ہیپاٹائٹس کی وبا؛ ضلع کشمور کے مکینوں کا الیکشن بائیکاٹ کا اعلان

گندا پانی پینے سے ضلع کشمور کے گاؤں شفیع محمد جعفری میں 200 سے زائد خواتین، بچے اور بڑے ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔ بیمار بچوں کی تعداد 27، خواتین کی 36 اور دیگر افراد کی تعداد 150 تک ہے جو ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ گاؤں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ہم سے کیا گیا ایک بھی وعدہ وفا نہیں ہوا تو ہم ووٹ کس ضمن میں دیں؟

ہیپاٹائٹس کی وبا؛ ضلع کشمور کے مکینوں کا الیکشن بائیکاٹ کا اعلان

صوبہ سندھ کا ضلع کشمور پنجاب کے سنگم پر واقع ہے۔ یہ تین تحصیلوں؛ کشمور، کندھ کوٹ اور تنگوانی پر مشتمل ہے۔ ان میں ایک میونسپل کمیٹی کندھ کوٹ اور 6 ٹاؤن کمیٹیاں قائم ہیں جن میں غوث پور، کرم پور، بخشا پور، گڈو، کشمور اور تنگوانی شامل ہیں۔ ضلع کشمور میں یوں تو ہزاروں مسائل ہیں مگر سب سے بڑا مسئلہ بنیادی صحت کی سہولیات کا ہے جو عوام کو میسر نہیں۔

صحافی علی شیر جعفری مقامی صحافی اور سندھی نیوز چینل کے ٹی این کے نمائندے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر بار بلدیاتی انتخابات ہوں یا پھر عام انتخابات، عوامی نمائندگان عوام کے پاس جب بھی ووٹ لینے جاتے ہیں تو ایک ہی مسئلہ سنتے ہیں کہ یہاں سرکاری ہسپتال کی سہولیات ناپید ہیں جبکہ صاف پانی کی عدم فراہمی سے لوگ اکثر بیمار رہتے ہیں۔ یہاں ایک علاقہ گاؤں شفیع محمد جعفری ہے جس میں 200 سے زائد خواتین، بچے اور بڑے ہیپاٹائٹس کا شکار ہیں۔ بیمار بچوں کی تعداد 27، خواتین کی 36 اور دیگر افراد کی تعداد 150 تک ہے جو ایک ہی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ مجموعی طور پر بیمار افراد کی تعداد 200 کے قریب ہے۔ اس گاؤں کے لوگ بیماری سے تڑپ رہے ہیں جس کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات میں ووٹ دینے سے صاف انکار کر رہے ہیں۔ گاؤں کے مکینوں کا کہنا ہے کہ ہم سے کیا گیا ایک بھی وعدہ وفا نہیں ہوا تو ہم ووٹ کس ضمن میں دیں؟

یونین کونسل صیفل تحصیل تنگوانی میں واقع ہے۔ اسسٹنٹ الیکشن کمشنر جمیل احمد منگی نے بتایا کہ ریکارڈ کے مطابق یو سی صیفل کے گاؤں شفیع محمد جعفری میں 100 سے زائد گھر ہیں اور گاؤن کی آبادی 5 ہزار سے زائد افراد پر مشتمل ہے۔ مذکورہ گاؤں میں ووٹرز کی تعداد 2 ہزار کے لگ بھگ ہے۔

سول ہسپتال کندھ کوٹ کے ہیپاٹائٹس پروگرام کے انچارج ذوالفقار اوگاہی نے بتایا کہ گوٹھ شفیع محمد جعفری کے رہائشی صحت کی بنیادی سہولیات سے مکمل طور پر محروم ہیں۔ آلودہ پانی پینے سے یہاں کے رہائشی 200 سے زائد بچے، بڑے اور خواتین ہیپاٹائٹس سی اور بی کی جان لیوا بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران 20 سے زائد افراد ہیپاٹائٹس سی کی بیماری میں مبتلا ہو کر جان کی بازی ہار چکے ہیں۔ ہیپاٹائٹس کے باعث مرنے والوں کا ریکارڈ کندھ کوٹ سول ہسپتال میں موجود ہے۔ ریکارڈ کے مطابق مرنے والوں کے نام اور عمریں یہ ہیں؛

استاد محمد حسن عمر 45 سال، صوبھو خان جعفری (25 سال)، فدا حسین (23 سال)، عمران علی (18 سال)، قربان علی (17 سال)، گل حسن (24 سال)، سیانی خاتون (23 سال)، ساھجاں خاتون (27 سال)، علی حسن (40 سال)، کلات خان (45 سال) اور دیورغ خان (18 سال)۔

ان کے علاوہ وہ مریض جو اب تک ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہیں ان کی تفصیلات بھی سول ہسپتال کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ ریکارڈ کے مطابق علی شیر جعفری، علی بیگ، نور حسن، محمد شعبان، اللہ بخش، امام بخش، بجار علی، علی محمد، ثناء اللہ سمیت 200 سے زائد لوگ ایک ہی خاندان جعفری برادری سے تعلق رکھتے ہیں جو ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا ہو کر زندگی اور موت کی کشمکش سے گزر رہے ہیں۔

گاؤں شفیع محمد کے رہائشی 40 سالہ شربت علی جعفری کا کہنا ہے کہ گاؤں شفیع محمد جعفری کے 2 ہزار ووٹرز ہیں اور ہم لوگ ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم ہر الیکشن میں ووٹ دیتے ہیں مگر ہماری ایک ہی شرط ہوتی ہے کہ ہمارے گاؤں میں میٹھے پانی کی سہولت فراہم کی جائے اور ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کا علاج کرایا جائے۔ عوامی نمائندگان ہر الیکشن سے پہلے صحت کے مراکز کو فعال کرنے کا وعدہ کرتے ہیں لیکن جب الیکشن ختم ہو جاتا ہے تو پھر مڑ کر واپس نہیں آتے۔ اسی وجہ سے اس مرتبہ ہم ووٹ دینے سے قاصر ہیں۔

ضلع کشمور کے حلقہ تنگوانی سے گذشتہ انتخابات میں کون کامیاب ہوا؟

2008 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر سردار میر محبوب علی خان بجارانی نے پی ایس 16 تنگوانی کی نشست سے جیت حاصل کی تھی مگر انہوں نے بھی مذکورہ گاؤں میں عوام سے وعدے وفا نہیں کیے۔ 2013 کے عام انتخابات میں تنگوانی تحصیل پی ایس 16 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنما مرحوم میر ہزار خان بجارانی صوبائی اسمبلی کے ممبر بنے تھے جنہوں نے جے یو آئی کے امیدوار میر جہانگیر خان بنگلانی کو ہرایا تھا۔ 2018 کے عام انتخابات میں اس حلقے کا نام تبدیل کر کے پی ایس 6 رکھا گیا جہاں سے پاکستان پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مرحوم میر ہزار خان بجارانی کے فرزند میر شبیر علی خان بجارانی بلا مقابلہ رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور اس کے بعد مسلسل 5 سال تک صوبائی وزیر کی حیثیت سے ذمہ داریاں ادا کیں۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ ان تمام جیتنے والے امیدواران نے زبانی کلامی وعدے کئے تھے کہ ان کی ترجیحات میں گاؤں شفیع محمد میں بیمار افراد کے علاج کا انتظام کرنا، صحت کے مراکز قائم کرنا اور صاف پانی کی دستیابی کو یقینی بنانا شامل ہیں مگر یہ تمام وعدے وفا نہ ہو سکے۔ ان عوامی نمائندگان نے روٹی، کپڑا اور مکان کا نعرہ بھی لگایا تھا مگر یہ وعدہ بھی پورا نہیں ہو سکا۔

گاؤں شفیع محمد کے رہائشی 30 سالہ ظفر علی نے کہا کہ میں نے انٹر تک تعلیم حاصل کی ہے اور اس وقت پرائیویٹ جاب کرتا ہوں مگر ہمارا مسئلہ گاؤں کا گدلا پانی ہے جو کچھ دیر میں پیلا بن جاتا ہے۔ اسے پینے سے ہمارے گاؤں کے سینکڑوں افراد ہیپاٹائٹس کا شکار ہو رہے ہیں۔ گذشتہ 5 سالوں کے دوران 20 سے زائد افراد جاں بحق بھی ہوئے ہیں جبکہ سینکڑوں بیمار ہیں۔ ایسی صورت حال میں تا حال کوئی میڈیکل ٹیمیں معائنہ کرنے نہیں پہنچی ہیں حالانکہ بارہا انتظامیہ کو آگاہ بھی کیا گیا ہے۔ عوامی نمائندگان میں پی ایس 6 کے ایم پی اے میر شبیر علی خان بجارانی 2018 کے عام انتخابات میں بلا مقابلہ کامیاب ہو کر ہمارے گاؤں میں ہیپاٹائٹس سی سے مرنے والے لوگوں کی تعزیت کے لیے پہنچے تھے تو وہاں پر انہوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ آپ کے گاؤں میں میٹھے پانی کی فراہمی اور بیمار افراد کا مکمل علاج کرایا جائے گا۔ مگر یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا اور اس لیے آئندہ عام انتخابات میں ہماری ایک ہی شرط ہو گی کہ ہمیں میڈیکل کی سہولت اور پانی کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔ تب جا کر ہم ووٹ دیں گے ورنہ الیکشن کا بائیکاٹ کریں گے۔

35 سالہ بجار علی جعفری سوشل ورکر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم نے کئی بار میڈیا پر اپنے گاؤں میں ہیپاٹائٹس سی کنٹرول کرنے کیلئے انتظامیہ کو آگاہ کیا ہے مگر ہماری آواز کو کوئی سننے والا ہی نہیں ہے، جائیں تو جائیں کہاں؟ آئندہ عام انتخابات میں جو بھی نمائندہ ووٹ لینے آئے گا پہلے ہمارے گاؤں کے لوگوں کا علاج کرائے گا جو کہ ہمارا بنیادی حق ہے۔ بجار علی نے مزید کہا کہ اب عوامی نمائندگان کے جھوٹے وعدوں سے تنگ آ گئے ہیں۔ پہلے مسئلہ حل کریں پھر ہم ووٹ دیں گے۔ جہاں تک مقامی نمائندگان کے جھوٹے وعدوں کی بات ہے تو اب ہم ان کے وعدوں پر یقین نہیں کریں گے۔

ڈی ایچ او ڈاکٹر بابو لال نے بتایا کہ ہیپاٹائٹس بی اور سی جان لیوا امراض ہیں، ان سے بچاؤ کے لیے مریضوں کو فوراً ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہئیے۔ آپ کی نشاندہی پر گاؤں شفیع محمد جعفری میں 200 سے زائد مریض اگرچہ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہیں تو ہم فوراً ہی وہاں اپنی میڈیکل ٹیمیں روانہ کریں گے اور مریضوں کی تشخیص کر کے معلوم کیا جائے گا کہ کتنے پازیٹو ہیں۔ ان کے علاج کے لیے 3 سے 6 ماہ تک کا کورس ہیپاٹائٹس کے پروگرام کے تحت کیا جائے گا اور مریضوں کو ریلیف دیں گے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہیپاٹائٹس ایسی بیماری ہے جو خون کے ذریعے دوسرے شخص میں منتقل ہوتی ہے۔ اس مرض کے شکار شخص کے ساتھ ملاپ کرنے سے بھی بیماری ٹرانسفر ہوتی ہے اور اس کے علاوہ کڑوا گدلا پانی استعمال کرنے سے بھی یہ مرض بڑھتا ہے۔ مریض کی آنکھیں پیلی ہو جاتی ہیں۔ 3 ماہ تک ان کا مکمل کورس ہوتا ہے۔ اگر مرض شدت اختیار کر جائے تو پھر اس مریض کو 6 ماہ تک علاج کرانا پڑتا ہے۔ اس کے بعد مرض پر کنٹرول ہو جاتا ہے۔

ڈپٹی کمشنر امیر فضل گھمرو نے کہا کہ ہیپاٹائٹس پروگرام کے عمل داروں کو طلب کر کے میڈیکل کی ٹیمیں روانہ کروں گا تا کہ مرض میں مبتلا افراد کا علاج ہو سکے۔ انہوں نے بتایا کہ مجھے یہاں چارج سنبھالے ابھی ایک مہینہ ہی ہوا ہے، یہاں پر اسپتالوں کی حالت زار دیکھ کر افسوس ہی کیا جا سکتا ہے کیونکہ ہیپاٹائٹس کی تشخیص سن کر حیران ہوں کہ اس حلقے کے عوامی نمائندگان نے جان لیوا مرض کے خاتمے کے لیے کوئی تدارک نہیں کیا۔

ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کندھ کوٹ ستار سردار نے کہا کہ کسی بھی حلقے میں ووٹرز کی ناراضگی سے امیدواران کو ووٹ کرنے یا نہ کرنے کی کوئی پابندی نہیں ہوتی ہے۔ اگر گاؤں شفیع محمد جعفری کے مکین ووٹ دینے سے انکار کر رہے ہیں تو یہ ان کا اپنا فیصلہ ہے۔ ای سی پی میں ایسا کوئی قاعدہ نہیں کہ ووٹرز کو جبراً ووٹ دینے کا پابند بنایا جائے۔ یہ ان کا حق ہے کہ اپنے ہی کسی ایسے امیدوار کا انتخاب کریں جو ان کے بنیادی مسائل حل کرے۔ ہمارا کام لوگوں کو آگاہ کرنا ہے تاکہ وہ اپنا حق رائے دہی استعمال کر کے اپنے مسائل حل کر سکیں۔ اس کے علاوہ اس معاملے کے متعلق اور کچھ نہیں کہہ سکتا۔

اس ساری صورت حال پر متعلقہ حلقے کے نمائندے سابق صوبائی وزیر میر شبیر علی خان بجارانی سے رابطہ کیا گیا۔ میر شبیر علی خان بجارانی نے فون پر بات کرتے ہوئے بتایا کہ یو سی صیفل کے عوام میرے اپنے لوگ ہیں، مجھے ان کا احساس ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ گاؤں علی شیر جعفری کے لوگ ہیپاٹائٹس سی کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ میں نے ان سے وعدہ بھی کیا تھا مگر افسوس کہ 5 سالہ دور کے دوران کووڈ کی وبا کی وجہ سے مذکورہ گاؤں کے مسائل کو حل کرنے میں ناکامی ہوئی ہے۔ صیفل یو سی میں آلودہ پانی پینے سے یہ جان لیوا مرض بڑھتا ہی چلا گیا ہے۔ علی شیر جعفری کے مطابق رہائشیوں کا غصہ جائز ہے۔ وہ کہتے ہیں میں مانتا ہوں کیونکہ کووڈ کی وجہ سے ملک بھر میں عوام کے مسائل سے نپٹنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی نے دن رات کام کیا جو کہ آج بھی میڈیا کے ریکارڈ پر موجود ہے۔ گاؤں شفیع محمد جعفری کے رہائشی لوگ میرے حلقے کے ہیں، اگر ووٹ دینے سے انکار کر رہے ہیں تو یہ غلط عمل ہے۔ وہ ووٹ دیں یا نہ دیں، انشاء اللہ آئندہ آنے والی حکومت میں سب سے پہلے اس گاؤں میں صاف پانی مہیا کرنے کو یقینی بناؤں گا اور ساتھ ہی صحت کے بنیادی مراکز بھی قائم کروں گا۔ بیمار افراد کا علاج ممکن بناؤں گا اور یہ میڈیا کے سامنے میں وعدہ کرتا ہوں کہ صحت، تعلیم، روزگار جیسے اپنے حلقے کے مسائل حل کرنا میرا اور میری پارٹی کا اولین فرض ہو گا۔

ایڈووکیٹ عبدالغنی بجارانی جنہوں نے جی ڈی اے کے ٹکٹ پر 2018 کے عام انتخابات میں این اے 197 سے پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار سردار احسان الرحمان مزاری سے مقابلہ کیا تھا، انہوں نے کہا کہ یہاں موروثی سیاست دان عوام کا خون چوس رہے ہیں۔ گذشتہ 20 سالوں سے ضلع کشمور، کندھ کوٹ اور تنگوانی کے عوام گدلا پانی پینے پر مجبور ہیں۔ نمائندگان کا یہ حال ہے کہ جو کروڑوں روپے انتخابات میں خرچ کر کے کامیابی حاصل کرتے ہیں الیکشن ختم ہو جائے تو نظر بھی نہیں آتے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جھوٹے وعدوں سے عوام کو ہر بار بے وقوف بنایا ہے۔ کسی بھی علاقے میں چلے جاؤ وہاں پر لوگوں کے ہزاروں مسائل ملیں گے۔ گاؤں شفیع محمد جعفری کے لوگ جان لیوا مرض میں مبتلا ہو کر سسک رہے ہیں۔ اس گاؤں میں صاف پانی تک مہیا نہیں کیا گیا۔ افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ عوام میں تبدیلی نظر آ رہی ہے۔ لوگ کسی بھی امیدوار کے انتخاب میں اپنا حق ادا کریں گے۔ میرا تو سب سے پہلے یہی فریضہ ہو گا کہ میں اسمبلی کی رکنیت حاصل کر کے اپنے حلقے اور ضلع بھر کے عوام کو صحت کے مراکز اور صاف پانی کی فراہمی یقینی بناؤں۔

کندھ کوٹ کے محکمہ پبلک ہیلتھ کے انجینیئر کیلاش کمار نے آلودہ پانی کے مسئلے کے متعلق بتایا کہ گاؤں شفیع محمد جعفری میں گدلا پانی ہے، ہم نے کئی بار متعلقہ انتظامیہ کو رپورٹس بنا کر بھیجی ہیں مگر بجٹ نہیں ہے کہ وہاں پر واٹر سپلائی لگایا جائے کیونکہ 32 کروڑ کی لاگت سے کندھ کوٹ شہر کی سکیم بھی بجٹ کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے تو گاؤں میں کہاں سے واٹر سپلائی لگائی جائے گی؟ اب تو نگران سیٹ اپ چل رہا ہے، جب تک حکومت میں کوئی نمائندہ نہیں آتا تب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکے گا۔

حضور بخش منگی 15 سالوں سے شعبہ صحافت کے ساتھ وابستہ ہیں۔ آج کل کندھ کوٹ میں آج نیوز کے رپورٹر ہیں اور کندھ کوٹ پریس کلب کے جوائنٹ سیکرٹری بھی ہیں۔