'ریاست نے خود کو انتہاپسندوں کے ہاتھوں یرغمال بننے کی اجازت دی'

ہمیں نصاب بدلنے کی ضرورت ہے جو اس طرح کی سوچ پیدا کرتا ہے کہ مسیحیوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ایسا نصاب چاہئیے جو ہماری سوچ میں تبدیلی لائے۔ ریاست کے طور پر ہم نے لوگوں کو جاہل رکھا ہے، ہم نے انہیں تعلیم نہیں حاصل کرنے دی اور جو تعلیم ملی وہ بھی جعلی قسم کی مذہبیت اور اشتعال انگیزی کو فروغ دیتی تھی۔

'ریاست نے خود کو انتہاپسندوں کے ہاتھوں یرغمال بننے کی اجازت دی'

جڑانوالہ واقعے پر جن دو مسیحی افراد پر قرآن پاک کی بے حرمتی کا الزام لگا ہے وہ دونوں پڑھے لکھے نہیں ہیں۔ اور پھر اس طرح کی تحریر لکھ کر کوئی خود ہی اپنا نام اور پتہ کیوں چھوڑ کر جائے گا؟ پاکستان میں پچھلے 30 سال سے ایسے واقعات تواتر کے ساتھ پیش آ رہے ہیں۔ ریاست کی یہ خرابی ہے کہ اس نے اپنے آپ کو انتہاپسندوں کے ہاتھوں یرغمال بننے دیا ہے۔ مذکورہ واقعے میں بھی پولیس اور انتظامیہ نے کوتاہی دکھائی ہے۔ یہ کہنا ہے سینٹر فار سوشل جسٹس کے سربراہ پیٹر جیکب کا۔

'نیا دور' کے ساتھ خصوصی گفتگو میں انسانی حقوق کے کارکن اور سول سوسائٹی کے معتبر نمائندے پیٹر جیکب کا کہنا تھا کہ توہین مذہب کے الزامات کے پیچھے بہت سارے محرکات ہوتے ہیں جیسا کہ ذاتی دشمنی، زمین جائیداد پر قبضہ کرنا یا کسی کو ملازمت سے فارغ کروانا وغیرہ۔ رمشا مسیح کے کیس میں اس بچی پر الزام ایک امام مسجد نے لگایا تھا اور بعد میں پتہ چلا کہ اس نے خود قرآن کی بے حرمتی کی تھی اور بچی پر الزام لگا دیا تھا۔ اس ملک میں قائداعظم پر بھی تکفیر کا الزام لگا تھا، یہ اس خطے کی روایت بن چکی ہے۔ اس میں کسی ایک سیاسی یا مذہبی جماعت کا کردار نہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں نصاب بدلنے کی ضرورت ہے جو اس طرح کی سوچ پیدا کرتا ہے کہ مسیحیوں پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ایسا نصاب چاہئیے جو ہماری سوچ میں تبدیلی لائے۔ ریاست کے طور پر ہم نے لوگوں کو جاہل رکھا ہے، ہم نے انہیں تعلیم نہیں حاصل کرنے دی اور جو تعلیم ملی وہ بھی جعلی قسم کی مذہبیت اور اشتعال انگیزی کو فروغ دیتی تھی۔ توہین مذہب کے قوانین ایک ایسی حکومت نے بنائے جو منتخب حکومت نہیں تھی بلکہ یہ آرڈی ننس کے تحت لائے گئے۔ اس قانون کے تحت اب تک لگ بھگ 90 لوگ جھوٹے الزامات میں جان گنوا چکے ہیں۔

مفتی تقی عثمانی کی مذمت

دوسری جانب نامور عالم دین مفتی تقی عثمانی نے جڑانوالہ واقعے پر ردعمل میں کہا ہے کہ اسلام میں ایسی حرکتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ٹوئٹر پر جاری بیان میں مفتی تقی عثمانی نے لکھا کہ جڑانوالہ کا واقعہ پوری قوم کے لیے شرمناک ہے، اگر کسی نے کوئی گستاخی کی ہے تو اس کا قانونی راستہ موجود ہے۔ اس کے ردعمل میں گرجا گھروں کو جلانے یا پُرامن عیسائی شہریوں کو کسی بھی قسم کا نقصان پہنچانا انتہائی قابل مذمت ہے، اسلام میں ایسی حرکتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ان سے قبل علماء کونسل کے سربراہ مولانا طاہر اشرفی اور مفتی منیب الرحمان بھی جڑانوالہ واقعے کی مذمت کر چکے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل کا مؤقف

اس سے قبل اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر قبلہ ایاز بھی جڑانوالہ واقعے کے منصوبہ سازوں اور مساجد سے اعلانات کرنے والوں کو سزائیں دینے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ ڈاکٹر قبلہ ایاز کا کہنا ہے کہ اسلام تمام مذاہب کی عبادت گاہوں اور مذہبی شعائر کے احترام کا درس دیتا ہے۔ دوسرے مذاہب کے افراد اور عبادت گاہوں پر حملے کی قانون اور اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے، ان واقعات میں ملوث تمام شرپسندوں کے خلاف بلاتفریق قانونی کارروائی کی جائے۔

آرمی چیف کا بیان

قبل ازیں آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے جڑانوالہ میں پیش آنے والے واقعے کو انتہائی افسوس ناک اور ناقابل برداشت قرار دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ اقلیتوں کے خلاف عدم برداشت اور انتہائی رویے کے واقعات کی کوئی گنجائش نہیں۔ پاکستان کے تمام شہری بلا تفریق مذہب، جنس، ذات یا عقیدہ ایک دوسرے کیلئے برابر ہیں۔ کسی کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ ایسے جرائم کے مرتکب افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔

دفتر خارجہ کی مذمت

پاکستان کے دفتر خارجہ نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جڑانوالہ میں پیش آنے والے افسوس ناک واقعے میں ملوث افراد کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔ ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ پورے ملک کے عوام مسیحی برادری سے سلوک پر دکھی ہیں۔ اس واقعے میں ملوث افراد کو کسی صورت معاف نہیں کیا جائے گا۔

16 گرجا گھروں کو آگ لگائی گئی؛ سپیشل برانچ

پولیس کی سپیشل برانچ کی ابتدائی رپورٹ کے مطابق جڑانوالہ میں 16 گرجا گھروں کو آگ لگائی گئی۔ رپورٹ کے مطابق صبح 8 بج کر 15 منٹ پر 70 سے 80 افراد نے احتجاج شروع کیا اور کاروباری مراکز بند کرائے۔ شہر اور کئی دیہات کی مساجد میں اعلانات کے بعد لوگ جڑانوالہ پہنچے۔

رپورٹ کے مطابق کرسچن کالونی میں 11 بجے مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی، چرچ اور گھروں کو آگ لگائی، مشتعل مظاہرین نے اسسٹنٹ کمشنر کے گھر کو بھی آگ لگائی، مظاہرین نے عیسیٰ نگری میں 15 گھروں اور 3 گرجا گھروں کو آگ لگائی، پولیس نے مظاہرین پر لاٹھی چارج  اور آنسو گیس کی شیلنگ کی۔

100 سے زائد لوگ گرفتار؛ پنجاب حکومت

ترجمان پنجاب حکومت کے مطابق قرآن کی بے حرمتی کو بنیاد بنا کر اقلیتوں کی آبادیوں پر حملہ آورہونے کی کوشش کی گئی جسے پولیس نے ناکام بنایا، امن کمیٹی کو متحرک کردیا کیا گیا ہے اور پولیس نے 100 سے زائد لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔

واضح رہے کہ گذشتہ دنوں جڑانوالہ میں توہینِ مذہب کے مبینہ واقعے کے خلاف احتجاج کرنے والے مشتعل افراد نے کرسچین کالونی اور عیسیٰ نگری میں متعدد گرجا گھر، مسیحی برادری کے درجنوں مکان، گاڑیاں اور مال و اسباب جلا دیے تھے۔

مسجد سے اعلانات کر کے لوگوں کو اشتعال دلانے والے ملزم کو ویڈیو کے ذریعے گرفتار کر لیا گیا ہے جبکہ ویڈیوز کی مدد سے فسادات میں ملوث مزید ملزمان کی شناخت اور گرفتاریوں کی کوشش جاری ہے۔