ملا صدرا کے نزدیک خواتین کی حیثیت حیوانات سے زیادہ کچھ نہیں

ملا صدرا کے نزدیک خواتین کی حیثیت حیوانات سے زیادہ کچھ نہیں
ہم جنس پسندی اکثر جنسِ مخالف سے بیزاری کے ہمراہ ہوتی ہے۔ ملا صدرا (متوفیٰ 1640) کی ہم جنس پسندی کا تذکرہ ہم پہلے کر چکے ہیں۔ البتہ اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ وہ لواط میں مبتلا تھے، بلکہ اس سے فقط ان کی مردانہ جسمانی حسن کی طرف رغبت ظاہر ہوتی ہے۔ ملا صدرا نے اسے استاد اور شاگرد کے تعلق کا لازمہ سمجھا جبکہ استاد کو شاگرد کی ذہانت سے غرض ہوتی ہے۔ جسمانی اداؤں پر نظر رکھنے والا استاد تعلیم کو نقصان پہنچاتا ہے۔

آج کل مغربی دنیا کے بعض جدید لکھاری لواط اور پاکیزہ ہم جنس پسندی میں فرق کر رہے ہیں اور لواط کو ہم جنس پسندی کا لازمہ قرار نہیں دیتے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ملا صدرا نے اس بات کو صدیوں پہلے درک کر لیا تھا۔ جہاں آج کے ما بعد جدیدیت کے قائل ادیب پہنچے ہیں، وہاں یہ ناول نگار بہت پہلے پہنچ چکا تھا۔ البتہ تعجب ہوتا ہے کہ وہ لوگ جو ملا صدرا سے کبھی آئن سٹائن کا نظریۂ نسبیت برآمد کرتے ہیں تو کبھی اسے اٹامک تھیوری کا بانی قرار دیتے ہیں، جبکہ نہ انہیں خود ان کا کچھ پتا ہے اور نہ ملا صدرا بیچارے کو ان جدید ریاضی پر مبنی نظریات کی کچھ خبر تھی، وہ ملا صدرا کے ہم جنس پسندی والے نظریات کا کیوں ذکر نہیں کرتے کہ جنہیں اہلِ مغرب اب آ کر درک کر رہے ہیں؟

اگرچہ ہم جنس پسندی والی فصل میں ہی ملا صدرا نے جنسِ مخالف سے محبت کو برا سمجھا ہے اور خواتین کے جسمانی حسن کی طرف ملتفت نہیں ہوئے اور نکاح کی توجیہ محض اولاد پیدا کرنے کی مجبوری سے کی ہے۔[1] یہاں اسی ناول ‘اسفار اربعہ’ سے ایک اور عبارت پیش کی جا رہی ہے جو ملا صدرا کی خواتین سے بیزاری کو ظاہر کرتی ہے۔ ملا صدرا پہلے ایک فصل قائم کرتے ہیں جس میں اپنے تخیلات کے مطابق انسان کی پیدائش کی حکمت اور غایت بیان کرتے ہیں۔ اس کے بعد آپ ایک اور فصل قائم کرتے ہیں جس میں حیوانات کی پیدائش کا مقصد انسانوں کی خدمت قرار دیتے ¬ہوئے خواتین کو حیوانات میں شمار کرتے ہیں:

و منها تولد الحیوانات المختلفة؛ وَ بَثَّ فِیها مِنْ کُلِّ دَابَّةٍ بعضها للأکل وَ الْأَنْعامَ خَلَقَها لَکُمْ فِیها دِفْ‌ءٌ وَ مَنافِعُ وَ مِنْها تَأْکُلُونَ و بعضها للرکوب و الزینة وَ الْخَیْلَ وَ الْبِغالَ وَ الْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوها وَ زِینَةً و بعضها للحمل وَ تَحْمِلُ أَثْقالَکُمْ إِلى‌ بَلَدٍ لَمْ تَکُونُوا بالِغِیهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ إِنَّ رَبَّکُمْ لَرَؤُفٌ رَحِیمٌ و بعضها للتجمل و الراحة وَ لَکُمْ فِیها جَمالٌ حِینَ تُرِیحُونَ وَ حِینَ تَسْرَحُونَ و بعضها للنکاح وَ اللَّهُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْواجاً و بعضها للملابس‌ و البیت و الأثاث وَ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ جُلُودِ الْأَنْعامِ بُیُوتاً تَسْتَخِفُّونَها یَوْمَ ظَعْنِکُمْ وَ یَوْمَ إِقامَتِکُمْ- وَ مِنْ أَصْوافِها وَ أَوْبارِها وَ أَشْعارِها أَثاثاً وَ مَتاعاً إِلى‌ حِینٍ.

"اور انہی نعمتوں میں مختلف حیوانات کی خلقت بھی شامل ہے، وَ بَثَّ فِیها مِنْ کُلِّ دَابَّةٍ (اور زمین میں ہر قسم کے حیوانات پھیلا دیے: سورۃ بقرہ، آیت 164)۔ جن میں سے بعض کو کھانے کے لیے بنایا، وَ الْأَنْعامَ خَلَقَها لَکُمْ فِیها دِفْ‌ءٌ وَ مَنافِعُ وَ مِنْها تَأْکُلُونَ (اور چوپائے، جن میں تمہارے لیے گرم لباس ہیں اور منافع ہیں اور بعض تمہارے کھانے کے کام آتے ہیں: سورۃ نحل، آیت 5)۔ بعض سواری اور زینت کے کام آتے ہیں، وَ الْخَیْلَ وَ الْبِغالَ وَ الْحَمِیرَ لِتَرْکَبُوها وَ زِینَةً (گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا کہ تم ان کی سواری لو اور وه باعثِ زینت بھی ہیں: سورۃ نحل، آیت 8)۔ اور بعض بار برداری کے کام آتے ہیں، وَ تَحْمِلُ أَثْقالَکُمْ إِلى‌ بَلَدٍ لَمْ تَکُونُوا بالِغِیهِ إِلَّا بِشِقِّ الْأَنْفُسِ إِنَّ رَبَّکُمْ لَرَؤُفٌ رَحِیمٌ (اور وه تمہارے بوجھ ان شہروں تک اٹھا لے جاتے ہیں جہاں تم بغیر آدھی جان کئے پہنچ ہی نہیں سکتے تھے۔ یقیناً تمہارا رب بڑا ہی شفیق اور نہایت مہربان ہے: سورۃ نحل، آیت7)۔ اور بعض جانور تجمل اور راحت کے لیے ہیں، وَ لَکُمْ فِیها جَمالٌ حِینَ تُرِیحُونَ وَ حِینَ تَسْرَحُونَ (اور ان میں تمہاری رونق بھی ہے جب چرا کر لاؤ تب بھی اور جب چرانے لے جاؤ تب بھی: سورۃ نحل، آیت6)۔ اور بعض اس لیے ہیں کہ ہم ان سے نکاح کریں، وَ اللَّهُ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ أَنْفُسِکُمْ أَزْواجاً (اور اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے تم میں سے ہی تمہاری بیویاں پیدا کیں: سورۃ نحل، آیت 72)۔ بعض لباس اور گھر بنانے اور گھریلو استعمال کی اشیا میں استعمال ہوتے ہیں، وَ جَعَلَ لَکُمْ مِنْ جُلُودِ الْأَنْعامِ بُیُوتاً تَسْتَخِفُّونَها یَوْمَ ظَعْنِکُمْ وَ یَوْمَ إِقامَتِکُمْ وَ مِنْ أَصْوافِها وَ أَوْبارِها وَ أَشْعارِها أَثاثاً وَ مَتاعاً إِلى‌ حِینٍ. (اور اسی نے تمہارے لیے چوپایوں کی کھالوں کے گھر بنا دیے ہیں، جنہیں تم ہلکا پھلکا پاتے ہو اپنے کوچ کے دن اور اپنے ٹھہرنے کے دن بھی، اور ان کی اون اور روؤں اور بالوں سے بھی اس نے بہت سے سامان اور ایک وقت مقرره تک کے لیے فائده کی چیزیں بنائیں: سورۃ نحل، آیت80)۔"[2]

small_asfar-e-arba-sadruddin-shirazi-ebooks
ملا صدرا کا ناول 'اسفار اربعہ'


یہاں ملا صدرا نے شادی والی آیت کو جانوروں والی آیات کے سیاق و سباق کے ساتھ لکھ کر تفسیر بالرائے سے کام لیا ہے۔ ایک اور صوفی ادیب اور شاعر، ملا ہادی سبزواری (متوفیٰ 1873ء)، اس عبارت کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:

فی إدراجها فی سلک الحیوانات إیماء لطیف إلى أن النساء لضعف عقولهن و جمودهن على إدراک الجزئیات و رغبتهن إلى زخارف الدنیا کدن أن یلتحقن بالحیوانات الصامتة حقا و صدقا أغلبهن سیرتهن الدواب و لکن کساهن صورة الإنسان لئلا یشمئز عن صحبتهن و یرغب فی نکاحهن.

”ملا صدرا کا خواتین کو جانوروں میں شمار کرنا اس لطیف عرفانی نکتے کی طرف اشارہ ہے کہ عورتیں ذہانت کی کمی اور جزئیات تک محدود رہنے اور دنیا کی زیب و زینت سے لگاؤ رکھنے کی وجہ سے حقیقت میں گونگے حیوانوں جیسی ہیں۔ ان کی اکثریت چوپایوں جیسی سیرت رکھتی ہے لیکن ان کو انسانی شکل میں پیدا کیا گیا تاکہ مرد ان سے ملاپ کرتے ہوئے کراہت محسوس نہ کریں اور ان سے نکاح کرنے میں رغبت محسوس کریں۔[3]

خواتین کو مردوں کے استعمال کی چیز سمجھنا اور ان کی اپنی ذاتی حیثیت کی نفی کرنے کا تصور اکثر صوفیوں کے ہاں ملتا ہے۔ مثال کے طور پر شیخ احمد سرہندی عرف مجدد الف ثانی (متوفیٰ 1624ء) فرماتے ہیں:

”الله نے ریشم کے لباس کو عورتوں کے لیے حلال فرما دیا کہ عورتوں کی زیب و زینت کا فائدہ آخر کار مردوں کو ہی ہوتا ہے اور ایسے ہی چاندی سونے کا حال ہے کہ عورتوں کے زیورات کو مردوں کے لیے فائدے اور خوشی کا باعث بنا دیا۔"[4]

خواتین سے بیزاری کا مسئلہ اکثر صوفیا کو درپیش ہے۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں:
حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن!

وہ بھی خواتین کی اپنی انسانی حیثیت کو قبول کرنے کے قائل نہیں ہیں۔ فرماتے ہیں:

نے پردہ، نہ تعلیم، نئی ہو کہ پرانی
نسوانیتِ زن کا نگہباں ہے فقط مرد




حوالہ جات:

[1] حمزہ ابراہیم، ”ہم جنس پسندی اور مُلا صدرا“، نیا دور، 5 اکتوبر 2022ء۔

[2] ملا صدرا ،”اسفار اربعہ“،جلد 7 ، صفحہ 136،دار احياء التراث العربی، بيروت، 1981ء۔

[3] ایضاً

[4] شیخ احمد فاروقی سرہندی، ،”مکتوبات حضرت مجدد الف ثانی“، دفتر اول، مکتوب 191، صفحہ 48، ادارہ مجددیہ، کراچی۔

ڈاکٹر حمزہ ابراہیم مذہب، سماج، تاریخ اور سیاست پر قلم کشائی کرتے ہیں۔