پارلیمانی بالادستی کو تسلیم کیے بغیر ترقی ممکن نہیں؛ محمود خان اچکزئی

ماضی میں عوام کی اکثریت کو حق حکمرانی اور نمائندگی سے محروم کرنے کی غرض سے ایک ایسا فارمولا ایجاد کیا گیا جس نے 54 فیصد آبادی کو 46 فیصد کے برابر قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے لیکن طاقتور حلقوں نے اس کے بعد بھی کوئی سبق نہیں سیکھا۔

پارلیمانی بالادستی کو تسلیم کیے بغیر ترقی ممکن نہیں؛ محمود خان اچکزئی

جب تک ملک کا ہر ادارہ اور طاقت کے مرکز آئین پر من و عن عمل نہیں کرتے اور عوامی و پارلیمانی بالادستی کو تسلیم نہیں کرتے، ملک موجودہ بحرانوں سے نکل پائے گا اور نہ یہ کامیاب ریاست بن سکتا ہے۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے چیئرمین محمود خان اچکزئی نے ان خیالات کا اظہار اپنی عوامی رابطہ مہم کے پہلے فیز کے اختتام پر مختلف اجتماعات سے خطاب میں کیا۔

اس سلسلے کا آخری عوامی اجتماع لورالائی شہر کے سرکاری جار (گراؤنڈ) میں منعقد ہوا۔ انہوں نے مزید کہا کہ صرف نام نہاد انتخابات کے انعقاد اور اس مقصد کیلئے لوٹوں جن کو الیکٹ ایبلز بھی کہتے ہیں، کو خاص طرف دھکیل کر ماضی میں مثبت نتائج حاصل ہوئے اور نہ آئندہ ہو سکتے ہیں۔ اگر ایک گاؤں کے امور کو ایک متفقہ چارٹر و روایات پر من و عن عمل نہ کرتے ہوئے نہیں چلایا جا سکتا تو ایک کثیر القومی ریاست کو کیسے چلایا جا سکتا ہے اور اس میں عوام کے خوابوں کو کیسے شرمندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ماضی میں عوام کی اکثریت کو حق حکمرانی اور نمائندگی سے محروم کرنے کی غرض سے ایک ایسا فارمولا ایجاد کیا گیا جس نے 54 فیصد آبادی کو 46 فیصد کے برابر قرار دیا۔ اس کے نتیجے میں ملک کے دو ٹکڑے ہو گئے لیکن طاقتور حلقوں نے اس کے بعد بھی کوئی سبق نہیں سیکھا اور الیکشن انجینیئرنگ کے نت نئے فارمولے اور طریقے عمل میں لائے گئے جس کی وجہ سے ملک آج گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ اس ملک کی تقدیر تب تک نہیں بدلی جا سکتی جب تک حقیقی جمہوریت اور عوامی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا جاتا۔ جمہوریت تو تب نتائج دے گی اور اچھی حکمرانی وجود میں آ سکتی ہے جب منتخب اداروں پر غیر منتخب لوگوں کی قدغنیں نہ ہوں اور عوامی نمائندوں کے احتساب کا حق عوام کو ہو۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہر ادارہ آئین کی متعین کردہ حدود میں رہے کیونکہ جدید دور میں ادارے آئین کے مرہون منت ہیں۔ جمہوریت تو تب فائدہ مند ہو گی جب اس کی جڑیں مضبوط ہوں۔ پچھلے 75 سالوں سے تو ہم جمہوریت قائم کرنے کی جدوجہد کر رہے ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ میں جب پہلی مرتبہ اپنے والد سے ملا تو عمر اس وقت 6 سال تھی کیونکہ میری پیدائش کے وقت وہ جیل میں تھے۔ میرے والد کی شہادت کے وقت میری عمر 25 سال تھی اور اس تمام عرصہ میں اگر میں گھنٹے اور منٹ کا بھی حساب کروں تو انہوں نے ہمارے ساتھ بمشکل دو سال گزارے ہوں گے۔ قید و بند کی یہ ساری مصیبتیں انہوں نے جمہوریت اور حقوق کیلئے جدوجہد کی پاداش میں برداشت کیں۔ لیکن افسوس ہے کہ ہم آج بھی اس جدوجہد میں لگے ہوئے ہیں لیکن حقیقی جمہوریت کی منزل تک نہیں پہنچ سکے۔

اچکزئی نے نگران حکومت کو خبردار کیا کہ معدنیات کیلئے وفاقی سطح پر وزرات بنانے سے باز رہے کیونکہ یہ آپ کا مینڈیٹ نہیں ہے اور اٹھارھویں ترمیم کو رول بیک کرنے کے مترادف ہے۔ 

اس سے پہلے محمود خان اچکزئی نے لورالائی کی ہزارہ کمیونٹی سے ان کی امام بارگاہ میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ خواہ ریاست ہو، کوئی گروہ یا فرد، کسی کے ساتھ عقیدے، فرقے اور نسل کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کرنا چاہئیے۔ ہماری جدوجہد محکوم اقوام اور پسے ہوئے طبقات کے حقوق کیلئے ہے۔ جو حقوق ہم پختونوں کیلئے مانگتے ہیں وہی حقوق دوسروں کیلئے بھی مانگتے ہیں۔