے کہ 'وہ' جو بھی چاہ رہے ہیں محسن نقوی اسے حقیقت میں بدلنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑے گا۔ اس سارے تناظر میں وزیر داخلہ کیلئے محسن نقوی سے زیادہ موزوں شخص اور کون ہو سکتا تھا؟

خضر حیات فلسفے کے طالب علم ہیں۔ وہ عالمی ادب، بین الاقوامی سنیما اور موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔