چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت 3 اکتوبر تک ملتوی کر دی۔ چیف جسٹس نےریمارکس دیے کہ اگر ہر طرف سے سوال ہوگا تو آپ کو جواب دینے میں مشکل آئے گی۔ آپ فوری طور پر سوال کا جواب نا دیں، سوالات نوٹ کرلیں اور پھر جواب دیں، جس طرح آپ چاہتے ہیں دلائل دیں۔احتساب اور شفافیت کو یقینی بنانا ہے. مجھے اپنے لئے ایسی پاور نہیں چاہئیں. قانون اچھا بنائیں یا نہیں. پارلیمنٹ کی بے توقیری نہیں کریں گے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواست کی سماعت ہوئی۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ کی کارروائی براہ راست دکھائی گئی۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں فل کورٹ بینچ جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس سید منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحییٰ آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس سید مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس سید حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید اور جسٹس مسرت ہلالی پر مشتمل ہے۔
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں تمام درخواستیں مسترد کرنے کی استدعا کی۔
وفاقی حکومت نے تحریری جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔ جواب میں حکومت نےموقف اپنایا کہ پارلیمنٹ کےقانون کیخلاف درخواستیں ناقابل سماعت ہیں۔ استدعا ہے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیخلاف درخواستیں خارج کی جائیں۔ پارلیمنٹ آئین کے آرٹیکل 191 کے تحت قانون سازی کر سکتی ہے۔آئین کا آرٹیکل 191 پارلیمنٹ کو قانون بنانے سے نہیں روکتا، پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سے عدلیہ کی آزادی متاثر نہیں ہوتی۔
مذکورہ ایکٹ کے تحت سپریم کورٹ کا کوئی اختیار واپس نہیں کیا گیا۔میرٹ پر بھی پارلیمانی قانون کے خلاف درخواستیں نا قابل سماعت ہیں۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر کیس کی سماعت کےآغاز میں کہا کہ معذرت چاہتا ہوں کہ سماعت شروع ہونے میں تاخیر ہوئی۔ تاخیر کی یہ وجہ تھی کہ سماعت کو لائیو دکھایا جاسکے۔ کیس کو حل کرنے کا بہترین طریقہ یہ تھا کہ فل کورٹ بنایا جائے۔
وکیل درخواست گزار خواجہ طارق رحیم نے اپنے دلائل میں کہا کہ یہ میرے لیے قابل فخر ہے کہ فل کورٹ کے سامنے پیش ہو رہا ہوں، امید ہے بار اور بینچ مل کر کام کریں گے۔
چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ تاخیر سے آنے پر معذرت خواہ ہوں، ہم نے براہ راست کوریج کی اجازت دے دی ہے اور براہ راست کوریج میں خلل نا آئے اس لیے ایک کمیٹی تشکیل دی ہے۔ خواجہ طارق رحیم اپنے دلائل مختصر اور جامع رکھیے گا کیونکہ بینچ میں کچھ ججز ایسے ہیں جو پہلی مرتبہ کیس سن رہے ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ میں فل کورٹ کی مکمل حمایت کرتا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ماضی کو بھول جائیں آج کی بات کریں۔ جسٹس عائشہ ملک نے ریمارکس دیے کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کے سیکشن 5 میں اپیل کا حق دیا گیا ہے اس پر کیا کہیں گے، اگر ہم نے فل کورٹ پر کیس کا فیصلہ کرلیا اور قانون درست قرار دے دیا تو اپیل کا حق کہاں جائے گا۔
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میں اس پر دلائل دوں گا، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ خواجہ صاحب، پورا قانون پڑھیں، قوم کا وقت بڑا قیمتی ہے۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ 1980 کے رولز کا حوالہ دینا چاہتا ہوں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملک کی عوام کے 57ہزار مقدمات انصاف کے منتظر ہیں، آپ پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون پڑھیں۔ وہ الفاظ استعمال نا کریں جو قانون میں موجود نہیں ہیں۔ خواجہ طارق رحیم نے 1980 کے رولز کا بھی حوالہ دیا۔
جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ آپ پہلے قانون پڑھ لیں آپ کی بڑی مہربانی ہوگی جبکہ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ کس رول کا حوالہ دے رہے ہیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ خواجہ صاحب آپ قانونی معروضات کی طرف آئیں، جو ماضی میں ہوا کیا آپ اسے سپورٹ کرتے ہیں، دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے بھی سوال کیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر ہر طرف سے سوال ہوگا تو آپ کو جواب دینے میں مشکل آئے گی، آپ فوری طور پر سوال کا جواب نا دیں، سوالات نوٹ کرلیں اور پھر جواب دیں، جس طرح آپ چاہتے ہیں دلائل دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ آپ آرٹیکل 191کو پڑھیں۔ خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ عدالت کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار فیڈرل لیجسلیٹو لسٹ شییڈول کے تحت سپریم کورٹ کا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پہلے قانون پڑھیں پھر تشریح کریں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ اختیارات سماعت اور اختیار کا ذکر قانون میں نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ کا اپنا اختیار ہے کہ وہ اپنے اختیارات کو ریگولیٹ کرے، کیا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ 1980 کے رولز آئین سے متصادم ہیں۔
خواجہ طارق نے کہا کہ 1980 کے رولز فل کورٹ نے بنائے تھے اور وہ رولز درست ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آئین وقانون کو اس قانون نے غیر موثر کر دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ مستقبل کی بات نا کریں اور اپنے دلائل کو حال تک محدود رکھیں، مستقبل میں اگر قانون سازی ہوئی تو آپ پھر چیلنج کر دیجیے گا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 3رکنی کمیٹی کو آرٹیکل 184کی شق 3 کے اختیار کی اجازت دینا کیا یہ عدالتی اختیار ہے یا انتظامی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال اٹھایا کہ اگر انتظامی اختیار ہے تو کیا پارلیمنٹ نے جوڈیشل اختیار ختم کرلیا ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ سپریم کورٹ کا ایک فیصلہ ہے جس میں آرٹیکل 184کی شق کے استعمال کا طریقہ کار موجود ہے، اس فیصلے میں اصول طے کیا گیا کہ کوئی بینچ آرٹیکل 184کی شق تین کے استعمال کے لیے چیف جسٹس کو معاملہ بھیج سکتا ہے۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرے چیف جسٹس پاکستان نے کہا سوال لکھ لیں، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے تو عدالتی اختیار کو ختم کر لیا گیا ہے، پارلیمنٹ نے قانون بناکر جوڈیشل پاور کا راستہ بند کر دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پبلک انٹرسٹ کی تعریف کیا ہے اور آپ کس کی طرف سے دلائل دے رہے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ کیا آپ کو ناقابل اجتناب چیف جسٹس کے اختیارات کے استعمال پر کوئی اعتراض نہیں۔
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ پارلیمنٹ نے تو اختیار لے لیا ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے سوال کیا کہ کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ اس قانون سازی سے چیف جسٹس کے اختیارات کو ختم کردیا گیا ہے۔
ایڈوکیٹ طارق رحیم کے جواب پر چیف جسٹس نے دلچسپ مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پھر جواب دینے بیٹھ گئے ہیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے استفسار کیا کہ کیا چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کو واپس لیا گیا ہے اور سپریم کورٹ کے اختیارات کو ختم کیا گیا ہے؟ جسٹس اطہر من اللہ نے پوچھا کہ آپ متفق ہیں کہ چیف جسٹس پاکستان ماسٹر آف روسٹر ہیں۔
خواجہ طارق رحیم نے دلائل میں کہا کہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ یہ اختیار پارلیمنٹ استعمال نہیں کر سکتا۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا آپ نہیں سمجھتے کہ چیف جسٹس کے اختیارات کو آئینی ترمیم کے ذریعے ہی ریگولیٹ کیا جاسکتا ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ 17 ججز فل کورٹ کے ذریعے اختیارات کو ریگولیٹ کرسکتے ہیں لیکن پارلیمنٹ نہیں کرسکتی۔
خواجہ طارق رحیم نے جواباً کہا کہ میں ایسا نہیں کہہ رہا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میں اپنے ساتھی ججز سے درخواست کر رہا ہوں اور آپ ہماری مدد کے لیے آئے ہیں، اگر ہرطرف سے سوالات کی بمباری ہوگی تو کیس نہیں چل سکے گا، آپ اپنے طریقے سے دلائل دیں۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہمارے پاس فوجی آمر کا ایک قانون تھا، کیا فوجی آمر کا قانون درست ہے یا پارلیمنٹ کی کی گئی قانون سازی درست ہے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ پہلے صرف یہ بتا دیں پریکٹس اینڈ پروسیجر آئینی ہے یا غیر آئینی؟
خواجہ طارق رحیم نے کہا کہ اپیل کا حق دینے کے لیے آئینی ترمیم کی ضرورت ہے اور پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون غیر آئینی ہے۔
جسٹس منیب اختر نے سوال کیا کہ کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کرسکتا ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ دلائل دیتے ہوئے آگے بڑھیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ بیرونی جارحیت کے خطرات کو روکنے کے لیے عدلیہ کی خود مختاری کا تصور ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم نہیں چاہتے آپ ہر سوال کا جواب دیں اور ہم یہاں ایک دوسرے سے بحث کرنے نہیں آئے، ایک سیکشن اور پڑھ لیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میرا ایک سوال اور ہے، کیا سپریم کورٹ کے انتظامی اختیارات پارلیمنٹ کو سونپنا اختیارات کی تقسیم کے تصور سے متصادم نہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کسی ایک آئینی آرٹیکل کا حوالہ نہیں دیا، ہم نے خود سے ازخود نوٹس نہیں لیا، آپ خود عدلیہ کے دفاع کے لیے رونما ہوئے ہیں اور اچھی بات ہے آپ میرے حقوق کی بات کر رہے ہیں لیکن یہاں سوال کسی کے حقوق کا نہیں بلکہ آئینی سوال ہے، میرے دوست ججز کے سوالات بہت اچھے ہیں لیکن ابھی صرف سوالات نوٹ کرلیں۔
جسٹس مسرت ہلال نے کہا کہ کیا یہ قانون عوامی مفاد میں بنایا گیا ہے اور کیا قانون ذاتی مفادات کے تحت ہے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو قانون بنانے میں محدود کرسکتی ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے درخواست دی میں نے 10 سال سماعت نہیں کی، ٹیکس اور عوامی بجٹ سے سپریم کورٹ چلتی ہے، ہم نے اوپر والے کو بھی جواب دینا ہے، آپ مکمل طور پر چیف جسٹس پاکستان کو ناقابل اختیار بنانا چاہتے ہیں تو میں خوش ہوں، آئین اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع ہوتا ہے، عدلیہ کی آزادی کی بنیاد پر کسی کا دروازے بند نہیں کیا جاسکتا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریارکس دیے کہ ریکوڈک منصوبے کو سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184 کی شق کے تحت اڑا دیا، ملک کو 6.5بلین ڈالرز کی ’’ڈز‘‘ لگی، میں اپنے لیے ایسا اختیار استعمال نہیں کرنا چاہوں گا، برائے مہربانی مجھے ایسا اختیار نہیں چاہیے۔
جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ فل کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل کہاں جائے گی جبکہ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ 3رکنی کمیٹی نے طے کرنا ہے بینچ پانچ رکنی ہوگا یا اس سے بڑا ہوگا۔
دوسرے درخواست گزار کے وکیل امتیاز صدیقی کے دلائل
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ قانون نے چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کر دیا، اس سے تو کسی کا بنیادی حق متاثر نہیں ہو رہا اور متاثرہ فریق کو اپیل کا حق دیا گیا ہے، پارلیمنٹ نے چیف جسٹس کے اختیارات کو ریگولیٹ کرکے عدلیہ کی آزادی کو مزید تقویت دی۔
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ پوری دنیا میں ماسٹر آف روسٹر چیف جسٹس نہیں ہے، پارلیمنٹ نے قانون بنا کر عدلیہ کو مضبوط کیا۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو ایسی قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔
ایڈوکیٹ امتیاز علی نے کہا کہ اختیار فل کورٹ میٹنگ کو حاصل ہے۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم اپنی مرضی کے مقدمات سنیں تو پھر ٹھیک ہے؟ کیا ہم غیر منتخب ججز پارلیمنٹ کی قانون سازی کا حق ختم کرسکتے ہیں۔
اسی دوران، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ لگتا ہے اختیارات کو ریگولیٹ کرنے کے معاملے پر میرے ساتھی ججز میرے خلاف ہوگئے ہیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم غیر منتخب 15ججز پارلیمنٹ کو قانون سازی سے کیسے روک سکتے ہیں۔
جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ امتیاز صدیقی صاحب آپ سوالات لکھ کہاں رہے ہیں، جس پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہم ججمنٹ اورینٹڈ بن چکے ہیں، میں نے آئین کے تحت حلف اٹھا رکھا ہے، اس ملک میں کئی بار مارشل لاء لگے، میں ان فیصلوں کو نہیں دیکھوں گا، 57ہزار مقدمات زیر التواء ہیں، مجھے آئین بتائیں فیصلہ نا بتائیں۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 191میں پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل میں کہا کہ ہمارے چیف جسٹس کے اختیارات کو تقسیم کیا جا رہا ہے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ کیا کسی فرد واحد کو لامحدود ناقابل احتساب اختیار دیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمیں صرف یہ بتا دیں کونسا بنیادی حق متاثر ہوا ہے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ آئینی اختیارات میں مداخلت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ہمارے معاشرے میں ہر مرتبہ مارشل لاء لگانے والے آمر کو 98.6فیصد ووٹ ملتے ہیں، ہم قانون کو جانچنے کے لیے ریفرنڈم نہیں کروا سکتے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چیف جسٹس پاکستان کے اختیارات کو ریگولیٹ کرنا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کیسے ہے۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ میری دلیل ہے قانون اچھا ہے لیکن طریقہ کار غلط اپنایا گیا، عدلیہ کو خود اختیارات کو ریگولیٹ کرنا چاہیے تھا۔
جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ کون ہوتی ہے جو بتائے کہ کمیٹی تین رکنی ہی ہوگی، پانچ رکنی کمیٹی کیوں نہیں کرسکتی، کیا پارلیمنٹ فیملی کیسز سننے کے لیے سات رکنی بینچ تشکیل دینے کا قانون بنا سکتی ہے، سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے، پارلیمنٹ پک اینڈ چوز کیسے کرسکتی ہے، امریکا میں مانع حمل بارے ایک کیس میں کافی تنازعہ رہا۔
چیف جسٹس نے وکیل امتیاز صدیقی سے کہا کہ آپ اپنی مرضی سے دلائل دیں۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ عدلیہ کی آزادی اندرونی آزادی بھی ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بیلٹ کے ذریعے بینچ تشکیل دیے جاتے ہیں، دنیا میں کہیں بھی چیف جسٹس کو بینچ بنانے کا حق نہیں۔ ہے۔
جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ ہم تمام ججز سوالات بعد میں کریں گے، پہلے وکیل کو دلائل مکمل کرنے دیں۔ جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ میرا سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کو یہ حق حاصل کیسے ہوا جبکہ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ رولز ایکٹ سے بالاتر کیسے ہوسکتے ہیں؟
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے کہ عدالتی رولز قانون سے بالاتر ہیں، عدالتی فیصلے کے مطابق آئینی روایات بھی آئین کا درجہ رکھتی ہیں، سپریم کورٹ رولز آئینی ادارے نے بنائے اس لیے قانون سے بالا قرار دیے گئے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے سوال کیا کہ کیا پارلیمان آئینی ادارہ نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں اس میں یہ نہیں لکھا کہ رولز قانون سے بالاتر ہیں۔
وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ پورا فیصلہ پڑھ دیتا ہوں واضح ہوجائے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پورے فیصلے کا کہہ کر ہمیں ڈرائیں نہ، نشاندہی کریں ہم پڑھ لیں گے، آپ کی دلیل سے متفق ہوتے ہوئے بھی درخواست خارج کر سکتا ہوں، جس فیصلے کا حوالہ دے رہے ہیں وہ آپ کے حق میں نہیں جاتا، وقت بچانے کے لیے اگر پہلے اٹارنی جنرل کو سن لیں انہوں نے ملک سے باہر جانا ہے۔ چیف جسٹس نے امتیاز صدیقی سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کو دوبارہ بھی دلائل کا موقع دیں گے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل
اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا کہ سندھ طاس معاہدے سے متعلق کیس کے لیے ویانا جانا ہے، اپنی تحریری معروضات پیش کر چکا ہوں آدھے گھنٹے میں دلائل ختم کروں گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کوشش ہوگی کہ اٹارنی جنرل سے سوالات نہ پوچھیں تاکہ وہ بیرون ملک جا سکیں۔
عدالت نے کیس کی سماعت میں تین بجے تک کا وقفہ کیا۔ وقفے کے بعد اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل شروع کیے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ اس ادارے میں شفافیت لایا، یہ قانون خود عوام کے اہم مسائل حل کرنے کے لیے ہے، قانون کے ذریعے سارے اختیارات اس عدالت کے اندر ہی رکھے گئے ہیں، یہ درست ہے کہ عدلیہ کی آزادی ہر شہری سے متعلقہ ہے۔ اٹارنی جنرل نے ایکٹ 1935، 1956 اور 1962 کے آئین کا حوالہ دیا۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں مزید کہا کہ 1926 کا آئین سپریم کورٹ رولز کو صدر کی پیشگی اجازت سے مشروط کرتا ہے اور 1973 کے آئین میں عدلیہ کو اس کو اس لیے آزاد بنایا گیا ہے، کسی اور ادارے کو پریکٹس اینڈ پروسیجر کے قانون میں ترمیم کا اختیار نہیں دیا گیا، یہ قانون صرف سپریم کورٹ کے لیے ہے، قانون کے خلاف دائر درخواستیں قابل سماعت ہی نہیں۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں بھارت، بنگلہ دیش اور امریکا سمیت مختلف ممالک کا حوالہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ دنیا کے کئی ممالک میں عدلیہ کے اختیارات سے متعلق قانون بنانے کا اختیار حکومت کے پاس ہے، ایکٹ آف پارلیمنٹ اور قانون میں کوئی فرق نہیں، پارلیمنٹ نے شفافیت لانے کے لیے پریکٹس اینڈ پرویسجر قانون بنایا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ عوامی اہمیت کی حد تک دونوں فریقین متفق ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میری رائے میں میرے ساتھی جج ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ آرٹیکل 184 کی شق کے تحت ہمارے اختیارات ہائیکورٹ سے کم ہیں۔ جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ کیا قانون سازی کے کے خلاف دائر کی گئی درخواست بنیادی حقوق کے نفاذ کے لیے دائر کی گئی ہے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ کیس یہ نہیں کہ بنیادی حقوق کے نفاذ میں خلل ڈالا ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ قانون انصاف کی فراہمی کے لیے ایک اچھا قانون ہے، کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی کرسکتی ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ قانون غیر آئینی ہوسکتا ہے لیکن کیا ہم آرٹیکل 184کی شق 3 کے تحت کیس سن سکتے ہیں، پاکستان میں اور بھی غیر آئینی کام ہوتے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا اختیار ہے یا نہیں یہ طے کرنا ہائیکورٹ کا اختیار ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر فیصلہ آئے تو کون متاثرہ فریق ہوگا جو اپیل دائر کرے گا، آرٹیکل 184کی شق 3وکلاء اور اشرافیہ کے لیے نہیں بلکہ یہ معاشرے کے لیے ہے۔ مزدوروں، خواجہ سراؤں اور غریبوں کے حقوق کے لیے ہے۔ قانون کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں، سوال یہ ہے کہ اس قانون سے متاثر کون ہو رہا ہے، آپ ہماری معاونت کے لیے آئے ہیں، ہم آپ کی معاونت کے لیے یہاں نہیں بیٹھے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ آرٹیکل 185 میں اپیل کا حق لیا گیا ہے، کیا عام قانون کے ذریعے اپیل کا حق دیا جاسکتا ہے جبکہ آئین میں اپیل نا ہو۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سوال نوٹ کرلیں، جو آبزرویشن دی جا رہی ہیں میں خود کو ان سے الگ کرتا ہوں، جو آبزرویشنز دی جا رہی ہیں وہ آبزرویشنز نہیں اسٹیٹمنٹس ہیں، آپ مہربانی فرمائیں آگے چلیں ہم نے فیصلہ بھی لکھنا ہے، آئین میں انتظامی سطح پر فل کورٹ میٹنگ کا ذکر ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 2019 میں 40 ہزار کیسز تھے، 2019 میں فل کورٹ میٹنگ ہوئی تھی اور 4 سال بعد دوبارہ میٹنگ ہوئی، ہم انصاف کی فراہمی کے لیے عوام سے تنخواہ لیتے ہیں۔
جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ کو ریگولیٹ کرنے کے لیے 1980 کے رولز آرٹیکل 191 کے معیار پر پورا ہی نہیں اترتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیا 6 اعشاریہ 5 ارب ڈالرز کے ریکوڈک کا فیصلہ اچھا تھا، ہم امریکا کے فیصلوں کو مثال کے طور پر پیش کرنا پسند کرتے ہیں، ہم یہ مثال کیوں نہیں دیتے کہ امریکی سپریم کورٹ نے اپنے صدر کو 20منٹس دیے تھے، صبح سے اب تک 150 نئے کیسز دائر ہو چکے ہوں گے، ہم ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے ہیں، لوگوں جیلوں میں مر رہے ہیں اور مجھے افسوس ہو رہا ہے، ہم غریب لوگوں کی جیبوں سے تنخواہ لیتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ میں لیکچر نہیں دے رہا لیکن سوال کر رہا ہوں، کیا پارلیمنٹ ایسی قانون سازی نہیں کرسکتا۔ جسٹس عائشہ ملک نے کہا کہ اگر کمیٹی فیصلہ کرے تو اس فیصلے کے خلاف متاثرہ فریق کو اپیل کا حق ہوگا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ 184کی شق 3کے تحت آئینی سوال پر رجسٹرار اعتراض عائد کیا جاتا ہے، رجسٹرار آفس کے اعتراض کے خلاف اپیل ایک جج چیمبر میں سنتا ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر قانون سے مزید اصول طے کیے گئے ہیں، ادھار پیسے نہیں مل رہے، آرٹیکل 184کی شق 3کے تحت آئینی درخواست دی جاتی ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ 3رکنی کمیٹی کے فیصلے کے خلاف رولز میں ترمیم کرکے اپیل کی جا سکتی ہے، ایک کام جو ہم نے نہیں کیا وہ کام پارلیمنٹ نے کر دیا۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئینی ترمیم کے بغیر اپیل کا حق کیسے دیا جاسکتا ہے۔